ظہور احمد سولنگی
محفلین
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
دنیا کو گلوبل ولیج ثابت کرنے کے لئے اگر صرف ایک مثال دینی ہو تو وہ ہے چودہ فروری کو منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے۔ دو سو سے زائد ممالک میں اس دن محبت کے ایک ارب سے زائد تجدید نامے کارڈوں کی صورت ایک دوسرے کو دئیے جاتے ہیں۔ سرخ گلاب، دل کے شکل کے ڈبے میں چاکلیٹ اور جیولری اسکے علاوہ ہے۔گویا تحائف کی مد میں یومِ محبت اس وقت پانچ ارب ڈالر سے زائد کی انڈسٹری ہے۔اس میں فون کالز، ملاقات اور تقریبات کا خرچہ شامل نہیں ہے ۔
اکثردل دینے یا لینے کے لئے یہ دن مناتے ہیں۔کچھ دل کا دل سے تعلق اور مضبوط بنانے کے لئے مناتے ہیں۔ میرے جیسے لوگ دل رکھنے کے لئے مناتے ہیں۔ اور جو یہ سب نہیں کرسکتے وہ شیو سینائی و طالبانی نعرے لگاتے ہوئے پھول فروشوں پر پل کر یا خریداروں کے نکاح نامے چیک کرکے کلیجہ ٹھنڈا کرتے ہیں۔گویامناتے سب ہی ہیں۔مگر اپنے اپنے انداز میں !
مگر کرسمس، عید یا دیوالی کے برعکس ویلنٹائن ڈے کی عالمی بسنت کے موقع پر دل کی پتنگ اڑانے والوں، یا ڈنڈوں کی مدد سے دل کا مانجھا لوٹنے والوں میں سے کوئی بھی یہ جاننے کے لئے بے تاب نہیں ہوتا کہ یہ دن آخر چودہ فروری کو ہی کیوں آتا ہے اور اسے ویلنٹائن ڈے ہی کیوں کہا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ کہانی اٹھارہ سو برس پہلے بھی اتنی ہی رومانٹک تھی جتنی کہ آج ہے۔اس وقت روم میں کلاڈییس کی بادشاہت تھی۔جسے یہ خبط ہوگیا کہ جو شادی شدہ ہوجائے وہ فوج کے قابل نہیں رہتا لہذا جواں عمری کی شادی پر ہی پابندی لگا دی جائے۔مگر روم کے ایک عیسائی مبلغ کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے بادشاہ کی حکم عدولی میں شادی کے خواہشمند لڑکوں، لڑکیوں کو خفیہ طور پر ازدواجی بندھن میں جکڑنے کا کام جاری رکھا۔
بادشاہ کو اسکی بھنک پڑ گئی۔اس نے اس دور کے رواج کے مطابق اس مبلغ کو قید میں ڈلوادیا اور سزائے موت سنا دی۔ دورانِ قید یہ مبلغ جیلر کی لڑکی پر فریفتہ ہوگیا۔اور اس نے اپنی موت سے پہلے کی آخری شام یعنی چودہ فروری کوجیلر کی لڑکی کے نام اپنا مختصر سا محبت نامہ چھوڑا۔جس میں آخری الفاظ تھے فرام یور ویلنٹائن۔
شہیدِ محبت سینٹ ویلنٹائن کے تبرکات آج بھی روم کے چرچ آف سینٹ پریکسڈ اور ڈبلن کے کارملائٹ چرچ میں محفوظ ہیں۔
مگر یہ کوئی ایسی غیر معمولی کہانی تو نہیں کہ جس کی بنیاد پر کوئی عالمی دن منایا جاسکے۔اس سے کہیں زیادہ پراثر کہانیاں تو رومیو جولیٹ، لیلی مجنوں، شیریں فرھاد ، سسی پنوں ، ہیر رانجھا اور رادھا کرشنا ہیں۔
بات یہ ہے کہ سینٹ ویلنٹائن کی کہانی کو بھی انیسویں صدی سے پہلے عام لوگ نہیں جانتے تھے۔ بھلا ہو انگلینڈ کے اس کارڈ بیچنے والے کا کہ جس نے اٹھارہ سو چالیس کے لگ بھگ سینٹ ویلنٹائن کے سرخ دل کو ایک کارڈ پر بنا کر چودھویں صدی کے شاعر چوسر کی ان لائنوں کے ساتھ چھاپ دیا۔
”یہ سینٹ ویلنٹائن ڈے ہے۔جب ہر پرندہ جوڑا بناتا ہے”
یوں انیسویں صدی کا برطانیہ کہ جس کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس سورج میں سینٹ ویلنٹائن کی کرنیں بھی شامل ہوگئیں ۔پھر باقی کام اس یومِ محبت کو مارکیٹنگ والوں نے اچک کر پورا کر لیا۔ دل تو پہلے بھی کسی نہ کسی طور چلا ہی جاتا تھا۔اب یہ ہے کہ بنا چاکلیٹ نہیں جاتا۔
اصل ربط دیکھنے کے لئے
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
دنیا کو گلوبل ولیج ثابت کرنے کے لئے اگر صرف ایک مثال دینی ہو تو وہ ہے چودہ فروری کو منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے۔ دو سو سے زائد ممالک میں اس دن محبت کے ایک ارب سے زائد تجدید نامے کارڈوں کی صورت ایک دوسرے کو دئیے جاتے ہیں۔ سرخ گلاب، دل کے شکل کے ڈبے میں چاکلیٹ اور جیولری اسکے علاوہ ہے۔گویا تحائف کی مد میں یومِ محبت اس وقت پانچ ارب ڈالر سے زائد کی انڈسٹری ہے۔اس میں فون کالز، ملاقات اور تقریبات کا خرچہ شامل نہیں ہے ۔
اکثردل دینے یا لینے کے لئے یہ دن مناتے ہیں۔کچھ دل کا دل سے تعلق اور مضبوط بنانے کے لئے مناتے ہیں۔ میرے جیسے لوگ دل رکھنے کے لئے مناتے ہیں۔ اور جو یہ سب نہیں کرسکتے وہ شیو سینائی و طالبانی نعرے لگاتے ہوئے پھول فروشوں پر پل کر یا خریداروں کے نکاح نامے چیک کرکے کلیجہ ٹھنڈا کرتے ہیں۔گویامناتے سب ہی ہیں۔مگر اپنے اپنے انداز میں !
مگر کرسمس، عید یا دیوالی کے برعکس ویلنٹائن ڈے کی عالمی بسنت کے موقع پر دل کی پتنگ اڑانے والوں، یا ڈنڈوں کی مدد سے دل کا مانجھا لوٹنے والوں میں سے کوئی بھی یہ جاننے کے لئے بے تاب نہیں ہوتا کہ یہ دن آخر چودہ فروری کو ہی کیوں آتا ہے اور اسے ویلنٹائن ڈے ہی کیوں کہا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ کہانی اٹھارہ سو برس پہلے بھی اتنی ہی رومانٹک تھی جتنی کہ آج ہے۔اس وقت روم میں کلاڈییس کی بادشاہت تھی۔جسے یہ خبط ہوگیا کہ جو شادی شدہ ہوجائے وہ فوج کے قابل نہیں رہتا لہذا جواں عمری کی شادی پر ہی پابندی لگا دی جائے۔مگر روم کے ایک عیسائی مبلغ کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے بادشاہ کی حکم عدولی میں شادی کے خواہشمند لڑکوں، لڑکیوں کو خفیہ طور پر ازدواجی بندھن میں جکڑنے کا کام جاری رکھا۔
بادشاہ کو اسکی بھنک پڑ گئی۔اس نے اس دور کے رواج کے مطابق اس مبلغ کو قید میں ڈلوادیا اور سزائے موت سنا دی۔ دورانِ قید یہ مبلغ جیلر کی لڑکی پر فریفتہ ہوگیا۔اور اس نے اپنی موت سے پہلے کی آخری شام یعنی چودہ فروری کوجیلر کی لڑکی کے نام اپنا مختصر سا محبت نامہ چھوڑا۔جس میں آخری الفاظ تھے فرام یور ویلنٹائن۔
شہیدِ محبت سینٹ ویلنٹائن کے تبرکات آج بھی روم کے چرچ آف سینٹ پریکسڈ اور ڈبلن کے کارملائٹ چرچ میں محفوظ ہیں۔
مگر یہ کوئی ایسی غیر معمولی کہانی تو نہیں کہ جس کی بنیاد پر کوئی عالمی دن منایا جاسکے۔اس سے کہیں زیادہ پراثر کہانیاں تو رومیو جولیٹ، لیلی مجنوں، شیریں فرھاد ، سسی پنوں ، ہیر رانجھا اور رادھا کرشنا ہیں۔
بات یہ ہے کہ سینٹ ویلنٹائن کی کہانی کو بھی انیسویں صدی سے پہلے عام لوگ نہیں جانتے تھے۔ بھلا ہو انگلینڈ کے اس کارڈ بیچنے والے کا کہ جس نے اٹھارہ سو چالیس کے لگ بھگ سینٹ ویلنٹائن کے سرخ دل کو ایک کارڈ پر بنا کر چودھویں صدی کے شاعر چوسر کی ان لائنوں کے ساتھ چھاپ دیا۔
”یہ سینٹ ویلنٹائن ڈے ہے۔جب ہر پرندہ جوڑا بناتا ہے”
یوں انیسویں صدی کا برطانیہ کہ جس کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس سورج میں سینٹ ویلنٹائن کی کرنیں بھی شامل ہوگئیں ۔پھر باقی کام اس یومِ محبت کو مارکیٹنگ والوں نے اچک کر پورا کر لیا۔ دل تو پہلے بھی کسی نہ کسی طور چلا ہی جاتا تھا۔اب یہ ہے کہ بنا چاکلیٹ نہیں جاتا۔
اصل ربط دیکھنے کے لئے