مہ جبین
محفلین
دل کو آئینہ دیکھا ، ذہن کو رسا پایا
ہم نے اُن کی مدحت میں زیست کا مزہ پایا
بے وسیلہء احمد زندگی نے کیا پایا
آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا
جس طرف نظر اٹھی آپ ہی نظر آئے
سایہ افگنِ عالم دامنِ عطا پایا
راستے کے پتھر ہوں یا سخن کے نشتر ہوں
آپ کو بہر عالم پیکرِ رضا پایا
کون عرشِ اعظم پر آپ کے سوا پہنچا
کس نے سارے نبیوں میں ایسا مرتبہ پایا
رحمتِ دوعالم سے ہم نے جب کبھی مانگا
ظرف سے سوا مانگا ، مانگ سے سوا پایا
مرحبا ایاز اُن پر لطفِ خالقِ اکبر
تاجِ کُن فکاں سر پر ، عرش زیرِ پا، پایا
ایاز صدیقی