دل کے زخموں کے حسابوں میں لگا رہتا ہوں

ایم اے راجا

محفلین
ایک تازہ غزل برائے نقید و اصلاح پیش ہے۔

دل کے زخموں کے حسابوں میں لگا رہتا ہوں
آج کل گویا عذابوں میں لگا رہتا ہوں !!

اب کو ئی کام نہیں ہوتا سوائے اِ س کے
بس تری یاد کے بابوں میں لگا رہتا ہوں

دن گذرتا ہے مشقت کی مصیبت میں مرا
اور شب بھر ترے خوابوں میں لگا رہتا ہوں

عجب انداز کی پائی ہے طبیعت میں نے !
چھوڑ کر دریا ، سرابوں میں لگا رہتا ہوں

بے عمل زیست گذاری ہے بہت دیر تلک
اب عمل کے میں نصابوں میں لگا رہتا ہوں

ترک کی عشق و محبت کی روایت کب کی !
رات دن صرف کتابوں میں لگا رہتا ہوں

عمر گذری ہے گناہوں کے بھنور میں راجا
اِن دنوں بس میں ثوابوں میں لگا رہتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد محترم الف عین صاحب پہلے اس غزل کی ردیف میں نے ۔ گھرا رہتا ہوں باندھی تھی مگر پھر موجودہ ردیف باندھ دی، کیا ، لگا رہتا ہوں، ردیف ادبی اعتبار و زبان کی رو سے ٹھیک ہے ؟
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بھئی چھ دن ہی تو غائب رہا، بلکہ چھٹے دن آ گیا تھا کل رات، اب اس وقت تفصیل سے محفل میں گھوم رہا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
ردیف ہی عجیب سی لگ رہی ہے۔ بہر حال دیکھتا ہوں کہ ’گھِرا‘ میں کہاں کہاں پریشانی ہے اور ’لگا‘ میں کہاں کہاں۔

دل کے زخموں کے حسابوں میں لگا رہتا ہوں
آج کل گویا عذابوں میں لگا رہتا ہوں !!
÷÷مصرع اولیٰ میں لگا زیادہ بہتر ہے، لیکن دوسرے میں |گھرا‘!!۔ لگا رہنے سے ۔کام میں خود کا شامل ہونا پایا جاتا ہے، عذاب خود تو اپنے آپ کو نہیں پہنچائے جاتے نا!!

اب کو ئی کام نہیں ہوتا سوائے اِ س کے
بس تری یاد کے بابوں میں لگا رہتا ہوں
÷÷یہاں ردیف تو چل سکتی ہے، لیکن قافیہ؟؟

دن گذرتا ہے مشقت کی مصیبت میں مرا
اور شب بھر ترے خوابوں میں لگا رہتا ہوں
÷÷یہاں ردیف گھرا بہتر ہو، خواب خود اپنے آپ آتے ہیں، ہم کوشش سے نہیں دیکھ سکتے۔
پہلا مصرع بھی یوں بہتر ہو گا۔
دن تو معمول کی محنت میں گزر جاتا ہے

عجب انداز کی پائی ہے طبیعت میں نے !
چھوڑ کر دریا ، سرابوں میں لگا رہتا ہوں
÷÷یہاں درست ہے مکمل شعر

بے عمل زیست گذاری ہے بہت دیر تلک
اب عمل کے میں نصابوں میں لگا رہتا ہوں
۔۔نہیں بھائی، یہ نصابوں کا قافیہ بھی پسند نہیں آیا، چاہے ان میں گھرا جائے یا لگا جائے۔

ترک کی عشق و محبت کی روایت کب کی !
رات دن صرف کتابوں میں لگا رہتا ہوں
یہاں ’لگا‘ ہی درست ہے

عمر گذری ہے گناہوں کے بھنور میں راجا
اِن دنوں بس میں ثوابوں میں لگا رہتا ہوں
÷ثوابوں کے کاموں میں لگا جاتا ہے، ثوابوں میں نہیں، البتہ یہاںگھرا‘ لانے سے مفہوم ہی الٹ جائے گا!!
 

ایم اے راجا

محفلین
ردیف ہی عجیب سی لگ رہی ہے۔ بہر حال دیکھتا ہوں کہ ’گھِرا‘ میں کہاں کہاں پریشانی ہے اور ’لگا‘ میں کہاں کہاں۔

دل کے زخموں کے حسابوں میں لگا رہتا ہوں
آج کل گویا عذابوں میں لگا رہتا ہوں !!
÷÷مصرع اولیٰ میں لگا زیادہ بہتر ہے، لیکن دوسرے میں |گھرا‘!!۔ لگا رہنے سے ۔کام میں خود کا شامل ہونا پایا جاتا ہے، عذاب خود تو اپنے آپ کو نہیں پہنچائے جاتے نا!!

اب کو ئی کام نہیں ہوتا سوائے اِ س کے
بس تری یاد کے بابوں میں لگا رہتا ہوں
÷÷یہاں ردیف تو چل سکتی ہے، لیکن قافیہ؟؟

دن گذرتا ہے مشقت کی مصیبت میں مرا
اور شب بھر ترے خوابوں میں لگا رہتا ہوں
÷÷یہاں ردیف گھرا بہتر ہو، خواب خود اپنے آپ آتے ہیں، ہم کوشش سے نہیں دیکھ سکتے۔
پہلا مصرع بھی یوں بہتر ہو گا۔
دن تو معمول کی محنت میں گزر جاتا ہے

عجب انداز کی پائی ہے طبیعت میں نے !
چھوڑ کر دریا ، سرابوں میں لگا رہتا ہوں
÷÷یہاں درست ہے مکمل شعر

بے عمل زیست گذاری ہے بہت دیر تلک
اب عمل کے میں نصابوں میں لگا رہتا ہوں
۔۔نہیں بھائی، یہ نصابوں کا قافیہ بھی پسند نہیں آیا، چاہے ان میں گھرا جائے یا لگا جائے۔

ترک کی عشق و محبت کی روایت کب کی !
رات دن صرف کتابوں میں لگا رہتا ہوں
یہاں ’لگا‘ ہی درست ہے

عمر گذری ہے گناہوں کے بھنور میں راجا
اِن دنوں بس میں ثوابوں میں لگا رہتا ہوں
÷ثوابوں کے کاموں میں لگا جاتا ہے، ثوابوں میں نہیں، البتہ یہاںگھرا‘ لانے سے مفہوم ہی الٹ جائے گا!!
سر الف عین صاحب سمجھ میں نہیں آتا کیا کیا جائے، اگر بابوں اور ثوابوں والے شعر نکال کر ردیف لگا رہتا ہوں تو کیا خیال ہے، مطلع کے مصرعہ ثانی میں لگا والا ردیف یوں ہو سکتا ہے کہ مطلب یہ نکلتا ہے کہ حساب میں لگا رہتا ہوں اور زخموں کا حساب ہی گویا عذاب ہے سو اس حساب کو عذاب بیان کیا جئے ک، دل کے زخموں کے حسابوں میں لگا رہتا ہوں، آج کل گویا عذابوں میں لگا رہتا ہوں کہ زخم گننا بھی ایک عذاب ہے اور اس عذاب میں لگا رہتا ہوں یعنی حساب کے عذاب میں۔ ذرا دیکھیئے دوبارہ یا کچھ اور ردیف اگر ذہن میں آئے تو پلیز۔
 

شوکت پرویز

محفلین
سر اگر اس کی ردیف کھویا رہتا ہوں کی جائے تو

دل کے زخموں کے حسابوں میں کھویا رہتا ہوں
آج کل گویا عذابوں میں کھویا رہتا ہوں
یہ ردیف بحر سے ذرا دور بہہ جاتی ہے۔
کھویا میں "کھو" کا "و" گِرانا پڑ رہا ہے، جو جائز نہیں !
۔۔۔
درج ذیل ردیف کو ایک موقع دیں، دیکھیں شاید بہتر لگے۔
'گزرتا ہے وقت'
لیکن اس ردیف میں 'نصابوں' اور 'ثوابوں' والے اشعار میں کچھ ترمیم کرنی پڑے گی۔
۔۔۔
'ثوابوں' والے شعر کی ایک ممکنہ صورت:
اِن دنوں بس میں ثوابوں میں لگا رہتا ہوں
لیکن اب صرف ثوابوں میں گزرتا ہے وقت
 
آخری تدوین:
Top