محمد بلال اعظم
لائبریرین
دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے
مطرب و مینا بھی اس شام بلا لی جائے
اس سے پہلے کہ یہ محفل بھی ختم ہو جائے
یارو اب درد کی قندیل جلا لی جائے
وہ جو اغیار کو اپنوں سے ملا دیتا ہے
کیسے بِن مانگے اس در کا سوالی جائے
دشمنِ جاں سے ملاقات بھی ضروری ہے
یارو سوچو کہ کوئی راہ نکالی جائے
کس نے میعاد ہَوس پُور میں پوری کر لی
کس کی عزت سرِ بازار اچھالی جائے
ایسے ملنے سے نہ ملنا ہے زیادہ بہتر
آؤ رسموں کی یہ دیوار گرا لی جائے
آؤ اجڑے ہوئے شہروں سے نکل کے دیکھیں
آؤ سر سبز فضاؤں کی ہَوا لی جائے
ایسے ماحول میں گھٹ گھٹ کے ہی مر جائیں گے
کوئی تدبیر کرو، شہر کا والی جائے