استادِ محترم
الف عین چند تبدیلیاں
دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے
کوئی تدبیر کرو، عید منا لی جائے
رسمِ احساسِ محبت کا تقاضا جاناں
آج شب درد کی قندیل جلا لی جائے
دشمنِ جاں سے ملاقات ضروری بھی ہے
یارو سوچو کہ کوئی راہ نکالی جائے
کسے بیچا جائے ہے شہرِ ہوس میں امشب
کس کی عزت سرِ بازار اچھالی جائے
ایسے ملنے سے تو نہ ملنا بہت بہتر ہے
آؤ رسموں کی یہ دیوار گرا لی جائے
آؤ اجڑے ہوئے شہروں سے نکل کے دیکھیں
آؤ سر سبز فضاؤں کی ہَوا لی جائے
ایسے ماحول میں گھٹ گھٹ کے ہی مر جائیں گے
کوئی تدبیر کرو، شہر کا والی جائے
رب کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں اے لوگو
اب تو ان شاہوں کی یہ خام خیالی جائے