دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کس نے میعاد ہَوس پُور میں پوری کر لی
کس کی عزت سرِ بازار اچھالی جائے

اس شعرکے دو متبادل

آج شب شہرِ ہوس میں کسے بیچا جائے
کس کی عزت سرِ بازار اچھالی جائے
یا
آج شب شہرِ ہوس سے ہی صدائیں آئیں
کس کی عزت سرِ بازار اچھالی جائے
 

الف عین

لائبریرین
ہوس پور سے تو بہتر ہیں لیکن دونوں شعروں میں تھوڑی خامی ضرور ہے۔ پہلا شعر بہتر ہے لیکن اس کا ’جائے‘ کی نشست کچھ اور کر دی جائے۔ جیسے
کس کا نیلام ہو پھر شہر ہوس میں امشب/اس رات
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
استادِ محترم الف عین چند تبدیلیاں
دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے
کوئی تدبیر کرو، عید منا لی جائے
رسمِ احساسِ محبت کا تقاضا جاناں​
آج شب درد کی قندیل جلا لی جائے​
دشمنِ جاں سے ملاقات ضروری بھی ہے
یارو سوچو کہ کوئی راہ نکالی جائے
کسے بیچا جائے ہے شہرِ ہوس میں امشب
کس کی عزت سرِ بازار اچھالی جائے
ایسے ملنے سے تو نہ ملنا بہت بہتر ہے
آؤ رسموں کی یہ دیوار گرا لی جائے
آؤ اجڑے ہوئے شہروں سے نکل کے دیکھیں
آؤ سر سبز فضاؤں کی ہَوا لی جائے
ایسے ماحول میں گھٹ گھٹ کے ہی مر جائیں گے
کوئی تدبیر کرو، شہر کا والی جائے
رب کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں اے لوگو
اب تو ان شاہوں کی یہ خام خیالی جائے
 

الف عین

لائبریرین
دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے
کچھ کرو، ایسے ہی کیا عید منا لی جائے؟
//
رسمِ احساسِ محبت کا تقاضا جاناں
آج شب درد کی قندیل جلا لی جائے
// رسمِ احساسِ محبت کا تقاضا ہے یہی
آج پھر درد کی قندیل جلا لی جائے

دشمنِ جاں سے ملاقات ضروری بھی ہے
یارو سوچو کہ کوئی راہ نکالی جائے
//’بھی‘ مزید لگ رہا ہے مجھے۔
دشمن جاں سے ملاقات بھی کرنی ہے ضرور
یارو سوچو کہ کوئی راہ نکالی جائے

کس نے میعاد ہَوس پُور میں پوری کر لی
کس کی عزت سرِ بازار اچھالی جائے
//اس پر بات ہو چکی

ایسے ملنے سے تو نہ ملنا بہت بہتر ہے
آؤ رسموں کی یہ دیوار گرا لی جائے
//دیوار گرا لی نہیں جاتی، گرا دی جاتی ہے۔ اس لئے شعر درست نہیں

آؤ اجڑے ہوئے شہروں سے نکل کے دیکھیں
آؤ سر سبز فضاؤں کی ہَوا لی جائے
//درست

ایسے ماحول میں گھٹ گھٹ کے ہی مر جائیں گے
کوئی تدبیر کرو، شہر کا والی جائے
//یوں کر دو تو بہتر ہے
ایسے ماحول میں گھٹ گھٹ کے نہ مر جائیں ہم
کوئی تدبیر کرو، شہر کا والی جائے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
استادِ محترم الف عین یعنی مجموعی طور پہ غزل کی صورت کچھ یوں ہو گئی ہے بغیر کسی سقم کے۔

دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے​
کوئی تدبیر کرو، عید منا لی جائے​
رسمِ احساسِ محبت کا تقاضا ہے یہی​
آج پھر درد کی قندیل جلا لی جائے​
دشمنِ جاں سے ملاقات بھی کرنی ہے ضرور​
یارو سوچو کہ کوئی راہ نکالی جائے​
کسے بیچا جائے ہے شہرِ ہوس میں امشب​
کس کی عزت سرِ بازار اچھالی جائے​
آؤ اجڑے ہوئے شہروں سے نکل کے دیکھیں​
آؤ سر سبز فضاؤں کی ہَوا لی جائے​
ایسے ماحول میں گھٹ گھٹ کے نہ مر جائیں ہم​
کوئی تدبیر کرو، شہر کا والی جائے​
رب کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں اے لوگو​
اب تو ان شاہوں کی یہ خام خیالی جائے​
 

الف عین

لائبریرین
یہ مصرع کہاں سے آ گیا؟
کسے بیچا جائے ہے شہرِ ہوس میں امشب
اس کی ایک اصلاح تو پوسٹ کر چکا ہوں، دوسرا متبادل ذہن میں ہو تو پیش کرو۔ یہ تو وزن میں بھی نہیں!!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
استادِ محترم عزت والے شعر کے آپ نے دو متبادل بتائے، اب ان میں سے آپ دیکھ لیں کہ کون سا زیادہ صحیح ہے؟ اگر بات نہیں بن رہی تو اس شعر کو حذف کر دیتے ہیں۔​
دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے​
کوئی تدبیر کرو، عید منا لی جائے​
رسمِ احساسِ محبت کا تقاضا ہے یہی​
آج پھر درد کی قندیل جلا لی جائے​
دشمنِ جاں سے ملاقات بھی کرنی ہے ضرور​
یارو سوچو کہ کوئی راہ نکالی جائے​
کس کا نیلام ہو پھر شہر ہوس میں امشب/اس رات
کس کی عزت سرِ بازار اچھالی جائے
آؤ اجڑے ہوئے شہروں سے نکل کے دیکھیں​
آؤ سر سبز فضاؤں کی ہَوا لی جائے​
ایسے ماحول میں گھٹ گھٹ کے نہ مر جائیں ہم​
کوئی تدبیر کرو، شہر کا والی جائے​
رب کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں اے لوگو​
اب تو ان شاہوں کی یہ خام خیالی جائے​
 
Top