دل ہمارا ہے غم سرا یارو
کیا بتائیں کہ کیا ہوا یارو
مطلع کو بہت مضبوط شعر ہونا چاہئے، یہ کہ آپ کی غزل کا چہرہ ہے۔ اس لحاظ سے یہاں دوسرا مصرع وہ مضبوطی نہیں لانے دے رہا۔ ایک تجربہ کر کے دیکھئے گا کہ چھوٹی بحر میں ردیف نہ لائیے، اس سے کچھ الفاظ مزید مل جائیں گے۔
حرفِ شکوہ نہ لب پہ لائیں گے
یہ ارادہ ہے کر لیا یارو
یہاں دوسرے مصرعے میں لفظ "ہے" مجھے تو اچھا نہیں لگ رہا، شعر آپ کا ہے، جیسے مناسب سمجھیں۔
شدتِ غم کبھی تھی جاں لیوا
اب تو آتا ہے اک مزہ یارو
بجا، کہ لفظ جان فارسی سے ہے، اور اس کے نون کو غنہ کیا جا سکتا ہے، تاہم جب کسی غیر فارسی غیر عربی لفظ کے ساتھ ترکیب بنائی جائے گی تو پھر اس کا رویہ بھی اردو ہندی ہو جائے گا، جان لیوا کو جاں لیوا نہیں کر سکتے۔ جان گسل کو جاں گسل کر سکتے ہیں۔ جناب الف عین سے راہنمائی طلب کرتے ہیں۔
درد سے ہم نے دوستی کرلی
اب نہیں چاہیے دوا یارو
مناسب ہے۔
اک تمنا نے سر اٹھایا کیا
زندگی بن گئی سزا یارو
اچھا شعر ہے۔
ہم سے دیوانے اب کہاں جائیں
ہوش والے ہیں جابجا یارو
یہاں بھی دوسرا مصرع شعر کو کمزور کر رہا ہے۔
بات چھوٹی سی تھی مگر تم نے
ایک محشر اٹھا دیا یارو
اچھا شعر ہے۔