دمشق کے مضافات میں کیمیکل حملے کی حقیقت

حسینی

محفلین
ع ۔صلاح ماہر امور مشرو ق وسطیٰ

شام کے دارالحکومت دمشق کے مضافاتی علاقے الغوطہ میں اس وقت اچانک کیمیکل حملے کی خبر نشر ہوئی کہ جس وقت اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کی ایک ٹیم دوسری بار دمشق آئی ہوئی تھی اور اس ٹیم کو شام کی حکومت نے ہی بلایا تھا جس کا ہدف چند ماہ قبل شام میں متحارب بیرونی گروہوں کے ٹھکانوں سے برآمد ہونے والے مہلک کیمیکل ڈرمز اور بعض علاقوں میں کیمیکل گیس سے ہلاک ہونے والے افراد کے بارے میں تحقیقات کرنا تھا ۔
الغوطہ میں کیمیکل حملے کی خبر نے اس وقت ڈرامائی شکل اختیار کی جب اس خبر کی جزئیات منظر عام پر آئیں ظاہر ہے کہ نشر ہونے والی وڈیوز اور مناظر اس قدر وحشتناک تھے کہ عالمی میڈیا کو چند گھنٹے تو ان مناظر نے بہت مصروف رکھا لیکن یہ صرف چند گھنٹے ہی تھے جس کے بعد شائد ذمہ دار اور باضمیر میڈیا نے سخت خفت محسوس کی ہوگی ،بالکل کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا کہ ابھی ضمنی الیکشن کے دوران ہمارے ہاں یہاں پاکستان میں ایک پولینگ اسٹیشن کے سامنے موجود دو پلاسٹک کے کین کے سبب ہوا تھا کہ میڈیا کا کچھ حصہ اسے سو فیصد بم کے طور پر پیش کررہا تھا اور اس کا وزن اور اندر موجود باردو کی تفصیلات بھی بتارہا تھا اور یہ بریکنگ نیوز کئی گھنٹے مسلسل چلتی رہی پھر حقیقت سامنے آئی کہ دراصل یہ کین مٹی سے بھرے ہوئے تھے ۔
پھر الغوطہ کیمیکل حملے کی حقیقت کیا ہے ؟
میں قارئین سے پیشگی معزرت چاہتا ہوں کہ شائد میرے کچھ الفاظ میں بظاہرسنگدلی نظر آئے ۔
الف: دمشق کے الغوطہ میں کیمیکل ہتھیاروں کے حملے کے شور کا پلان اس لئے بھی صرف چند گھنٹوں میں ناکام ہوا کیونکہ اس پلان کو ڈیزائن کرنے والوں نے ٹیکنکل غلطیوں کے ساتھ ساتھ جلد بازی میں بھی بہت سی غلطیاں کیں، جیسے معصوم بچوں کو زہریلی گیس سے ہلاک کرنے سے گھنٹہ بھر پہلے ہی ان دہشتگرد گروہ ہوں کی سوشل میڈیا ٹیم نے پروپگنڈہ شروع کردیا اور سوشل میڈیا پر الغوطہ میں کیمیکل حملے کا شور مچایا جبکہ ان کی دوسری ٹیم نے پلان کے مطابق ابھی مہلک گیس سے بے گناہ شہریوں کو مارا نہیں تھا اور نہ ہی ابھی ان کے کیمروں کی آنکھ نے ان بچوں اور عورتوں کی وڈیوز کو بند کیا تھاجو سک سک کر کیمرے کے سامنے مررہے تھے اور اس گروہ میں شامل ڈاکٹرز نے انہیں بچانا تھا اور پھر کیمرے کے سامنے آکر چہہخ و پکار کرنا تھا۔
یہی وہ غلطی تھی کہ جس کے سبب اہم اداروں اور شام کی فورسز، خفیہ ایجنسیاں نیز عالمی سٹیلائیٹ جاسوسی کے ادارے الغوطہ کی جانب متوجہ ہوئے ۔
ب:دہشتگرد گروہوں نے الزام لگایا تھا کہ شام کی افواج نے ایک ایسا میزائل فائر کیا ہے جو مہک گیس کا حامل تھا اور اس میزائل نے الغوطہ میں موجود عام آبادی کو نشانہ بنایا ہے ۔
دہشتگردوں نے یہاں بھی ایسی ٹیکنکل غلطیاں کیں کہ اس سے ان کا جھوٹ صرف چند گھنٹوں میں ہی پکڑا گیا کیونکہ الغوطہ میں جو دو راکٹ فائر ہوئے ہیں اس کی ساخت اور اس کی رینج بس اتنی ہی ہے کہ اسے صرف اس علاقے سے ہی فائر کیا جاسکتا ہے جس پر دہشتگردوں کا قبضہ ہے جبکہ شام کی افواج راکٹ کی ممکنہ رینج سے کئی کلومیٹر دور ہیں جہاں سے اس کا امکان نہیں کہ وہ راکٹ فائر ہوسکیں ۔
عالمی مبصرین کے مطابق اس راکٹ کے فائر ہونے سے صرف چند گھنٹے قبل ہی الغوطہ کے قریب دیگر علاقوں پر قابض دہشتگرد گروہ علاقے کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ چکے تھے اور اکثر افراد کے درمیان ماسک تقسیم کئے گئے تھے مطلب واضح ہے کہ وہ کیمیکل گیس کے حملے سے مکمل واقف تھے ۔
ادھر سیکوریٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اس وقت سب حیرت کا شکار ہوئے جب روس نے اپنے سٹلائیٹ کی وہ معلومات اور تصایر دیکھائیں جو الغوطہ میں ہونے والی کشمکش کو ظاہر کررہی تھیں جس میں یہ بات واضح تھی کہ مہلک گیس کے راکٹ اس جگہ سے فائر ہوئے ہیں جہاں دہشتگردوں ہی کا دوسرا گروپ قابض ہے یہ سٹیلائیٹ معلومات ان راکٹوں کے فائر کی جگہ اور ٹائم دونوں کو صاف و شفاف اور ناقابل تردید شکل میں بیان کر رہی تھیں جس کا انکار کسی کے لئے ممکن نہ تھا ۔
روس کی جانب سے پیش کی جانے والی سٹلائیٹ معلومات کے مقابلے میں امریکی سٹلائیٹ کی جانب سے کوئی چیز پیش نہیں کی گئی یہاں تک کہ سیکوریٹی کونسل کے ممبران کو اس بات کا یقین ہوچلا کہ میزائل دہشتگردوں کی جانب سے ہی فائر ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ترکی اور سعودی عرب کے نمایندوں کو اس وقت سخت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب سیکوریٹی کونسل نے اس کیمیکل حملے پرصرف ’’مزید تحقیقات کرنے‘‘ پر اتفاق کیا ۔
البتہ ترکی سعودی عرب اور شامی ملک سے باہر بیٹھی اپوزیشن کی باڈی لینگوئج سے صاف ظاہر تھا کہ وہ حقیقت سے واقف ہیں کہ الغوطہ میں سینکڑوں بچوں اور عورتوں کے اصل قاتل کے چہرے سے نقاب الٹ چکا ہے
غوطہ میں الاسلام بریگیڈ نامی دہشتگرد گروہ کے پچیس ہزار سے زائد افراد موجود ہیں اور اب تحقیقات نے یہ بات ثابت کردی کہ میزائل الاسلام نامی گروپ کے زہران علوش نامی کمانڈر کے حکم پر فائر کئے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ عالمی انسپکٹروں کو اس وقت غوطہ کے ان علاقوں میں تحقیقات کی اجازت دیتے ہوئے یہ گروپ ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
بات در اصل یہ ہے کہ دہشتگرد مسلسل شکست کا شکار ہیں اور عالمی سطح پر بھی ان کی پزیرائی میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے ان کے پیچھے کھڑ ے ہم ترین ممالک ترکی ،سعودی عرب اور قطر ،مصر کے بحران کے سبب اختلافات کا شکار ہیں القاعدہ کے آوارہ مزاج گروہ کسی کے کنٹرول میں جانے کے لئے تیار نہیں جس کے سبب امریکیوں اور اسرائیل کو ان کے ساتھ سو فیصد تعاون میں تحفظات ہیں ،سیکولر سمجھی جانے والی فری سرین آرمی کو دیا جانے والا اہم اسلحہ صرف چند گھنٹوں میں ہی یا تو القاعدہ گروہوں کے پاس پہنچ جاتا ہے یا پھر شامی افواج اور لبنانی جماعت حزب اللہ کے پاس ،جس کی وجہ ہے اس آرمی میں موجود ایسے افراد ہیں جو پیسوں کی خطر کچھ بھی کر گذرتے ہیں ۔
یہ بات سچ ہے کہ اگر شام اس بحرا ن سے باہر نکل آتا ہے تو پھر مشرق وسطی کے سب سے طاقتور ملک بنے میں شام کے آگے کوئی روکاوٹ نہیں ہوگی ۔

http://www.pakistananalysis.com/urdu/analysis/international/item/98-دمشق-کے-مضافات-میں-کیمیکل-حملے-کی-حقیقت.html#
 
افسوس ہے کہ شامی حکومت کی حامی جو معصوم بچوں کی قاتل ہے یہ لوگ دفاع کررہے ہیں۔ ان کے چہرے عیاں ہوتے جارہے ہیں جن کے ہاتھوں پر مسلمانوں کا خون ہے
 

حسینی

محفلین
جس کسی نے بھی نے ان معصوم بچوں کا قتل عام کیا ہے اللہ ان کو غارت کرے۔ ان کو فورا سے پہلے خاک میں ملا دے۔ ان کو تباہ وبرباد کرے۔
سب مل کر کہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین۔
 
یہ لوگ کتنے ظالم ہیں۔ مسلمانوں کے خون بہا کر الزام الٹا مسلمانوں پر لگاتے ہیں۔

تف ہے ان کی زندگیوں پر
 
000_ts-nic6241797.jpg

A handout image released by the Syrian opposition's Shaam News Network shows bodies of children and adults laying on the ground as Syrian rebels claim they were killed in a toxic gas attack by pro-government forces in eastern Ghouta, on the outskirts of Damascus on August 21, 2013. (AFP Photo)
 

حسینی

محفلین
اللہ ایران اور شام کے شیطانوں اور ان کی اولادوں کو جہنم رسید کردےامین۔

اللہ یعلم خائنۃ الاعین وما تخفی الصدور۔ القرآن
اللہ تعالی امریکہ،اسرائیل اور ان کے پٹھو عرب حکمرانوں کو ذلیل وخوار کرے جو شام میں موجود انسان خوار دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں۔
 
000_nic6241905.jpg

An image grab taken from a video uploaded on YouTube by the Local Committee of Arbeen on August 21, 2013 allegedly shows Syrians covering a mass grave containing bodies of victims that Syrian rebels claim were killed in a toxic gas attack by pro-government forces in eastern Ghouta and Zamalka, on the outskirts of Damascus. (AFP Photo)
 
ghouta_syria_620x350.jpg

The bodies of people killed in an alleged "poisonous gas" attack are seen in a makeshift morgue in the eastern Ghouta suburbs of Damascus, in an image taken from unverified video posted by an opposition group on YouTube, Aug. 21, 2013.
/ YouTube
 
damascus_boy_620x350.jpg

A young boy gasps for air in a makeshift hospital after an alleged chemical weapons attack on the eastern Ghouta suburbs of Damascus, in an image taken from unverified video posted online by Syrian opposition activists, Aug. 21, 2013.
/ YouTube
 

حسینی

محفلین
A handout image released by the Syrian opposition's Shaam News Network shows bodies of children and adults laying on the ground as Syrian rebels claim they were killed in a toxic gas attack by pro-government forces in eastern Ghouta, on the outskirts of Damascus on August 21, 2013. (AFP Photo)
اس claim کو claim ہی رہنے دیں تو بہتر ہے۔۔۔ اگر اقوام متحدہ غیر جانبدار تحقیق کرتی ہے تو پوری حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہو جائے گی۔ انشاء اللہ
 

arifkarim

معطل
آزادانہ اور خودمختارانہ رپورٹ اقوام متحدہ کی طرف سے پیش کریں۔ اسکے بعد ہی ان کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق ہو سکے گی۔ یاد رہے کہ امریکہ، اسرائیل اور اردن ان شامی باغیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ یہ کیمیائی حملہ خود ان کی طرف سے کیا گیا ہو!
 

حسینی

محفلین
ايک ايسے وقت جب شامی فوج ملک کے مختلف علاقوں ميں غير ملکی حمايت يافتہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرتے ہوئے شام کے علاقوں کو يکے بعد ديگرے ان سے آزاد کرا رہی ہے اور جنيوا ٹو مذاکرات کا راستہ بھی ہموار ہوگيا ہے، شامی حکومت کے خلاف کيميائی ہتھياروں کے استعمال سے متعلق مغرب اور عرب حکومتوں نے ايک نئی پروپگنڈہ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ شام ميں سرگرم مسلح تکفیری دہشت گردوں کا حامی ذرائع ابلاغ، خاص طور پر قطر کے الجزيرہ اور سعودی عرب کے العربيہ ٹی وی چينلوں نے بدھ کو يہ دعویٰ کيا کہ شامی فوج نے ريف دمشق کے الغوطہ علاقے ميں عام شہريوں پر زہريلی کيميائی گيس کا استعمال کيا ہے، جس کے نتيجے ميں سينکڑوں افراد ہلاک ہوگئے ہيں۔ ان ٹی وی چینلز نے اس پروپگینڈہ مہم کے ذریعے عالمی میڈیا سمیت مسلم امہ کی توجہ اصل ایشوز سے ہٹا دی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مصری فوج کے سربراہ جنرل السیسی مشکلات کا شکار ہیں، عین اسی وقت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ڈرامہ رچا دیا گیا۔

اس گروہ کی جانب سے ایک ویڈیو بنا کر یوٹیوب پر ڈالی گئی، جس کے بعد ایک منصوبے کے تحت اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر پھیلا دیا گیا اور یوں مصر کی صورتحال سے سب کی توجہ ہٹا دی گئی اور اب عرب میڈیا سمیت مغربی میڈیا مصر میں ہونے والے جرائم اور مظالم کے بجائے شام کے معاملے پر واویلا مچا رہا ہے۔ اس عمل کا مقصد شام میں فوج کشی اور بیرونی مداخلت کی راہ ہموار کرنا ہے۔ شامی حکومت نے اس الزام کی سختی سے تردید ہے اور کہا ہے کہ باغی خود ہی کیمیکل ہتھیار استعمال کرکے شامی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس عمل میں شام مخالفت طاقتیں ملوث ہیں۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس صورتحال کے بعد سب کی توجہ مصر سے ہٹ گئی ہے، جبکہ مصری فوج نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اخوان المسلمون کیخلاف آپریشن تیز کر دیا ہے اور اب فوجی حکومت کا کنٹرول بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

دوسری جناب جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے کئی نئے انکشافات بھی سامنے آ رہے ہیں، سوشل میڈیا پر جاری ایک اور نئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ تیزی کے ساتھ میتوں کو انجکشن لگا رہے ہیں، یہ انجکشن کس چیز کے ہیں اور میتوں کو کیوں لگائے رہے ہیں، نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اصل میں باغی انجکشن کے ذریعے کیمیکل باڈی میں منتقل کر رہے ہیں، تاکہ جب عالمی انسپکشن ٹیم آئے تو وہ ان میتوں میں کیمیکل کی موجودگی پائے اور یوں ان کا دعویٰ سچ ثابت ہوجائے۔ اس ویڈیو میں یہ بھی دیکھا سکتا ہے کہ جدید قسم کے ماسک بے ہوش بچوں کو پہنائے جا رہے ہیں، جو اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ اگر ایک بڑی آبادی پر ان ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا تو باغیوں کے پاس چند منٹوں میں یہ جدید ماسک کہاں سے آگئے۔؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات تسلیم کرنا آسان نہیں کہ شامی حکومت عالمی انسپکشن ٹیم کو رضاکارانہ طور پر دعوت دے کہ وہ آئیں اور خود معائنہ کریں کہ امریکی صدر اوباما اپنے دعووں میں کس حد تک سچے ہیں کہ شامی حکومت باغیوں کیخلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہی ہے یا نہیں۔ دوسری جانب یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ اس ٹیم کے پہنچنے کے فقط تین دن بعد ہی شامی حکومت نے خطرناک ہتھیاروں کا استعمال کس طرح کر دیا؟ جبکہ وہ یہ حقیقت جانتی ہے کہ چند ملکوں کے علاوہ پوری دنیا اس کی مخالف ہے اور اس کے پاس عالمی انسپکشن ٹیم کے سامنے اپنے آپ کو بےگناہ ثابت کرنے کا بھی یہ فقط آخری موقع ہے۔ مبصرين کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر شام کی حکومت کے خلاف کيميائی ہتھياروں کے استعمال کے پروپيگنڈے کا مقصد اقوام متحدہ کی تحقيقاتی ٹيم پر اثر انداز ہونا ہے۔

سانا کی رپورٹ کے مطابق یہ خبریں بےبنیاد ہیں۔ مغرب اور بعض عرب ملکوں کے پٹھو چینل اس طرح کی رپورٹیں دے کر اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی کے کام میں رکاوٹیں ڈالنا چاہتے ہیں۔ مصر کی صورتحال پر خاموش رہنے والی خلیج تعاون کونسل کے ملکوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ شام کو اقوام متحدہ کے منشور کی ساتویں شق میں شامل کر دیا جائے۔ دوسری طرف سے شام کے وزیر اطلاعات و نشریات عمران الزعبی نے ان رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے اسے میڈیا وار قرار دیا ہے اور کہا ہےکہ یہ پروپگينڈا اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی کے کام میں خلل ڈالنے کی غرض سے کیا جا رہا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
جن لعنتیوں فاسقوں نے اس کیمیکلی گیس کے حملے کی تیاری کی ۔ اور اسے انجام تک پہنچایا ۔اور معصوم بچوں اور لوگوں کو اذیت سے ہمکنار کیا ۔ اللہ تعالی انہیں تباہ و برباد کرتے اک عبرت ناک مثال بنا دے ۔۔۔آمین ثم آمین
 

سید ذیشان

محفلین
شامی حکومت سفاک سہی لیکن بے عقل البتہ نہیں ہے۔ کم از کم اسوقت یہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہیں کر سکتی تھی کہ جب اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں کے انسپکٹر وہاں پر موجود تھے۔

شام میں بین الاقوامی میڈیا کی رسائی بھی کچھ خاص نہیں۔ تو اقوام متحدہ کی تحقیقات مکمل ہونے تک ہمیں اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہیے۔

ظاہری بات ہے بچوں کے اس بہیمانہ قتل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن صحیح تصویر سامنے آنے میں کم از کم بھی دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
ع ۔صلاح ماہر امور مشرو ق وسطیٰ

شام کے دارالحکومت دمشق کے مضافاتی علاقے الغوطہ میں اس وقت اچانک کیمیکل حملے کی خبر نشر ہوئی کہ جس وقت اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کی ایک ٹیم دوسری بار دمشق آئی ہوئی تھی اور اس ٹیم کو شام کی حکومت نے ہی بلایا تھا جس کا ہدف چند ماہ قبل شام میں متحارب بیرونی گروہوں کے ٹھکانوں سے برآمد ہونے والے مہلک کیمیکل ڈرمز اور بعض علاقوں میں کیمیکل گیس سے ہلاک ہونے والے افراد کے بارے میں تحقیقات کرنا تھا ۔
الغوطہ میں کیمیکل حملے کی خبر نے اس وقت ڈرامائی شکل اختیار کی جب اس خبر کی جزئیات منظر عام پر آئیں ظاہر ہے کہ نشر ہونے والی وڈیوز اور مناظر اس قدر وحشتناک تھے کہ عالمی میڈیا کو چند گھنٹے تو ان مناظر نے بہت مصروف رکھا لیکن یہ صرف چند گھنٹے ہی تھے جس کے بعد شائد ذمہ دار اور باضمیر میڈیا نے سخت خفت محسوس کی ہوگی ،بالکل کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا کہ ابھی ضمنی الیکشن کے دوران ہمارے ہاں یہاں پاکستان میں ایک پولینگ اسٹیشن کے سامنے موجود دو پلاسٹک کے کین کے سبب ہوا تھا کہ میڈیا کا کچھ حصہ اسے سو فیصد بم کے طور پر پیش کررہا تھا اور اس کا وزن اور اندر موجود باردو کی تفصیلات بھی بتارہا تھا اور یہ بریکنگ نیوز کئی گھنٹے مسلسل چلتی رہی پھر حقیقت سامنے آئی کہ دراصل یہ کین مٹی سے بھرے ہوئے تھے ۔
پھر الغوطہ کیمیکل حملے کی حقیقت کیا ہے ؟
میں قارئین سے پیشگی معزرت چاہتا ہوں کہ شائد میرے کچھ الفاظ میں بظاہرسنگدلی نظر آئے ۔
الف: دمشق کے الغوطہ میں کیمیکل ہتھیاروں کے حملے کے شور کا پلان اس لئے بھی صرف چند گھنٹوں میں ناکام ہوا کیونکہ اس پلان کو ڈیزائن کرنے والوں نے ٹیکنکل غلطیوں کے ساتھ ساتھ جلد بازی میں بھی بہت سی غلطیاں کیں، جیسے معصوم بچوں کو زہریلی گیس سے ہلاک کرنے سے گھنٹہ بھر پہلے ہی ان دہشتگرد گروہ ہوں کی سوشل میڈیا ٹیم نے پروپگنڈہ شروع کردیا اور سوشل میڈیا پر الغوطہ میں کیمیکل حملے کا شور مچایا جبکہ ان کی دوسری ٹیم نے پلان کے مطابق ابھی مہلک گیس سے بے گناہ شہریوں کو مارا نہیں تھا اور نہ ہی ابھی ان کے کیمروں کی آنکھ نے ان بچوں اور عورتوں کی وڈیوز کو بند کیا تھاجو سک سک کر کیمرے کے سامنے مررہے تھے اور اس گروہ میں شامل ڈاکٹرز نے انہیں بچانا تھا اور پھر کیمرے کے سامنے آکر چہہخ و پکار کرنا تھا۔
یہی وہ غلطی تھی کہ جس کے سبب اہم اداروں اور شام کی فورسز، خفیہ ایجنسیاں نیز عالمی سٹیلائیٹ جاسوسی کے ادارے الغوطہ کی جانب متوجہ ہوئے ۔
ب:دہشتگرد گروہوں نے الزام لگایا تھا کہ شام کی افواج نے ایک ایسا میزائل فائر کیا ہے جو مہک گیس کا حامل تھا اور اس میزائل نے الغوطہ میں موجود عام آبادی کو نشانہ بنایا ہے ۔
دہشتگردوں نے یہاں بھی ایسی ٹیکنکل غلطیاں کیں کہ اس سے ان کا جھوٹ صرف چند گھنٹوں میں ہی پکڑا گیا کیونکہ الغوطہ میں جو دو راکٹ فائر ہوئے ہیں اس کی ساخت اور اس کی رینج بس اتنی ہی ہے کہ اسے صرف اس علاقے سے ہی فائر کیا جاسکتا ہے جس پر دہشتگردوں کا قبضہ ہے جبکہ شام کی افواج راکٹ کی ممکنہ رینج سے کئی کلومیٹر دور ہیں جہاں سے اس کا امکان نہیں کہ وہ راکٹ فائر ہوسکیں ۔
عالمی مبصرین کے مطابق اس راکٹ کے فائر ہونے سے صرف چند گھنٹے قبل ہی الغوطہ کے قریب دیگر علاقوں پر قابض دہشتگرد گروہ علاقے کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ چکے تھے اور اکثر افراد کے درمیان ماسک تقسیم کئے گئے تھے مطلب واضح ہے کہ وہ کیمیکل گیس کے حملے سے مکمل واقف تھے ۔
ادھر سیکوریٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اس وقت سب حیرت کا شکار ہوئے جب روس نے اپنے سٹلائیٹ کی وہ معلومات اور تصایر دیکھائیں جو الغوطہ میں ہونے والی کشمکش کو ظاہر کررہی تھیں جس میں یہ بات واضح تھی کہ مہلک گیس کے راکٹ اس جگہ سے فائر ہوئے ہیں جہاں دہشتگردوں ہی کا دوسرا گروپ قابض ہے یہ سٹیلائیٹ معلومات ان راکٹوں کے فائر کی جگہ اور ٹائم دونوں کو صاف و شفاف اور ناقابل تردید شکل میں بیان کر رہی تھیں جس کا انکار کسی کے لئے ممکن نہ تھا ۔
روس کی جانب سے پیش کی جانے والی سٹلائیٹ معلومات کے مقابلے میں امریکی سٹلائیٹ کی جانب سے کوئی چیز پیش نہیں کی گئی یہاں تک کہ سیکوریٹی کونسل کے ممبران کو اس بات کا یقین ہوچلا کہ میزائل دہشتگردوں کی جانب سے ہی فائر ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ترکی اور سعودی عرب کے نمایندوں کو اس وقت سخت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب سیکوریٹی کونسل نے اس کیمیکل حملے پرصرف ’’مزید تحقیقات کرنے‘‘ پر اتفاق کیا ۔
البتہ ترکی سعودی عرب اور شامی ملک سے باہر بیٹھی اپوزیشن کی باڈی لینگوئج سے صاف ظاہر تھا کہ وہ حقیقت سے واقف ہیں کہ الغوطہ میں سینکڑوں بچوں اور عورتوں کے اصل قاتل کے چہرے سے نقاب الٹ چکا ہے
غوطہ میں الاسلام بریگیڈ نامی دہشتگرد گروہ کے پچیس ہزار سے زائد افراد موجود ہیں اور اب تحقیقات نے یہ بات ثابت کردی کہ میزائل الاسلام نامی گروپ کے زہران علوش نامی کمانڈر کے حکم پر فائر کئے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ عالمی انسپکٹروں کو اس وقت غوطہ کے ان علاقوں میں تحقیقات کی اجازت دیتے ہوئے یہ گروپ ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
بات در اصل یہ ہے کہ دہشتگرد مسلسل شکست کا شکار ہیں اور عالمی سطح پر بھی ان کی پزیرائی میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے ان کے پیچھے کھڑ ے ہم ترین ممالک ترکی ،سعودی عرب اور قطر ،مصر کے بحران کے سبب اختلافات کا شکار ہیں القاعدہ کے آوارہ مزاج گروہ کسی کے کنٹرول میں جانے کے لئے تیار نہیں جس کے سبب امریکیوں اور اسرائیل کو ان کے ساتھ سو فیصد تعاون میں تحفظات ہیں ،سیکولر سمجھی جانے والی فری سرین آرمی کو دیا جانے والا اہم اسلحہ صرف چند گھنٹوں میں ہی یا تو القاعدہ گروہوں کے پاس پہنچ جاتا ہے یا پھر شامی افواج اور لبنانی جماعت حزب اللہ کے پاس ،جس کی وجہ ہے اس آرمی میں موجود ایسے افراد ہیں جو پیسوں کی خطر کچھ بھی کر گذرتے ہیں ۔
یہ بات سچ ہے کہ اگر شام اس بحرا ن سے باہر نکل آتا ہے تو پھر مشرق وسطی کے سب سے طاقتور ملک بنے میں شام کے آگے کوئی روکاوٹ نہیں ہوگی ۔

http://www.pakistananalysis.com/urdu/analysis/international/item/98-دمشق-کے-مضافات-میں-کیمیکل-حملے-کی-حقیقت.html#

اس سرخ کردہ اقتباس کا کوئی سورس بھی ہے آپ کے پاس؟
 
Top