کاشفی
محفلین
غزل
(فانی بدایونی)
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اُجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے
عجز گناہ کے دم تک ہیں عصمت کامل کے جلوے
پستی ہے تو بلندی ہے راز بلندی پستی ہے
جان سی شئے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی ان داموں تو سستی ہے
جگ سونا ہے تیرے بغیر، آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے
آنسو تھے سو خشک ہوئے، جی ہے کہ اُمڈ آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے
دل کا اُجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے
فانی جس میں آنسو کیا دل کے لہوں کا کال نہ تھا
ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوند کو ترستی ہے