دنیا میں آئے الجھ کے رہ گئے

محمد حسین

محفلین
دنیا میں آئے الجھ کے رہ گئے
انقلابی خواب ادھورے رہ گئے

غیر جینا ہم سے سیکھے،جی گئے
اور ہم آپس میں لڑتے رہ گئے

برق بن کر اس کے دل پر گر نہ پائے
اشک آنکھوں میں ہی بہتے رہ گئے

گندگی دل کی نہیں دیکھی حسین
ھم تو زلفوں میں الجھتے رہ گئے
 

شوکت پرویز

محفلین
اچھی غزل ہے محمد حسین بھائی !
صرف پہلے مصرع میں 'دنیا' کا الف گرنا ذرا ثقیل لگ رہا ہے۔۔۔

اسے اس طرح کر کے دیکھیں:
دہر میں آئے الجھ کے رہ گئے

یا اگر دنیا ہی استعمال کرنا ہے تو:
آئے دنیا میں الجھ کے رہ گئے
:)
 
غیر جینا ہم سے سیکھے،جی گئے
اور ہم آپس میں لڑتے رہ گئے

بہت اعلی جناب۔۔۔۔۔ بہت سی داد قبول فرمائیں۔

ناچیز کا شعر:
غیر نے سیکھی ہمیں سے الفتوں کی زندگی
بھاگئی کیوں ہم کو جانے نفرتوں کی زندگی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع کے علاوہ سارے قوافی ’تے‘ والے ہیں۔ کچھ اور اشعار کا اضاافہ کر دیں یا ایک آدھ قافیہ بدل دیں تو بہتر ہے۔
 
Top