حسان خان
لائبریرین
دنیا میں آج حشر کا دن آشکار ہے
سبطِ نبی کے سینے پہ قاتل سوار ہے
چلّا رہی ہے خیمے سے زینب اتر لعیں
بھائی کا میرے زخموں سے سینہ فگار ہے
کہتے تھے شاہ شمر سے مجھ کو نہ ذبح کر
دنیائے چند روزہ کا کیا اعتبار ہے
مر جاؤں گا میں آپ ہی اب تھوڑی دیر میں
قالب میں روح کا کوئی دم کو قرار ہے
اُنّیس سو ہیں تیغ و سنان و تبر کے زخم
سنگِ ستم کے خوں سے بدن لالہ زار ہے
قرآں ہے صاف سینہ یہ بیٹھا ہے جس پہ تو
بوسہ گہِ رسول پہ خنجر کی دھار ہے
ہے زلزلہ زمیں کو گہن میں ہے آفتاب
بارش ہے خوں کی چشمِ فلک اشکبار ہے
ہے عنقریب پھونکے سرافیل صور کو
بس حکمِ کبریا کا فقط انتظار ہے
اب آگے کر بیاں نہ انیسِ جگر فگار
یہ دن وہ ہے کہ سارا جہاں اشکبار ہے
(میر انیس)