Muhammad Naeem
محفلین
’دنیا میں طالبان جیسی کوئی بھی موبائل آرمی نہیں ہے۔
مجھے یہ اس وقت محسوس ہوا تھا جب میں نے ان کے ساتھ انیس نوے میں سفر کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے اپنے مخالف مجاہدین کو شکست دے کر تقریباً سارے ملک پر قبضہ کر لیا تھا۔
گزشتہ ہفتے صحرا میں ایک دشوار گزار سفر کے بعد ہم ہلمند کے صوبے میں ایک دریا کے کنارے رکے۔
سورج ڈوب رہا تھا اور یہ افطار کا وقت تھا۔ نماز سے پہلے انہوں نے اس خشک دریا کے کنارے پر جمع ہوئے گدلے اور بظاہر گندے دکھائی دینے والے پانی سے وضو کیا۔
افغانستان کئی سالوں سے شدید قحط سے دو چار ہے لیکن صاف پانی کی کمی سے شاید ان سخت جان لوگوں کو کوئی تشویش نہیں ہے۔وہ درختوں سے ٹہنیاں توڑ کر دانت صاف کرتے ہیں اور پتلی سی شالوں سے لحاف کا کام لیتے ہیں۔ انہوں نے برطانوی فوج کو اپنی لڑنے کی شدت اور جانوں کی پرواہ نہ کرنے کے عمل سے حیران کر دیا ہے۔
ہلمند کے صحرا میں یہ دور افتادہ دیہات بہت غریب ہیں اور قحط نے ان کی حالت اور بھی بری کر دی ہے۔
کھانے کو جو ہمیں ملا وہ چاولوں کا ایک پیالہ، بھنڈی کا سالن اور توے کی گول روٹی تھی۔
طالبان کے ترجمان محمد آصف نے بتایا کہ ’جب طالبان کی اسلامی تحریک شروع ہوئی اس وقت بھی لوگوں کو کرپشن کی وجہ سے تشویش تھی۔ لوگ گورنروں اور دیگر حکام کو رشوتیں دے دے کر تنگ آ چکے تھے۔ ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور تقریباً پورے ملک کو کرپٹ کمانڈروں اور کرپشن کی لعنت سے نجات دلوائی۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اب لوگ ہماری حمایت کر رہے ہیں‘۔
سات اکتوبر کو برطانوی فوج کے ہاتھوں تباہ ہونے والے ایک گاؤں کے لوگ میرے برطانوی ہونے کے ناطے مجھ سے بات کرتے ہوئے بہت غصے میں تھے۔
نیٹو ذرائع کا کہنا ہے کہ اس گاؤں سے طالبان کی طرف سے شدید مذمت ہوئی تھی۔ برطانوی فوج کی کارروائی سے اس گاؤں میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں تین جوان لڑکیاں بھی شامل تھیں۔
سب طالبان ہی اپنی تاریخ سے واقف نظر آتے ہیں اور یہ بھی ان کے حوصلے بلند رکھنے کی ایک بڑی وجہ نظر آتی ہے۔ انہوں نے 1842 اور 1880 میں برطانوی افواج اور 1980 کی دہائی میں روسی افواج کو شکست دی تھی اور ان فتوحات کا ذکر ان کی لوک کہانیوں کا حصہ ہے۔
مجھے یہ اس وقت محسوس ہوا تھا جب میں نے ان کے ساتھ انیس نوے میں سفر کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے اپنے مخالف مجاہدین کو شکست دے کر تقریباً سارے ملک پر قبضہ کر لیا تھا۔
گزشتہ ہفتے صحرا میں ایک دشوار گزار سفر کے بعد ہم ہلمند کے صوبے میں ایک دریا کے کنارے رکے۔
سورج ڈوب رہا تھا اور یہ افطار کا وقت تھا۔ نماز سے پہلے انہوں نے اس خشک دریا کے کنارے پر جمع ہوئے گدلے اور بظاہر گندے دکھائی دینے والے پانی سے وضو کیا۔
افغانستان کئی سالوں سے شدید قحط سے دو چار ہے لیکن صاف پانی کی کمی سے شاید ان سخت جان لوگوں کو کوئی تشویش نہیں ہے۔وہ درختوں سے ٹہنیاں توڑ کر دانت صاف کرتے ہیں اور پتلی سی شالوں سے لحاف کا کام لیتے ہیں۔ انہوں نے برطانوی فوج کو اپنی لڑنے کی شدت اور جانوں کی پرواہ نہ کرنے کے عمل سے حیران کر دیا ہے۔
ہلمند کے صحرا میں یہ دور افتادہ دیہات بہت غریب ہیں اور قحط نے ان کی حالت اور بھی بری کر دی ہے۔
کھانے کو جو ہمیں ملا وہ چاولوں کا ایک پیالہ، بھنڈی کا سالن اور توے کی گول روٹی تھی۔
طالبان کے ترجمان محمد آصف نے بتایا کہ ’جب طالبان کی اسلامی تحریک شروع ہوئی اس وقت بھی لوگوں کو کرپشن کی وجہ سے تشویش تھی۔ لوگ گورنروں اور دیگر حکام کو رشوتیں دے دے کر تنگ آ چکے تھے۔ ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور تقریباً پورے ملک کو کرپٹ کمانڈروں اور کرپشن کی لعنت سے نجات دلوائی۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اب لوگ ہماری حمایت کر رہے ہیں‘۔
سات اکتوبر کو برطانوی فوج کے ہاتھوں تباہ ہونے والے ایک گاؤں کے لوگ میرے برطانوی ہونے کے ناطے مجھ سے بات کرتے ہوئے بہت غصے میں تھے۔
نیٹو ذرائع کا کہنا ہے کہ اس گاؤں سے طالبان کی طرف سے شدید مذمت ہوئی تھی۔ برطانوی فوج کی کارروائی سے اس گاؤں میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں تین جوان لڑکیاں بھی شامل تھیں۔
سب طالبان ہی اپنی تاریخ سے واقف نظر آتے ہیں اور یہ بھی ان کے حوصلے بلند رکھنے کی ایک بڑی وجہ نظر آتی ہے۔ انہوں نے 1842 اور 1880 میں برطانوی افواج اور 1980 کی دہائی میں روسی افواج کو شکست دی تھی اور ان فتوحات کا ذکر ان کی لوک کہانیوں کا حصہ ہے۔