F@rzana
محفلین
نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار تھامس فریڈمین نے تقریباً ساڑھے چار سو صفحوں پر مشتمل اپنی اس تازہ کتاب میں معاشی عالمگیریت یا گلوبلائزیشن کے مختلف پہلوؤں کی تفصیلات بتائی ہیں اور دنیا پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔
فریڈمین گلوبلائزیشن کے زبردست مداح ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ دنیا ٹیکنالوجی کی ترقی نت نئی ایجادات کے رواج پانے کی وجہ سے گول کی بجائے چپٹی ہوتی جارہی ہے یعنی دنیا کے مختلف خطوں جیسے امریکہ، بھارت، چین، روس اور لاطینی امریکہ میں تجارت، معاشی تعلقات اور رابطے بہت بڑھ گئے ہیں۔
اس کتاب میں فریڈمین نے جو نظریہ پیش کیا ہے وہ تو پرانا ہے کہ عالمگیریت کے باعث دنیا ایک عالمی گاؤں میں بدلتی جارہی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ان کی کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے عالمگیریت کے مختلف پہلؤوں کو مثالوں اور لوگوں سے بات چیت کر کے وضاحت سے پیش کیا ہے۔
تیرہ ابواب پر پھیلی ہوئی اس کتاب کو لکھنے کے لیے مصنف نے خاص طور سے امریکہ، بھارت اور چین کے مختلف شہروں کے دورے کیے۔ انہوں نے ان جگہوں پر کام کرنے والی کاروباری کمپنیوں کے ملازمین اور مالکان اور کچھ رضاکارانہ فلاحی کام کرنے والے لوگوں کے انٹرویو کیے۔ ان حوالوں سے بھری ہوئی اس کتاب کے طرز تحریر سے یوں لگتا ہے کہ یہ متعدد لمبے چوڑے اخباری فیچروں کا مجموعہ ہے۔
فریڈمین کا خیال ہے کہ دنیا کی تاریخ کو عالگیریت کے تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور ملکوں کی عالگیریت کا تھا، دوسرا کاروباری کمپنیوں کی اور اب تیسرا دور افراد کی عالمگیریت کا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا پہلی بار چپٹی اس وقت ہوئی تھی جب چودہ سو بانوے میں کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا اور یہ دور سنہ اٹھارہ سو تک پھیلا ہوا ہے۔ مصنف عالگیریت اور موجودہ عالمی معاشی نظام کے اتنے مداح ہیں کہ عالگیریت کے اس پہلے دور کے نقصانات کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتے۔
عالمگیریت کا دور
دنیا کی تاریخ کو عالگیریت کے تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور ملکوں کی عالگیریت کا تھا، دوسرا کاروباری کمپنیوں کی اور اب تیسرا دور افراد کی عالمگیریت کا ہے
تھامس فریڈمین
وہ سرسری طور پر بھی یہ نہیں بتاتے کہ یورپی اقوام کےامریکہ میں آنے سے وہاں کے مقامی انڈین لوگوں پر کیا بیتی اور انہیں کس ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح افریقہ سے لوگوں کو غلام بنا کر امریکہ لایا گیا اور ان کے بقول دنیا کو چپٹا بنایا گیا۔ وہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ امریکہ نے عالمگیریت کے اس پہلے دور میں تمباکو کی کاشت سے دنیا کو سگریٹ نوشی پر لگایا اور مہلک بیماریوں میں مبتلا کیا اور پھر ان بیماریوں کے علاج کی دوائیں بیچ کر اربوں کھربوں کمائے۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ عالمگیریت کا دوسرا دور سنہ اٹھارہ سو سے سنہ دو ہزار تک چلا۔ اس دور میں صنعتی انقلاب آیا، قومی کمپنیاں وجود میں آئیں، ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں کمی آئی اور ٹیلی گراف کے استعمال سے دنیا کے لوگوں میں روابط میں اضافہ ہوا۔
فریڈمین کے اس دوسرے عالگیری دور میں کس طرح یورپی اقوام نے کم ترقی یافتہ ملکوں جیسے افریقہ، ہندوستان وغیرہ کو نو آبادیاتی نظام میں غلام بنایا گیا، ان کے وسائل کی لوٹ مار کی اور وہاں فوجی طاقت کے زور پر حکومتیں بنائیں اس کا بھی ذکر اس کتاب میں نہیں ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ فائبر آپٹک نیٹ ورک کے وجود میں آنے سے دنیا تیسری عالمگیریت کے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ وہ بہت تفصیل سے بنگلور کی ان کمپنیوں کی احوال لکھتے ہیں جو امریکی کمپنیوں اور بنکوں کے لیے اکاونٹنگ، کال سینٹرز وغیرہ کا کام یورپی ملکوں سے پانچ گنا کم پیسوں پر بھارت سے کررہی ہیں۔ یہ سب فائبر آپٹک کیوجہ سے ممکن ہوا۔
فریڈمین کے ہاں بھارت کےلیے تعریف ہی تعریف ہے کہ کس طرح بھارت نے انیس سو بانوے میں سوشلزم ترک کرکے عالمی معیشت سے ناطہ جوڑا۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ بھارت کے بزنس سکول ہر سال نواسی ہزار ایم بی اے گریجویٹ تیار کررہے ہیں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے بھارت میں بیٹھے امریکی کمپنیوں کے لیئے خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
انہوں نے بہت تفصیل سے انفارمیشن ٹکنالوجی کی مختلف ایجادات کے پس منظر کا احوال لکھا ہے۔ وہ انیس سو پچانوے میں نیٹ سکیپ براؤزر کی ایجاد اور انیس سو چھیانوے میں پہلی فائبر آپٹک کے قیام، اوپن سورس سافٹ وئرز جیسے لینکس اور فائرفوکس براؤزر، سنہ دو ہزار میں وائے ٹو کے کی وجہ سے انڈیا کو آؤٹ سورسنگ کی ابتداء، سنہ دو ہزار ایک میں چین کے عالمی تجارت کے معاہدہ ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کو تیسری عالگیریت کے سنگ میل قرار دیتے ہیں۔
وال مارٹ کی دنیا
فریڈمین کے خیال میں وال مارٹ جیسی کمپنیوں نے سپلائی چین (نظام رسد کا زنجیر) کا نیا طریقہ وضع کرکے دنیا میں پرچون کے کاروبار میں ایک بڑی تبدیلی برپا کی ہے۔ وہ اس گلوبل سپلائی چین (زنجیر) کا تفصیلی احوال بتاتے ہیں۔ اس طریقہ سے امریکہ کے کسی اسٹور سے گاہک ایک چیز خریدتا ہے تو اسی وقت چین (چائنا) میں وہ چیز تیار کرنے والے کارخانہ کو اس فروخت کا پتہ چل جاتا ہے تاکہ وہ کارخانہ ایسی چیز تیار کر سکے جس کی منڈی میں طلب موجود ہے
فریڈمین کے خیال میں وال مارٹ جیسی کمپنیوں نے سپلائی چین (نظام رسد کا زنجیر) کا نیا طریقہ وضع کرکے دنیا میں پرچون کے کاروبار میں ایک بڑی تبدیلی برپا کی ہے۔ وہ اس گلوبل سپلائی چین (زنجیر) کا تفصیلی احوال بتاتے ہیں۔ اس طریقہ سے امریکہ کے کسی اسٹور سے گاہک ایک چیز خریدتا ہے تو اسی وقت چین (چائنا) میں وہ چیز تیار کرنے والے کارخانہ کو اس فروخت کا پتہ چل جاتا ہے تاکہ وہ کارخانہ ایسی چیز تیار کر سکے جس کی منڈی میں طلب موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو چپٹا کرنے میں وال مارٹ کی اس سپلائی زنجیر کا بڑا ہاتھ ہے جس نے سنہ دو ہزار چار میں دو سو ساٹھ ارب ڈالر کی اشیا خریدیں اور انہیں امریکہ میں اپنے تین ہزار اسٹورز کے ذریعے فروخت کیا۔
اسی طری وہ گوگل سرچ انجن کو بھی دنیا کو چپٹا کرنے والے عوامل میں شامل کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گوگل اس وقت دنیا میں روزانہ ایک ارب سرچز یا معلومات کی تلاش کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ان کے خیال میں اس سے دنیا کے لوگ انفرادی عالگیریت سے فیضیاب ہو رہے ہیں یعنی اب صرف ملک اور کاروباری ادارے ہی نہیں عام لوگ بھی دنیا سے جڑ گئے ہیں اور یوں اپنی مہارتوں کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
فریڈمین امریکیوں کو سمجھاتے ہیں کہ انہیں عالگیریت سے ڈرنا نہیں چاہیے کیونکہ اس سے کم درجہ کی ملازمتیں دنیا کے دوسرے ملکوں جیسے چین، بھارت اور روس وغیرہ کومنتقل ہوجائیں گی جبکہ زیادہ پیسوں والی اور اعلی مہارتوں والی ملازمتیں امریکیوں کے پاس رہیں گی۔وہ امریکیوں کو زیادہ سے زیادہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
فریڈمین نے اپنی کتاب میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالہ سے اسلامی تحریکوں، مسلمان ملکوں اور القاعدہ وغیرہ کا بھی جائزہ لیا ہے جو ان موضوعات پر امریکی ذہن کو سمجھنے میں مدد یتا ہے۔ وہ امریکہ مخالف اسلامی تحریکوں کو جدید دنیا کا تخریبی رجحان قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ جیسی تنظیمیں بھی عالگیریت سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور اس کے اوزار اپنے تخریبی مقاصد کے لیے استعمال کرہی ہیں۔
تاہم وہ امریکیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی سلامتی کی فکر تو کریں لیکن امریکہ کے دروازے دنیا کے لوگوں پر اور عالمی تجارت پر بند نہ کریں کیونکہ اس سے امریکیوں کو نقصان ہوگا۔ ان کا خیال ہے کہ دنیا کے معاشی طور پر جڑنے کا عمل یا عالگیریت ایسا رجحان ہے جسے روکا نہیں جاسکتا۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کو ایسا ملک ہونا چاہیے جو ماضی کی بجائے مستقبل کی طرف دیکھے اور ماضی کی یادوں کی بجائے مستقبل کے خواب دیکھے۔
یہ کتاب بدلتی ہوئی دنیا کے خط و خال اور اس کے پس منظر پر خاصی معلومات فراہم کرتی ہے لیکن فریڈمین کا نقطہ نظر موجودہ عالمی معاشی نظام کی سراسر حمایت پر مبنی ہے۔ وہ اس معاشی نظام کے تاریک گوشوں کو بہت سرسری انداز سے دیکھتے ہیں اور اپنے نتائج اخذ کرتے ہوئے انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔
۔
۔
“بشکریہ بی بی سی“
فریڈمین گلوبلائزیشن کے زبردست مداح ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ دنیا ٹیکنالوجی کی ترقی نت نئی ایجادات کے رواج پانے کی وجہ سے گول کی بجائے چپٹی ہوتی جارہی ہے یعنی دنیا کے مختلف خطوں جیسے امریکہ، بھارت، چین، روس اور لاطینی امریکہ میں تجارت، معاشی تعلقات اور رابطے بہت بڑھ گئے ہیں۔
اس کتاب میں فریڈمین نے جو نظریہ پیش کیا ہے وہ تو پرانا ہے کہ عالمگیریت کے باعث دنیا ایک عالمی گاؤں میں بدلتی جارہی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ان کی کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے عالمگیریت کے مختلف پہلؤوں کو مثالوں اور لوگوں سے بات چیت کر کے وضاحت سے پیش کیا ہے۔
تیرہ ابواب پر پھیلی ہوئی اس کتاب کو لکھنے کے لیے مصنف نے خاص طور سے امریکہ، بھارت اور چین کے مختلف شہروں کے دورے کیے۔ انہوں نے ان جگہوں پر کام کرنے والی کاروباری کمپنیوں کے ملازمین اور مالکان اور کچھ رضاکارانہ فلاحی کام کرنے والے لوگوں کے انٹرویو کیے۔ ان حوالوں سے بھری ہوئی اس کتاب کے طرز تحریر سے یوں لگتا ہے کہ یہ متعدد لمبے چوڑے اخباری فیچروں کا مجموعہ ہے۔
فریڈمین کا خیال ہے کہ دنیا کی تاریخ کو عالگیریت کے تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور ملکوں کی عالگیریت کا تھا، دوسرا کاروباری کمپنیوں کی اور اب تیسرا دور افراد کی عالمگیریت کا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا پہلی بار چپٹی اس وقت ہوئی تھی جب چودہ سو بانوے میں کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا اور یہ دور سنہ اٹھارہ سو تک پھیلا ہوا ہے۔ مصنف عالگیریت اور موجودہ عالمی معاشی نظام کے اتنے مداح ہیں کہ عالگیریت کے اس پہلے دور کے نقصانات کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتے۔
عالمگیریت کا دور
دنیا کی تاریخ کو عالگیریت کے تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور ملکوں کی عالگیریت کا تھا، دوسرا کاروباری کمپنیوں کی اور اب تیسرا دور افراد کی عالمگیریت کا ہے
تھامس فریڈمین
وہ سرسری طور پر بھی یہ نہیں بتاتے کہ یورپی اقوام کےامریکہ میں آنے سے وہاں کے مقامی انڈین لوگوں پر کیا بیتی اور انہیں کس ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح افریقہ سے لوگوں کو غلام بنا کر امریکہ لایا گیا اور ان کے بقول دنیا کو چپٹا بنایا گیا۔ وہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ امریکہ نے عالمگیریت کے اس پہلے دور میں تمباکو کی کاشت سے دنیا کو سگریٹ نوشی پر لگایا اور مہلک بیماریوں میں مبتلا کیا اور پھر ان بیماریوں کے علاج کی دوائیں بیچ کر اربوں کھربوں کمائے۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ عالمگیریت کا دوسرا دور سنہ اٹھارہ سو سے سنہ دو ہزار تک چلا۔ اس دور میں صنعتی انقلاب آیا، قومی کمپنیاں وجود میں آئیں، ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں کمی آئی اور ٹیلی گراف کے استعمال سے دنیا کے لوگوں میں روابط میں اضافہ ہوا۔
فریڈمین کے اس دوسرے عالگیری دور میں کس طرح یورپی اقوام نے کم ترقی یافتہ ملکوں جیسے افریقہ، ہندوستان وغیرہ کو نو آبادیاتی نظام میں غلام بنایا گیا، ان کے وسائل کی لوٹ مار کی اور وہاں فوجی طاقت کے زور پر حکومتیں بنائیں اس کا بھی ذکر اس کتاب میں نہیں ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ فائبر آپٹک نیٹ ورک کے وجود میں آنے سے دنیا تیسری عالمگیریت کے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ وہ بہت تفصیل سے بنگلور کی ان کمپنیوں کی احوال لکھتے ہیں جو امریکی کمپنیوں اور بنکوں کے لیے اکاونٹنگ، کال سینٹرز وغیرہ کا کام یورپی ملکوں سے پانچ گنا کم پیسوں پر بھارت سے کررہی ہیں۔ یہ سب فائبر آپٹک کیوجہ سے ممکن ہوا۔
فریڈمین کے ہاں بھارت کےلیے تعریف ہی تعریف ہے کہ کس طرح بھارت نے انیس سو بانوے میں سوشلزم ترک کرکے عالمی معیشت سے ناطہ جوڑا۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ بھارت کے بزنس سکول ہر سال نواسی ہزار ایم بی اے گریجویٹ تیار کررہے ہیں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے بھارت میں بیٹھے امریکی کمپنیوں کے لیئے خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
انہوں نے بہت تفصیل سے انفارمیشن ٹکنالوجی کی مختلف ایجادات کے پس منظر کا احوال لکھا ہے۔ وہ انیس سو پچانوے میں نیٹ سکیپ براؤزر کی ایجاد اور انیس سو چھیانوے میں پہلی فائبر آپٹک کے قیام، اوپن سورس سافٹ وئرز جیسے لینکس اور فائرفوکس براؤزر، سنہ دو ہزار میں وائے ٹو کے کی وجہ سے انڈیا کو آؤٹ سورسنگ کی ابتداء، سنہ دو ہزار ایک میں چین کے عالمی تجارت کے معاہدہ ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کو تیسری عالگیریت کے سنگ میل قرار دیتے ہیں۔
وال مارٹ کی دنیا
فریڈمین کے خیال میں وال مارٹ جیسی کمپنیوں نے سپلائی چین (نظام رسد کا زنجیر) کا نیا طریقہ وضع کرکے دنیا میں پرچون کے کاروبار میں ایک بڑی تبدیلی برپا کی ہے۔ وہ اس گلوبل سپلائی چین (زنجیر) کا تفصیلی احوال بتاتے ہیں۔ اس طریقہ سے امریکہ کے کسی اسٹور سے گاہک ایک چیز خریدتا ہے تو اسی وقت چین (چائنا) میں وہ چیز تیار کرنے والے کارخانہ کو اس فروخت کا پتہ چل جاتا ہے تاکہ وہ کارخانہ ایسی چیز تیار کر سکے جس کی منڈی میں طلب موجود ہے
فریڈمین کے خیال میں وال مارٹ جیسی کمپنیوں نے سپلائی چین (نظام رسد کا زنجیر) کا نیا طریقہ وضع کرکے دنیا میں پرچون کے کاروبار میں ایک بڑی تبدیلی برپا کی ہے۔ وہ اس گلوبل سپلائی چین (زنجیر) کا تفصیلی احوال بتاتے ہیں۔ اس طریقہ سے امریکہ کے کسی اسٹور سے گاہک ایک چیز خریدتا ہے تو اسی وقت چین (چائنا) میں وہ چیز تیار کرنے والے کارخانہ کو اس فروخت کا پتہ چل جاتا ہے تاکہ وہ کارخانہ ایسی چیز تیار کر سکے جس کی منڈی میں طلب موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو چپٹا کرنے میں وال مارٹ کی اس سپلائی زنجیر کا بڑا ہاتھ ہے جس نے سنہ دو ہزار چار میں دو سو ساٹھ ارب ڈالر کی اشیا خریدیں اور انہیں امریکہ میں اپنے تین ہزار اسٹورز کے ذریعے فروخت کیا۔
اسی طری وہ گوگل سرچ انجن کو بھی دنیا کو چپٹا کرنے والے عوامل میں شامل کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گوگل اس وقت دنیا میں روزانہ ایک ارب سرچز یا معلومات کی تلاش کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ان کے خیال میں اس سے دنیا کے لوگ انفرادی عالگیریت سے فیضیاب ہو رہے ہیں یعنی اب صرف ملک اور کاروباری ادارے ہی نہیں عام لوگ بھی دنیا سے جڑ گئے ہیں اور یوں اپنی مہارتوں کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
فریڈمین امریکیوں کو سمجھاتے ہیں کہ انہیں عالگیریت سے ڈرنا نہیں چاہیے کیونکہ اس سے کم درجہ کی ملازمتیں دنیا کے دوسرے ملکوں جیسے چین، بھارت اور روس وغیرہ کومنتقل ہوجائیں گی جبکہ زیادہ پیسوں والی اور اعلی مہارتوں والی ملازمتیں امریکیوں کے پاس رہیں گی۔وہ امریکیوں کو زیادہ سے زیادہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
فریڈمین نے اپنی کتاب میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالہ سے اسلامی تحریکوں، مسلمان ملکوں اور القاعدہ وغیرہ کا بھی جائزہ لیا ہے جو ان موضوعات پر امریکی ذہن کو سمجھنے میں مدد یتا ہے۔ وہ امریکہ مخالف اسلامی تحریکوں کو جدید دنیا کا تخریبی رجحان قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ جیسی تنظیمیں بھی عالگیریت سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور اس کے اوزار اپنے تخریبی مقاصد کے لیے استعمال کرہی ہیں۔
تاہم وہ امریکیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی سلامتی کی فکر تو کریں لیکن امریکہ کے دروازے دنیا کے لوگوں پر اور عالمی تجارت پر بند نہ کریں کیونکہ اس سے امریکیوں کو نقصان ہوگا۔ ان کا خیال ہے کہ دنیا کے معاشی طور پر جڑنے کا عمل یا عالگیریت ایسا رجحان ہے جسے روکا نہیں جاسکتا۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کو ایسا ملک ہونا چاہیے جو ماضی کی بجائے مستقبل کی طرف دیکھے اور ماضی کی یادوں کی بجائے مستقبل کے خواب دیکھے۔
یہ کتاب بدلتی ہوئی دنیا کے خط و خال اور اس کے پس منظر پر خاصی معلومات فراہم کرتی ہے لیکن فریڈمین کا نقطہ نظر موجودہ عالمی معاشی نظام کی سراسر حمایت پر مبنی ہے۔ وہ اس معاشی نظام کے تاریک گوشوں کو بہت سرسری انداز سے دیکھتے ہیں اور اپنے نتائج اخذ کرتے ہوئے انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔
۔
۔
“بشکریہ بی بی سی“