حسینی
محفلین
اسلام اور کفر کی جنگ تھی۔ بقول اقبال:یہ لڑائی پاور کے لیے تھی نا ؟ خلافت کی یا کفر اسلام کی ؟
زندہ حق از قوت شبیری است!
اسلام اور کفر کی جنگ تھی۔ بقول اقبال:یہ لڑائی پاور کے لیے تھی نا ؟ خلافت کی یا کفر اسلام کی ؟
بین الحقِ والباطل۔۔۔۔۔۔۔جیسے کہ ؟ نظریات بین المسلمین تھے یا بین المسلم و الکفار؟
بین الحقِ والباطل۔۔۔ ۔۔۔ ۔
سادہ الفاظ میں۔۔۔
ایک نظریہ وہ تھا جوجس نظریے کی تبلیغ میں ختمی مرتبت نے اپنی زندگی صرف کی۔۔۔ ۔
ایک وہ نظریہ تھا جو خود دین کی پیروی کے بجائے دین کو اپنا پیرو بنانا چاہتا تھا۔۔۔
عسکری بھیّا، آپ مجھے پہلے اک Confusion سے نکالیئے پھر میں جواب دیتی ہوں۔۔۔ مسلمان کسی نظریے کے پیرو کو کہا جاتا ہے یا کسی "ذئی ، قبیلے یا خاندان " کا نام ہے۔۔۔۔معاملہ انٹرل ہوا پھر کفر اور اسلام کا نہیں نا ؟ پر وہ بھائی کچھ اور کہہ رہے ہین
تو کیا کوئی کافر اسلام کے بھیس میں نہیں آسکتا؟؟؟؟معاملہ انٹرل ہوا پھر کفر اور اسلام کا نہیں نا ؟ پر وہ بھائی کچھ اور کہہ رہے ہین
عسکری بھیّا، آپ مجھے پہلے اک Confusion سے نکالیئے پھر میں جواب دیتی ہوں۔۔۔ مسلمان کسی نظریے کے پیرو کو کہا جاتا ہے یا کسی "ذئی ، قبیلے یا خاندان " کا نام ہے۔۔۔ ۔
تو کیا کوئی کافر اسلام کے بھیس میں نہیں آسکتا؟؟؟؟
یہ تو ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ انسان صرف اسی نظریے کو مانتا ہے جسے وہ حق سمجھتا ہے۔میرے خیال سے پہلے پہل مسلمان ایک نظریے کے پیروکاروں کو کہا جاتا تھا پھر انہی کے اندر تقسیم در تقسیم کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو کشت وخون جنگیں تباہی نفرت اور تفرقہ لایا ۔ آج کل کے دور میں اساس تو اسی مسلمانیت کو بنایا جاتا ہے پر عمل و فکر اپنے فرقے کی کی جاتی ہے ۔
آج کل اسلام کی کوئی تعریف اور شکل واضع نہیں ہے ۔ کیونکہ ہر ایک گروپ حق پر ہے اور دوسروں کو بھٹکے ہوئے غلط یا کوفر تک کہتا ہے ۔ تو پہلے مسلمان خود فیصلہ کریں کہ وہ کیا ہیں ۔
ہم ساری دنیا کو اس کلیے کے نیچے لے آئیں تو پھر اسلام کی انفرادیت اور حقانیت پر چوٹ پڑے گی ۔ اس طرح اگر سارے ایک جیسے ہیں تو پھر اسلام ہی کیوں پھر آدمی بدھ مت کو کیوں نا مانے ؟ انسان کے ماننے اور نظریہ سچ ہونے میں بہت فرق ہے ۔ فرقہ بندی بہت ہے کئی مذاہب میں اس طرح اسلام ان کو باطل کہتا ہے تو پھر اسلام خود بھی ویسا ہے اس کا مطلب؟یہ تو ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ انسان صرف اسی نظریے کو مانتا ہے جسے وہ حق سمجھتا ہے۔
کیا یہ فرقہ بندی صرف مسلمانوں میں ہے؟ اور ادیان میں نہیں؟؟
کیا اور نظریات کو ماننے والے حتی دین کو انکار کرنے والے بھی اپنے نظریات میں متحد ہیں؟؟؟؟
العوام کالانعام۔ عوام بیچاری کو تو ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ایک آدھ بندہ آ سکتا ہے افواج نہین کیونکہ افواج ایک مجموعہ ہے بہت بڑے نمبرز کا ۔ اگر افواج آئیں تو پھر بھیس بدل کر نہین کہا جا سکتا پھر خانہ جنگی کہا جا سکتا ہے ۔
العوام کالانعام۔ عوام بیچاری کو تو ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
کیا افواج جب بن جائے تو وہ دھوکہ نہیں کھا سکتے؟؟ بات پھر وہی آجاتی ہے اکثریت یا افواج معیار نہیں ہے۔
یہی حقیقت ہے اسلام ایک نظام کا نام ہے، اس نظام میں انڈورسمنٹ کو روکنے کیلئے کنبہ رسول ص نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ورنہ تو قاری قرآن اور حافظ قرآن لشکر یزید میں بھی تھے، مگر کوئی ناطق قرآن نہیں تھا۔۔۔۔میرے خیال سے پہلے پہل مسلمان ایک نظریے کے پیروکاروں کو کہا جاتا تھا پھر انہی کے اندر تقسیم در تقسیم کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو کشت وخون جنگیں تباہی نفرت اور تفرقہ لایا ۔ آج کل کے دور میں اساس تو اسی مسلمانیت کو بنایا جاتا ہے پر عمل و فکر اپنے فرقے کی کی جاتی ہے ۔
آج کل اسلام کی کوئی تعریف اور شکل واضع نہیں ہے ۔ کیونکہ ہر ایک گروپ حق پر ہے اور دوسروں کو بھٹکے ہوئے غلط یا کوفر تک کہتا ہے ۔ تو پہلے مسلمان خود فیصلہ کریں کہ وہ کیا ہیں ۔
اور ادیان کو فرقہ بندی کی وجہ سے باطل نہیں کہتے۔ بلکہ ان کے نظریا ت کی وجہ سے۔ہم ساری دنیا کو اس کلیے کے نیچے لے آئیں تو پھر اسلام کی انفرادیت اور حقانیت پر چوٹ پڑے گی ۔ اس طرح اگر سارے ایک جیسے ہیں تو پھر اسلام ہی کیوں پھر آدمی بدھ مت کو کیوں نا مانے ؟ انسان کے ماننے اور نظریہ سچ ہونے میں بہت فرق ہے ۔ فرقہ بندی بہت ہے کئی مذاہب میں اس طرح اسلام ان کو باطل کہتا ہے تو پھر اسلام خود بھی ویسا ہے اس کا مطلب؟
تو پھر ایک خاندان کے بزرگان نے دوسرے خاندان کے بزرگوں کے ہاتھوں بیعت کیوں کی؟؟پر مجھے لگتا ہے یہ معاملہ مسلانوں کا اپنا تھا اور اس سے پہلے ہی ان دونوں خاندانوں کے درمیان چپکلس تھی جو یہ رنگ لائی
ہاں اس وقت ختم ہوگئی تھی ،لیکن چپلقش ختم کرانے والے کو نہیں چھوڑا گیا ،بلکہ اسکو زہر دیا گیا۔اسی طرح معاملہ زیادہ سنبھلا نہیں تھا کہ پھر بگڑ گیا۔تو پھر ایک خاندان کے بزرگان نے دوسرے خاندان کے بزرگوں کے ہاتھوں بیعت کیوں کی؟؟
کیا اس وقت چپقلش ختم ہو گئی تھی؟؟
مسئلہ اسلام و کفر کا نہیں تھا ،بلکہ مسئلہ زیادہ حقدار و کم حقدار کا تھا۔
لیکن اس میں بھی مصالحت ہو سکتی تھی،اگر بعض شریر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری نہ کرتے ،اور نرمی کا معاملہ کرتے نیز بعض اپنے وعدوں سے نہ پھر جاتے،اور عین موقع پر ال رسول کو تنہا نہ چھوڑتے۔
بنیادی طور پر چہلم سے مراد چالیس روز ہے یعنی جب وفات کو چالیس روز گذریں تو اسے چہلم کہا جاتا ہے۔ مذہبی اعتبار سے تو نہیں جانتا لیکن سماجی اعتبار سے اسے خاصی اہمیت حاصل ہے۔ بلکہ تدفین کے بعد سب سے پہلا بڑا "اجتماع" یہی ہوتا ہےچہلم امام حسین کا اجتماع یقینا بہت بڑا ہوتا ہوگا لیکن کثرت تعداد کبھی بھی معیار حق کی دلیل نہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ امام حسین حق پر نہ تھے
ان کی حقانیت کے ثبوت کے لیے کسی مجمع کی ضرورت نہیں
ویسے میرا ایک سوال ہے جسے کسی مذہبی فرقہ ورانہ تناظر میں نہ لیا جائے اپنی معلومات کے لیے پوچھ رہا ہوں کہ یہ چہلم کا کیا مقصد ہوتا ہے خواہ وہ کسی کا بھی ہو
چہلم کا کیا پس منظر ہے اس بارے میں کوئی رہنمائی فرمائے