ماسٹر
محفلین
جرمنی کےتیسرے بڑے شہر میونخ میں 1810 سے یہ میلہ ہر سال ہو رھا ہے -
اس سال بھی یہ 19 ستمبر سے 4 اکتوبر تک شہر کے ایک 4 مربع کلو میٹر بڑے میدان میں بڑے بڑے شامیانوں میں اور کھلے آسمان کے نیچے ہو رہا ہے جن میں بیک وقت ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے بیٹھنے کا انتظام موجود ہے -
اس میلے کی شہرت پوری دنیا میں اتنی زیادہ ہے کہ ہر سال ہزاروں ٹیورسٹ اٹلی ، امریکہ ، جاپان آسٹریلیا وغیرہ سے آتے ہیں -
اس کی مقبولیت اتنی زیادہ ہے کہ اس وقت Oktoberfest کے نام سے دنیا کے ایک سو ممالک میں ہزاروں چھوٹے بڑے میلے ہو رہے ہیں -
صرف میونخ کے میلے میں ہر سال ساٹھ لاکھ لوگ آتے ہیں -
سوال یہ ہے کہ اس میلے میں آخر ہوتا کیا ہے ؟
جھولوں اور عوامی پریڈوں سے زیادہ اس میں تمام حدود کو توڑتے ہوئے شراب نوشی ہوتی ہے - جس کی ابتدا شہر کے مییر صاحب کرتے ہیں اور پہلا گلاس وزیر اعلے کو پیش کرتے ہیں -
یہ اس ملک کی بات ہو رہی ہے جہاں اب تمباکو نوشی کو بھی " گناہ کبیرہ " سمجھا جاتاہے ۔ مگر یہاں حکومت خود شراب نوشی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔
اس میلہ میں روزانہ بےشمار لوگ پی پی کر بے ہوش ہو جاتے ہیں - ان کے لیے ایک عارضی ہسپتال بھی بنایا جاتا ہے ۔بہت لڑایاں بھی ہوتی ہیں اور بہت سے لوگ گر کر زخمی بھی ہوتے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ میلہ کو آنے جانے والی سڑکوں پر پولیس سخت نگرانی کرتی ہے کہ کوئی شراب پی کر گاڑی نہ چلا رہا ہو ۔ ایسے لوگوں کو پکڑ کر بھاری جرمانے بھی کر رہی ہوتی ہے ۔
میلے پر لوگ وہ وہ کام کر رہے ہوتے ہیں جو وہ عام دنوں میں کریں تو نہایت بد تمیز کہلائیں ۔
یہ بھی ایک رنگ ہے " جدید تہذیب " کا ، جس سے اللہ سب کو بچائے ،
اس سال بھی یہ 19 ستمبر سے 4 اکتوبر تک شہر کے ایک 4 مربع کلو میٹر بڑے میدان میں بڑے بڑے شامیانوں میں اور کھلے آسمان کے نیچے ہو رہا ہے جن میں بیک وقت ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے بیٹھنے کا انتظام موجود ہے -
اس میلے کی شہرت پوری دنیا میں اتنی زیادہ ہے کہ ہر سال ہزاروں ٹیورسٹ اٹلی ، امریکہ ، جاپان آسٹریلیا وغیرہ سے آتے ہیں -
اس کی مقبولیت اتنی زیادہ ہے کہ اس وقت Oktoberfest کے نام سے دنیا کے ایک سو ممالک میں ہزاروں چھوٹے بڑے میلے ہو رہے ہیں -
صرف میونخ کے میلے میں ہر سال ساٹھ لاکھ لوگ آتے ہیں -
سوال یہ ہے کہ اس میلے میں آخر ہوتا کیا ہے ؟
جھولوں اور عوامی پریڈوں سے زیادہ اس میں تمام حدود کو توڑتے ہوئے شراب نوشی ہوتی ہے - جس کی ابتدا شہر کے مییر صاحب کرتے ہیں اور پہلا گلاس وزیر اعلے کو پیش کرتے ہیں -
یہ اس ملک کی بات ہو رہی ہے جہاں اب تمباکو نوشی کو بھی " گناہ کبیرہ " سمجھا جاتاہے ۔ مگر یہاں حکومت خود شراب نوشی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔
اس میلہ میں روزانہ بےشمار لوگ پی پی کر بے ہوش ہو جاتے ہیں - ان کے لیے ایک عارضی ہسپتال بھی بنایا جاتا ہے ۔بہت لڑایاں بھی ہوتی ہیں اور بہت سے لوگ گر کر زخمی بھی ہوتے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ میلہ کو آنے جانے والی سڑکوں پر پولیس سخت نگرانی کرتی ہے کہ کوئی شراب پی کر گاڑی نہ چلا رہا ہو ۔ ایسے لوگوں کو پکڑ کر بھاری جرمانے بھی کر رہی ہوتی ہے ۔
میلے پر لوگ وہ وہ کام کر رہے ہوتے ہیں جو وہ عام دنوں میں کریں تو نہایت بد تمیز کہلائیں ۔
یہ بھی ایک رنگ ہے " جدید تہذیب " کا ، جس سے اللہ سب کو بچائے ،