دنیا کا سب سے پہلا پی سی وائرس بنانے والے ۔۔

وجی

لائبریرین
جی ہاں میں نے بھی یہی سنا ہے کہ پہلا اینٹی وائرس بھی پاکستان ہی میں بنا تھا اور وہ کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی کے طلبہ نے بنایا تھا
اور اس برین وائرس کے ٹھیک 6 یا 7 ماہ بعد
 

میم نون

محفلین
اسکا تو پتہ نہیں لیکن چند ماہ پہلے یہ خبر پڑی تھی کہ Instant Virus Killer پاکستان کا پہلا اینٹی وائرس سافٹوئیر ہے۔
http://www.instantviruskiller.com/
اور یہ حال ہی میں بنایا گیا ہے۔
شائد محفل پر بھی اسکے بارے میں کچھ لکھا گیا تھا۔
 

مکی

معطل
زبردست چیز بنائی ہے ان نوجوانوں نے، میں ونڈوز کا صارف ہوتا تو ایک کاپی ضرور خریدتا، دو ہزار روپے کوئی اتنی زیادہ رقم نہیں ہے..

اوپر سے پاکستان کا پہلا آپریٹنگ سسٹم بنانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں.. بڑے بلند ہوصلے ہیں.. شاباش..!! :good:
 

محمد سعد

محفلین
تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر لینکس عوامی آپریٹنگ سسٹم ہوتا تو اس کے وائرس بھی آج اتنے ہی ہوتے جتنے ونڈوز کے ہیں۔ لینکس کا استعمال بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کو لاحق سیکیورٹی خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔

ایسی باتیں وہی کر سکتا ہے جس نے کبھی خود کوئی وائرس لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ ;)
ارے بھائی، کئی سالوں سے دنیا کے دو تہائی سے زائد سرورز پر لینکس چل رہا ہے۔ کیا اس کے باوجود لینکس کے لیے کوئی کامیاب وائرس نہ ملنا عجیب سا نہیں لگتا؟
کسی نظام کے تحفظ کا انحصار دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ اس نظام کی ساخت اور اس کا صارف۔ اگر نظام کی ساخت ہی مضبوط نہ ہو اور وہ حملہ آور کی راہ میں کوئی خاص روڑے نہ اٹکاتا ہو تو صارف چاہے جتنا بھی ماہر ہو، ہمیشہ سر درد کا شکار رہے گا۔ مضبوطی کے ساتھ تیار کیے گئے نظام کا صارف نسبتاً پرسکون زندگی گزارتا ہے۔
ونڈوز میں حملہ آور کے راستے میں خاطر خواہ رکاوٹیں ہی نہیں ہوتیں۔ صرف ایک عدد فائروال (اگر آپ کو نیٹ ورک کے ذریعے کچھ کرنا ہے)، ونڈوز وسٹا یا سیون کی صورت میں UAC، اور ایک عدد اینٹی وائرس کو پار کرنا پڑتا ہے جو عموماً صرف ایک ڈیٹابیس میں موجود وائرسوں تک ہی محدود رہتا ہے۔ سائبر سیکیورٹی کے موضوع پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ پہلے دو کو پار کرنا آج کل کوئی مشکل کام نہیں۔صرف اینٹی وائرس ہی تھوڑی سی مزاحمت کر سکتا ہے لیکن اگر اس کی کوئی کمزوری حملہ آور جانتا ہو تو اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں بچتی۔
اس کے مقابلے میں لینکس پر ایک مضبوط فائروال، فائل سسٹم کے اختیارات، عام صارف کا نظام میں تبدیلی نہ کر پانا، اطلاقیوں کے ریم میں لوڈ ہونے والے حصوں تک کی کڑی نگرانی، گرافیکل انٹرفیس کا اصل آپریٹنگ سسٹم کا لازمی حصہ نہ ہونا، سینکڑوں مختلف ڈسٹربیوشنز کی بھرمار، سافٹ وئیر کے حصول کا کام پیکج منیجر کے ذریعے ہونا، کسی بھی اطلاقیے کا بغیر صارف کی مرضی کے چلنا ناممکن ہونا، ونڈوز کی طرز کے آٹورن اور انٹرنیٹ ایکسپلورر جیسی آسان سواری کی عدم دستیابی، SELinux اور AppArmor جیسے فوجی جوانوں کی موجودگی جن کی موجودگی میں کوئی اطلاقیہ مشکوک حرکات نہیں کر سکتا (آج کل ہر بڑی ڈسٹربیوشن میں ابتداء ہی سے ان دونوں میں سے کم از کم ایک ضرور پایا جاتا ہے)۔۔۔ اور ان کے علاوہ اور بھی بہت کچھ۔ ان تمام رکاوٹوں کی موجودگی میں کوئی کامیاب وائرس لکھنا خالہ جی کا گھر نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر حملہ آور ونڈوز اور ایپل جیسے نسبتاً آسان اہداف چنتے ہیں۔ اور یہاں یہ نکتہ بھی دلچسپ ہے کہ ایپل کا او ایس ایکس بھی انتہائی کم استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود حملوں کی زد میں رہتا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
ایک اہم نکتہ وائرس اور ٹروجن ہارس کے درمیان فرق ہے۔ وائرس اسے کہتے ہیں جسے نظام کو متاثر کرنے کے لیے صارف کی ضرورت نہ پڑے۔ جبکہ ٹروجن ایسا پروگرام ہوتا ہے جو نظام کو خود بہ خود متاثر نہ کر سکتا ہو چنانچہ صارف کو اپنے مفید ہونے کا دھوکہ دے۔ اس نکتۂ نگاہ سے دیکھیں تو لینکس پر وائرس کے کامیاب ہونے کا امکان صفر رہ جاتا ہے۔ جبکہ ٹروجن کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہاں کتنا بے وقوف صارف بیٹھا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
ایسا شخص جو نائجیریا کے کسی گمنام فوت شدہ آدمی سے لاکھوں ڈالر اپنے کھاتے میں منتقل ہونے کے چکر میں اپنے بینک کی پوری تفصیلات مہیا کر دے، اس کے لیے تو کسی ٹروجن کو روٹ کے اختیارات دے دینا بھی معمولی سی بات ہوگی۔ چنانچہ جیسے جیسے حملہ آوروں کے راستے میں رکاوٹیں بڑھتی جائیں گی، وہ زنجیر کی سب سے کمزور کڑی، یعنی صارف کو اپنا ہدف بنائیں گے۔ یعنی صارف کو بے وقوف بنانے کے نت نئے طریقے کھوجنا شروع کر دیں گے۔
 

میم نون

محفلین
بے وقوف بنانے والی بات تو اپنے خوب کہی اور ہے بھی ایسا ہی۔

لیکن جہاں تک لینکس کی حفاظت کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ایسا کوئی دفاع نہیں ہے جسے توڑا نا جا سکے، باں اسکے لئیے درست بندے کی ضرورت ہوتی ہے۔
خیر یہ تو بس میری (ایک نا تجربہ گار کی) چھوٹی سی رائے ہے :)
 

مکی

معطل
بے وقوف بنانے والی بات تو اپنے خوب کہی اور ہے بھی ایسا ہی۔

لیکن جہاں تک لینکس کی حفاظت کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ایسا کوئی دفاع نہیں ہے جسے توڑا نا جا سکے، باں اسکے لئیے درست بندے کی ضرورت ہوتی ہے۔
خیر یہ تو بس میری (ایک نا تجربہ گار کی) چھوٹی سی رائے ہے :)

آپ کی بات درست ہے، سو فیصد کچھ بھی نہیں ہوتا، لینکس ناقابلِ تسخیر نہیں ہے، ہاں مشکل ضرور ہے لیکن زیادہ تر حالات میں اس کا ذمہ دار صارف خود ہی ہوگا کیونکہ '' صارف حماقت '' کا کوئی علاج نہیں، اگر صارف کسی وائرس کو خود ہی چلا بیٹھے تو کوئی کیا کر سکتا ہے!!
 

محمد سعد

محفلین
اسی لیے سیانے بابے کہتے ہیں کہ (لینکس پر) سافٹ وئیر کی تنصیب کے لیے پیکج منیجر کا استعمال کیا کریں۔ کیونکہ وہاں موجود سافٹ وئیر کو پوری تسلی کے بعد ہی رکھا جاتا ہے کہ یہ محفوظ ہیں۔
بلا ضرورت ادھر ادھر ویب سائٹس پر تلاش کر کے وہاں سے سافٹ وئیر نصب کرنے میں خطرہ ہوتا ہے کہ صارف کوئی نقصان دہ سافٹ وئیر نصب نہ کر بیٹھے۔ جیسے کم علمی کی وجہ سے بعض اوقات لوگ ونڈوز کے مشہور سافٹ وئیر کے بھی ایسے جعلی نسخے ڈاؤن لوڈ کر لیتے ہیں جن میں کوئی سپائی وئیر وغیرہ ہوتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
دوسرا لینکس کا سارا کوڈ اوپن سورس ہے، اور اگر کہیں وائرس ہوگاتو نظر آ ہی جائے گا۔ ونڈوز کی طرح لاک تو نہیں ہوگا!
 

میم نون

محفلین
جی ہاں میں خود اوپن سورس نطام کا حامی ہوں، اور یہ بات درست ہے کہ اگر اسمیں کہیں کوئی بگ یا وائرس وغیرہ ہو گا تو اسے بنسبت کلوز سورس نظام کے جلد حل کر لیا جائے گا۔
لیکن یہ کہنا کہ اسے ہیک کیا ہی نہیں جا سکتا تو یہ درست نہیں ہو گا، کیونکہ کوئی بھی نظام سو فیصد محفوظ نہیں ہو سکتا۔
ایسا کرنا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں :)
 

زہیر

محفلین
سب سے پہلے تو اس قیمتی ویڈیو کو شئر کرنے کا شکریہ۔۔۔۔ ویسے سڈے کولوں کوئی جنگے بھی کم ہوئین؟
 
Top