جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
لوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے
مے نہ دی قرض اس نے دو دن کے لیے
جس نے توڑے ہم سے گن گن کے لیے
دن مرا روتا ہے میری رات کو
رات روتی ہے مری دن کے لیے
ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے
پاک رکھا، پاک دامن سے حساب
بوسے بھی گن کے دیے گن کے لیے
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
ذرّہ ذرّہ دُردِ مے کا زاہدو
دوربیں ہے چشمِ باطن کے لیے
وصل میں جھنجھلا کے وہ بولے کہ ہاں
کن کا جوبن اور ہے کن کے لیے
باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنا ہے ایک کمسِن کے لیے
سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے
جائیے سونپا خدا کو جائیے
تھا یہ سارا حسن ضامن کے لیے
ذبح کرنے میں بڑا مشّاق ہے
گھر ہو مسلخ میں موذن کے لیے
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذِّن کے لیے