خالد محمود چوہدری
محفلین
دودھ پینے سے پہلے اسے ضرور پڑھ لیں
میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دو پاکستانیوں کا مشکور ہوں‘ یہ دونوں 2016ءمیں پوری قوم کے محسن ہیں اور قوم کو کھڑے ہو کر ان کےلئے تالیاں بھی بجانی چاہئیں اور ان کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے‘یہ دونوں پاکستانی کون ہیں؟ پاکستان کے پہلے محسن بیرسٹر ظفراللہ ہیں اور دوسرے چیف جسٹس ثاقب نثار ہیں۔ یہ دونوں قوم کے محسن ہیں‘ کیسے اور کیوں؟ یہ جاننے کےلئے آپ کو چھ ماہ پیچھے جانا ہوگا‘ بیرسٹر ظفر اللہ نے جون 2016ءمیں سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں دودھ سے متعلق پٹیشن دائر کی‘ بیرسٹر صاحب نے اس پٹیشن میں انکشاف کیا
”پاکستان میں جعلی دودھ بک رہا ہے اور لاکھوں لوگ اب تک اس دودھ کی وجہ سے مہلک امراض کا شکار ہو چکے ہیں“چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے 28 جولائی 2016ءکو جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ بنا دیا‘ بینچ نے سماعت شروع کی اور پنجاب فوڈ اتھارٹی سے جواب طلب کر لیا‘ اتھارٹی نے دودھ کے نمونے جمع کرنا شروع کر دیئے‘ دودھ کی پڑتال ہوئی اور نتائج نے سپریم کورٹ سمیت پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘قوم سکتے میں چلی گئی‘ حقائق کیا ہیں؟ آپ بھی جانیے ‘کانوں کو ہاتھ لگائیے اور دودھ پینا چھوڑ دیجئے۔ملک میں دودھ دینے والے 63 لاکھ جانور ہیں‘ یہ جانور سالانہ 35 سے 40 ارب لیٹر دودھ دیتے ہیں‘ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن ہم دنیا میں خراب‘ مضر صحت اور جعلی دودھ بنانے والی سب سے بڑی قوم بھی ہیں‘ کیسے؟ آپ ملاحظہ کیجئے پاکستان میں دودھ کی چار قسمیں دستیاب ہیں‘ پہلی قسم لوز ملک یا گوالوں کا دودھ ہے‘ یہ دودھ کل پیداوار کا 93 فیصد ہے‘ ملک کی اکثریت یہ دودھ استعمال کرتی ہے“ دوسری قسم ٹیٹرا پیک دودھ ہے‘ یہ دودھ گتے کے ایسے ڈبوں میں فروخت ہوتا ہے جن کی اندرونی سائیڈ پر دھات کی باریک تہہ چڑھی ہوتی ہے‘ یہ دودھ دو سے تین ماہ تک قابل استعمال ہوتا ہے‘ تیسری قسم بوتلوں اور پلاسٹک کے لفافوں میں دستیاب دودھ ہے‘ یہ دودھ دو سے تین دن تک استعمال کیا جا سکتا ہے‘ ملک کے لاکھوں شہری یہ دودھ استعمال کرتے ہیں اور چوتھی قسم خشک دودھ ہے‘ یہ دودھ سال چھ مہینے تک استعمال ہو سکتا ہے‘ پاکستان کے کروڑوں شہری یہ دودھ چائے میں استعمال کرتے ہیں‘ مائیں بچوں کو خشک دودھ پلاتی ہیں اور پاکستان کی زیادہ تر بیکریوں اور مٹھائیوں میں بھی یہ خشک دودھ استعمال ہوتا ہے‘ آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے دودھ کی یہ چاروں اقسام مضر صحت اور انسانوں کےلئے انتہائی خطرناک ہیں‘ کیسے؟ آپ مزید حقائق ملاحظہ کیجئے‘ تازہ دودھ زیادہ سے زیادہ دو سے تین گھنٹے محفوظ رہتا ہے‘ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کےلئے دودھ دور دراز علاقوں اور مضافات سے لایا جاتا ہے‘ مثلاً آپ لاہور اور راولپنڈی کی مثال لیجئے‘ لاہور شہر کےلئے اوکاڑہ‘ چشتیاں‘ قصور‘ جھنگ اور وزیر آباد سے دودھ آتا ہے جبکہ راولپنڈی کےلئے جہلم اور سرائے عالمگیر سے دودھ لایا جاتا ہے‘ دودھ کے بیوپاری گوالوں سے دودھ لیتے ہیں‘ چھوٹے بڑے ٹینکرز میں بھرتے ہیں اور یہ دودھ بڑے شہروں کو سپلائی کر دیا جاتا ہے‘
بھینس سے انسانی ہونٹوں تک دودھ میں دو مرتبہ انتہائی خوفناک ملاوٹ ہوتی ہے‘ دودھ میں پہلی ملاوٹ گوالہ کرتا ہے‘ یہ زیادہ اور فوری دودھ حاصل کرنے کےلئے بھینسوں کو ہارمون کے انجیکشن لگاتا ہے‘ یہ انجیکشن خواتین کو ڈلیوری کے دوران لگائے جاتے ہیں اور یہ میڈیکل سٹورز سے عام مل جاتے ہیں‘ یہ سستے بھی ہوتے ہیں‘ یہ انجیکشن جوں ہی بھینس کو لگایا جاتا ہے‘ یہ فوراً دودھ دے دیتی ہے‘ یہ دودھ مقدار میں 20 سے 30 فیصد زیادہ بھی ہوتا ہے‘یہ ہارمون بچوں کی صحت کےلئے نقصان دہ ہیں‘ گوالے چھوٹی مشینوں کی مدد سے دودھ سے کریم نکال لیتے ہیں‘ یہ اس کریم کا مکھن اور دیسی گھی بناتے ہیں اور مارکیٹ میں بیچ
دیتے ہیں‘ دودھ کریم کے بعد پتلا ہو جاتا ہے‘ گوالے پتلے پن کو چھپانے کےلئے دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاﺅڈر (سرف) ڈال دیتے ہیں‘ڈیٹرجنٹ دودھ کو گاڑھا بھی کر دیتا ہے اور یہ اس میں جھاگ بھی پیدا کر دیتا ہے‘ یہ لوگ سرف کی کڑواہٹ ختم کرنے کےلئے دودھ میں بعد ازاں بلیچنگ پاﺅڈر ڈالتے ہیں‘ بلیچنگ پاﺅڈر دودھ کو ذائقے دار بھی بنا دیتا ہے اور اس میں چمک بھی پیدا کر دیتا ہے‘ یہ دودھ گوالوں سے بیوپاریوں کے پاس آتا ہے‘بیوپاری اس میں یوریا کھاد‘ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ‘ بورک پاﺅڈر‘ پنسلین‘ ایلومینیم فاسفیٹ اور فارملین ڈال دیتے ہیں‘ یہ کیمیکل اینٹی بائیوٹک بھی ہیں اور یہ پریزرویٹوز بھی ہیں‘ یہ دودھ کو خراب ہونے سے بچاتے
ہیں‘ بیوپاری یہ دودھ ہوٹلوں‘ چائے خانوں‘ ریستورانوں‘ دودھ دہی کی دکانوں‘ سٹورز‘ مٹھائی اور بسکٹ بنانے والے کارخانوں تک پہنچاتے ہیں‘ یہ دودھ ڈورٹو ڈور بھی پہنچتا ہے‘ یہ جب ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں 20 کیمیکل مل چکے ہوتے ہیں اور یہ صحت کےلئے انتہائی خطرناک ہو چکا ہوتا ہے‘یہ وہ 93فیصد دودھ ہے جو ملک کے زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں‘ ہم اب ٹیٹرا پیک‘ بوتل ‘ لفافوں اور خشک دودھ کی طرف آتے ہیں‘ یہ تینوں بھی انتہائی خطرناک ہیں‘ کیسے؟ آپ صورتحال ملاحظہ کیجئے‘ ٹیٹرا پیک کےلئے دودھ کو 135 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے‘ یہ درجہ حرارت دودھ کی غذائیت ختم کر دیتا ہے‘ یہ
طریقہ کار دودھ کی لائف تو بڑھا دیتا ہے لیکن دودھ اس کے بعد دودھ نہیں رہتا یہ سفید پانی بن جاتا ہے‘ کمپنیاں اسے دوبارہ دودھ کی شکل دینے کےلئے اس میں خشک دودھ‘ پام آئل اور سبزیوں کا تیل ملا دیتی ہیں‘ یہ ملاوٹ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا باعث بنتی ہے‘ دوسرے نمبر پر بوتل اور لفافے کا دودھ آتا ہے‘یہ دودھ 85 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے اور یہ دو سے تین دن تک قابل استعمال ہوتا ہے لیکن کیمیکل‘ پریزرویٹوز اور ہارمون ان میں بھی ہوتے ہیں‘ یہ نہ ہوں تو یہ دودھ پاکستان جیسے گرم ملک میں جلد خراب ہو جائے لہٰذ دودھ فروش گوالے‘ بیوپاری اور کمپنیاں دودھ میں کیمیکل ضرور ڈالتی ہیں‘پیچھے رہ گیا خشک دودھ‘ یہ دودھ انتہائی مضر صحت بھی ہوتا ہے اور یہ دودھ‘ دودھ بھی نہیں ہوتا‘ یہ پاﺅڈر مِلک اور کیمیکلز کا
مرکب ہوتاہے‘ کمپنیاں اس مرکب میں خشک دودھ‘ پام آئل‘ چینی اور چند نامعلوم کیمیکل ملاتی ہیں اور خوبصورت پیکنگ میں مارکیٹ میں بیچ دیتی ہیں‘ یہ دودھ ”ٹی وائیٹنر“ کہلاتا ہے‘ یہ کالی چائے کو سفید بناتا ہے لیکن یہ سفیدی انسانی جسم کے کس کس حصے کو داغدار بناتی ہے‘ آپ تصور نہیں کر سکتے۔
یہ خرابیاں صرف دودھ تک محدود نہیں ہیں‘ یہ بیکری کی مصنوعات‘ مٹھائیوں‘ ٹافیوں اور چاکلیٹ تک جاتی ہےں‘ یہ تمام مصنوعات دودھ سے بنتی ہیں اور ہمارے دودھ میں 20 کیمیکل ہوتے ہیں‘ یہ 20 کیمیکل بیکریوں‘ مٹھائیوں کی دکانوں اور چاکلیٹ فیکٹریوں تک پہنچ کر 40 ہو جاتے ہیں‘ ان میں مصنوعی رنگ‘
مصنوعی خوشبو‘ پلاسٹک‘ دھاتیں اور گندہ پانی بھی شامل ہو جاتا ہے چنانچہ زہر میں زہر مل کریہ بڑا زہر بن جاتا ہے‘ آپ نے کبھی غور کیا‘ آپ ایک برانڈ کا چاکلیٹ دوبئی سے خریدتے ہیں تو یہ پاکستان پہنچتے پہنچتے پگھل جاتا ہے لیکن آپ جب وہ چاکلیٹ پاکستان سے خریدتے ہیں تو وہ دھوپ میں بھی خراب نہیں ہوتا‘آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا دنیا بھر میں چاکلیٹس کو فریج میں رکھا جاتاہے لیکن ہمارے چاکلیٹس ریکس میں ہوتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہمارے چاکلیٹس خالص نہیں ہوتے ‘ ان میں تازہ دودھ کی جگہ سبزیوں کا تیل اور جانوروں کی چربی شامل ہوتی ہے اور یہ وہ فیٹس ہیں جو انسانی جسم کے درجہ حرارت پر نہیں پگھلتے چنانچہ یہ بچوں کو وقت سے پہلے جوان بھی کر دیتے ہیں اور بیمار بھی ۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے‘ ہم دودھ‘ بیکری اور خوراک
کے نام پر زہر کھا رہے ہیں‘ یہ زہر 65 برسوں سے ہماری رگوں میں اتر رہا ہے‘ ہماری تین نسلیں اس زہر کا نشانہ بن چکی ہیں‘ یہ بیرسٹرظفر اللہ کی مہربانی ہے‘ یہ آگے بڑھے اور انہوں نے ایک زہر کی نشاندہی کر دی باقی 40 زہر ابھی تک پوشیدہ ہیں‘ یہ راز بھی جس دن کھلے گا یہ پوری قوم کو سکتے میں لے جائے گا۔
آپ یقین کیجئے ہمارے ملک میں بکریاں‘ مرغیاں اور گدھے ہم انسانوں سے بہتر خوراک کھا رہے ہیں‘یہ خالص چارہ کھاتے ہیں‘ یہ ہم سے زیادہ صحت مند ہیں‘ یہ ہم سے زیادہ فعال ہیںجبکہ ہم گدھوں سے زیادہ گندی اور خوفناک خوراک کھا رہے ہیں‘ میری آپ سے درخواست ہے آپ دودھ دیکھ بھال کر خریدا کریں‘آپ دودھ کا
معائنہ بھی ضرور کروائیں‘ چائے میں خشک دودھ کا استعمال بند کر دیں‘ آپ آئس کریم ‘بیکری آئٹم‘ مٹھائیوں اور چاکلیٹ کا استعمال بھی کم کر دیں‘ آپ گروپس بنائیں‘ یہ گروپس اپنی بھینسوں یا گائےوں کا بندوبست کریں اور دودھ کا انتظام کر لیں‘یہ آپ کا اپنے اور اپنے خاندان پر عظیم احسان ہوگا۔میں دل سے یہ سمجھتا ہوں اگر جسٹس ثاقب نثار اس ملک کے عوام کو خالص دودھ فراہم کر دیتے ہیں‘ یہ اگر یہ آوا ٹھیک کر دیتے ہیں تو یہ دس حکومتوں اور دس عظیم قائدین سے بڑے قائد ثابت ہوں گے‘ قوم کھڑے ہو کر انہیں سیلوٹ کرے گی اور اگر یہ بھی ناکام ہو گئے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے‘ پھرنریندر مودی کو پاکستانیوں کو مارنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ پاکستانی دودھ پی پی کر مرتے چلے جائیں گے ۔
میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دو پاکستانیوں کا مشکور ہوں‘ یہ دونوں 2016ءمیں پوری قوم کے محسن ہیں اور قوم کو کھڑے ہو کر ان کےلئے تالیاں بھی بجانی چاہئیں اور ان کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے‘یہ دونوں پاکستانی کون ہیں؟ پاکستان کے پہلے محسن بیرسٹر ظفراللہ ہیں اور دوسرے چیف جسٹس ثاقب نثار ہیں۔ یہ دونوں قوم کے محسن ہیں‘ کیسے اور کیوں؟ یہ جاننے کےلئے آپ کو چھ ماہ پیچھے جانا ہوگا‘ بیرسٹر ظفر اللہ نے جون 2016ءمیں سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں دودھ سے متعلق پٹیشن دائر کی‘ بیرسٹر صاحب نے اس پٹیشن میں انکشاف کیا
”پاکستان میں جعلی دودھ بک رہا ہے اور لاکھوں لوگ اب تک اس دودھ کی وجہ سے مہلک امراض کا شکار ہو چکے ہیں“چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے 28 جولائی 2016ءکو جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ بنا دیا‘ بینچ نے سماعت شروع کی اور پنجاب فوڈ اتھارٹی سے جواب طلب کر لیا‘ اتھارٹی نے دودھ کے نمونے جمع کرنا شروع کر دیئے‘ دودھ کی پڑتال ہوئی اور نتائج نے سپریم کورٹ سمیت پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘قوم سکتے میں چلی گئی‘ حقائق کیا ہیں؟ آپ بھی جانیے ‘کانوں کو ہاتھ لگائیے اور دودھ پینا چھوڑ دیجئے۔ملک میں دودھ دینے والے 63 لاکھ جانور ہیں‘ یہ جانور سالانہ 35 سے 40 ارب لیٹر دودھ دیتے ہیں‘ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن ہم دنیا میں خراب‘ مضر صحت اور جعلی دودھ بنانے والی سب سے بڑی قوم بھی ہیں‘ کیسے؟ آپ ملاحظہ کیجئے پاکستان میں دودھ کی چار قسمیں دستیاب ہیں‘ پہلی قسم لوز ملک یا گوالوں کا دودھ ہے‘ یہ دودھ کل پیداوار کا 93 فیصد ہے‘ ملک کی اکثریت یہ دودھ استعمال کرتی ہے“ دوسری قسم ٹیٹرا پیک دودھ ہے‘ یہ دودھ گتے کے ایسے ڈبوں میں فروخت ہوتا ہے جن کی اندرونی سائیڈ پر دھات کی باریک تہہ چڑھی ہوتی ہے‘ یہ دودھ دو سے تین ماہ تک قابل استعمال ہوتا ہے‘ تیسری قسم بوتلوں اور پلاسٹک کے لفافوں میں دستیاب دودھ ہے‘ یہ دودھ دو سے تین دن تک استعمال کیا جا سکتا ہے‘ ملک کے لاکھوں شہری یہ دودھ استعمال کرتے ہیں اور چوتھی قسم خشک دودھ ہے‘ یہ دودھ سال چھ مہینے تک استعمال ہو سکتا ہے‘ پاکستان کے کروڑوں شہری یہ دودھ چائے میں استعمال کرتے ہیں‘ مائیں بچوں کو خشک دودھ پلاتی ہیں اور پاکستان کی زیادہ تر بیکریوں اور مٹھائیوں میں بھی یہ خشک دودھ استعمال ہوتا ہے‘ آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے دودھ کی یہ چاروں اقسام مضر صحت اور انسانوں کےلئے انتہائی خطرناک ہیں‘ کیسے؟ آپ مزید حقائق ملاحظہ کیجئے‘ تازہ دودھ زیادہ سے زیادہ دو سے تین گھنٹے محفوظ رہتا ہے‘ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کےلئے دودھ دور دراز علاقوں اور مضافات سے لایا جاتا ہے‘ مثلاً آپ لاہور اور راولپنڈی کی مثال لیجئے‘ لاہور شہر کےلئے اوکاڑہ‘ چشتیاں‘ قصور‘ جھنگ اور وزیر آباد سے دودھ آتا ہے جبکہ راولپنڈی کےلئے جہلم اور سرائے عالمگیر سے دودھ لایا جاتا ہے‘ دودھ کے بیوپاری گوالوں سے دودھ لیتے ہیں‘ چھوٹے بڑے ٹینکرز میں بھرتے ہیں اور یہ دودھ بڑے شہروں کو سپلائی کر دیا جاتا ہے‘
بھینس سے انسانی ہونٹوں تک دودھ میں دو مرتبہ انتہائی خوفناک ملاوٹ ہوتی ہے‘ دودھ میں پہلی ملاوٹ گوالہ کرتا ہے‘ یہ زیادہ اور فوری دودھ حاصل کرنے کےلئے بھینسوں کو ہارمون کے انجیکشن لگاتا ہے‘ یہ انجیکشن خواتین کو ڈلیوری کے دوران لگائے جاتے ہیں اور یہ میڈیکل سٹورز سے عام مل جاتے ہیں‘ یہ سستے بھی ہوتے ہیں‘ یہ انجیکشن جوں ہی بھینس کو لگایا جاتا ہے‘ یہ فوراً دودھ دے دیتی ہے‘ یہ دودھ مقدار میں 20 سے 30 فیصد زیادہ بھی ہوتا ہے‘یہ ہارمون بچوں کی صحت کےلئے نقصان دہ ہیں‘ گوالے چھوٹی مشینوں کی مدد سے دودھ سے کریم نکال لیتے ہیں‘ یہ اس کریم کا مکھن اور دیسی گھی بناتے ہیں اور مارکیٹ میں بیچ
دیتے ہیں‘ دودھ کریم کے بعد پتلا ہو جاتا ہے‘ گوالے پتلے پن کو چھپانے کےلئے دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاﺅڈر (سرف) ڈال دیتے ہیں‘ڈیٹرجنٹ دودھ کو گاڑھا بھی کر دیتا ہے اور یہ اس میں جھاگ بھی پیدا کر دیتا ہے‘ یہ لوگ سرف کی کڑواہٹ ختم کرنے کےلئے دودھ میں بعد ازاں بلیچنگ پاﺅڈر ڈالتے ہیں‘ بلیچنگ پاﺅڈر دودھ کو ذائقے دار بھی بنا دیتا ہے اور اس میں چمک بھی پیدا کر دیتا ہے‘ یہ دودھ گوالوں سے بیوپاریوں کے پاس آتا ہے‘بیوپاری اس میں یوریا کھاد‘ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ‘ بورک پاﺅڈر‘ پنسلین‘ ایلومینیم فاسفیٹ اور فارملین ڈال دیتے ہیں‘ یہ کیمیکل اینٹی بائیوٹک بھی ہیں اور یہ پریزرویٹوز بھی ہیں‘ یہ دودھ کو خراب ہونے سے بچاتے
ہیں‘ بیوپاری یہ دودھ ہوٹلوں‘ چائے خانوں‘ ریستورانوں‘ دودھ دہی کی دکانوں‘ سٹورز‘ مٹھائی اور بسکٹ بنانے والے کارخانوں تک پہنچاتے ہیں‘ یہ دودھ ڈورٹو ڈور بھی پہنچتا ہے‘ یہ جب ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں 20 کیمیکل مل چکے ہوتے ہیں اور یہ صحت کےلئے انتہائی خطرناک ہو چکا ہوتا ہے‘یہ وہ 93فیصد دودھ ہے جو ملک کے زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں‘ ہم اب ٹیٹرا پیک‘ بوتل ‘ لفافوں اور خشک دودھ کی طرف آتے ہیں‘ یہ تینوں بھی انتہائی خطرناک ہیں‘ کیسے؟ آپ صورتحال ملاحظہ کیجئے‘ ٹیٹرا پیک کےلئے دودھ کو 135 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے‘ یہ درجہ حرارت دودھ کی غذائیت ختم کر دیتا ہے‘ یہ
طریقہ کار دودھ کی لائف تو بڑھا دیتا ہے لیکن دودھ اس کے بعد دودھ نہیں رہتا یہ سفید پانی بن جاتا ہے‘ کمپنیاں اسے دوبارہ دودھ کی شکل دینے کےلئے اس میں خشک دودھ‘ پام آئل اور سبزیوں کا تیل ملا دیتی ہیں‘ یہ ملاوٹ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا باعث بنتی ہے‘ دوسرے نمبر پر بوتل اور لفافے کا دودھ آتا ہے‘یہ دودھ 85 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے اور یہ دو سے تین دن تک قابل استعمال ہوتا ہے لیکن کیمیکل‘ پریزرویٹوز اور ہارمون ان میں بھی ہوتے ہیں‘ یہ نہ ہوں تو یہ دودھ پاکستان جیسے گرم ملک میں جلد خراب ہو جائے لہٰذ دودھ فروش گوالے‘ بیوپاری اور کمپنیاں دودھ میں کیمیکل ضرور ڈالتی ہیں‘پیچھے رہ گیا خشک دودھ‘ یہ دودھ انتہائی مضر صحت بھی ہوتا ہے اور یہ دودھ‘ دودھ بھی نہیں ہوتا‘ یہ پاﺅڈر مِلک اور کیمیکلز کا
مرکب ہوتاہے‘ کمپنیاں اس مرکب میں خشک دودھ‘ پام آئل‘ چینی اور چند نامعلوم کیمیکل ملاتی ہیں اور خوبصورت پیکنگ میں مارکیٹ میں بیچ دیتی ہیں‘ یہ دودھ ”ٹی وائیٹنر“ کہلاتا ہے‘ یہ کالی چائے کو سفید بناتا ہے لیکن یہ سفیدی انسانی جسم کے کس کس حصے کو داغدار بناتی ہے‘ آپ تصور نہیں کر سکتے۔
یہ خرابیاں صرف دودھ تک محدود نہیں ہیں‘ یہ بیکری کی مصنوعات‘ مٹھائیوں‘ ٹافیوں اور چاکلیٹ تک جاتی ہےں‘ یہ تمام مصنوعات دودھ سے بنتی ہیں اور ہمارے دودھ میں 20 کیمیکل ہوتے ہیں‘ یہ 20 کیمیکل بیکریوں‘ مٹھائیوں کی دکانوں اور چاکلیٹ فیکٹریوں تک پہنچ کر 40 ہو جاتے ہیں‘ ان میں مصنوعی رنگ‘
مصنوعی خوشبو‘ پلاسٹک‘ دھاتیں اور گندہ پانی بھی شامل ہو جاتا ہے چنانچہ زہر میں زہر مل کریہ بڑا زہر بن جاتا ہے‘ آپ نے کبھی غور کیا‘ آپ ایک برانڈ کا چاکلیٹ دوبئی سے خریدتے ہیں تو یہ پاکستان پہنچتے پہنچتے پگھل جاتا ہے لیکن آپ جب وہ چاکلیٹ پاکستان سے خریدتے ہیں تو وہ دھوپ میں بھی خراب نہیں ہوتا‘آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا دنیا بھر میں چاکلیٹس کو فریج میں رکھا جاتاہے لیکن ہمارے چاکلیٹس ریکس میں ہوتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہمارے چاکلیٹس خالص نہیں ہوتے ‘ ان میں تازہ دودھ کی جگہ سبزیوں کا تیل اور جانوروں کی چربی شامل ہوتی ہے اور یہ وہ فیٹس ہیں جو انسانی جسم کے درجہ حرارت پر نہیں پگھلتے چنانچہ یہ بچوں کو وقت سے پہلے جوان بھی کر دیتے ہیں اور بیمار بھی ۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے‘ ہم دودھ‘ بیکری اور خوراک
کے نام پر زہر کھا رہے ہیں‘ یہ زہر 65 برسوں سے ہماری رگوں میں اتر رہا ہے‘ ہماری تین نسلیں اس زہر کا نشانہ بن چکی ہیں‘ یہ بیرسٹرظفر اللہ کی مہربانی ہے‘ یہ آگے بڑھے اور انہوں نے ایک زہر کی نشاندہی کر دی باقی 40 زہر ابھی تک پوشیدہ ہیں‘ یہ راز بھی جس دن کھلے گا یہ پوری قوم کو سکتے میں لے جائے گا۔
آپ یقین کیجئے ہمارے ملک میں بکریاں‘ مرغیاں اور گدھے ہم انسانوں سے بہتر خوراک کھا رہے ہیں‘یہ خالص چارہ کھاتے ہیں‘ یہ ہم سے زیادہ صحت مند ہیں‘ یہ ہم سے زیادہ فعال ہیںجبکہ ہم گدھوں سے زیادہ گندی اور خوفناک خوراک کھا رہے ہیں‘ میری آپ سے درخواست ہے آپ دودھ دیکھ بھال کر خریدا کریں‘آپ دودھ کا
معائنہ بھی ضرور کروائیں‘ چائے میں خشک دودھ کا استعمال بند کر دیں‘ آپ آئس کریم ‘بیکری آئٹم‘ مٹھائیوں اور چاکلیٹ کا استعمال بھی کم کر دیں‘ آپ گروپس بنائیں‘ یہ گروپس اپنی بھینسوں یا گائےوں کا بندوبست کریں اور دودھ کا انتظام کر لیں‘یہ آپ کا اپنے اور اپنے خاندان پر عظیم احسان ہوگا۔میں دل سے یہ سمجھتا ہوں اگر جسٹس ثاقب نثار اس ملک کے عوام کو خالص دودھ فراہم کر دیتے ہیں‘ یہ اگر یہ آوا ٹھیک کر دیتے ہیں تو یہ دس حکومتوں اور دس عظیم قائدین سے بڑے قائد ثابت ہوں گے‘ قوم کھڑے ہو کر انہیں سیلوٹ کرے گی اور اگر یہ بھی ناکام ہو گئے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے‘ پھرنریندر مودی کو پاکستانیوں کو مارنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ پاکستانی دودھ پی پی کر مرتے چلے جائیں گے ۔