دورہ نیویارک اور ۔۔۔۔۔۔۔

راشد احمد

محفلین
طیبہ ضیاء چیمہ

ایک امریکی خاتون ماہر نفسیات کے پاس گئی اور اپنی ذہنی حالت بیان کرتے کہا کہ میں ہر غلطی اور گناہ کا مورد الزام خود کو ٹھہراتی ہوں۔ اپنے تمام مسائل کا ذمہ دارہ خود کو سمجھتی ہوں۔ میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ ماہر نفسیات نے کہا کہ تم خود کو مجرم سمجھنا چھوڑ دو گی تو تمہاری پریشانی ختم ہو جائیگی۔ خاتون بولی کہ پھر میں کس کو لعن طعن کروں، کس پر اپنا غصہ اتاروں؟ ماہر نفسیات نے مشورہ دیا کہ ’’تم شیطان کو Curse کیا کرو۔ گاڈ نے شیطان پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ اسکے بندے اپنے تمام جرائم اور گناہوں کا ذمہ دار شیطان کو ٹھہرائیں‘‘۔ پاکستانیوں کا بھی یہی حال ہے۔ امریکہ نہ ہوتا تو اپنے مسائل اور محرومیوں کا ذمہ دار کس کو ٹھہراتے؟ علماء کرام، مذہبی، سماجی اور سیاسی تنظیمیں اپنی کمزوریوں کا مورد الزام کس کو ٹھہراتیں۔ امریکہ جسے شیطان بھی بولا جاتا ہے اس پرلعن طعن اور بددعائوں سے پاکستانی اپنا غم و غصہ ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔ امریکہ نہ ہوتا تو حکمران دوروں کو جواز بنا کر عیاشی کیلئے کہاں جاتے؟ امریکہ نہ ہوتا تو اقتدار کیلئے کس کا دروازہ کھٹکاتے؟ جرنیلوں کا کیا بنتا؟ امریکہ نہ ہوتا تو ابلیس کا کاروبار بھی ٹھپ ہو جاتا۔ پاکستانیوں کی تسلی کیلئے ابلیس کبھی امریکہ بن جاتا ہے کبھی بھارت، کبھی روس، کبھی اسرائیل اور کبھی حامد کرزئی کا روپ دھار لیتا ہے۔

ایک پاکستانی حج کو گیا‘ وہاں سے پلٹا تو افسردہ تھا‘ کہنے لگا کہ جب شیطان کو کنکریاں مارنے گیا تو اپنے تما م گناہ، جرائم اور کمزوریاں میرے سامنے آکھڑی ہوئیںکہ اتنی مسافت اور تھکاوٹ کی کیا ضرورت تھی یہ کام تم گھر بیٹھے بھی کر سکتے تھے۔ شیطان تیرے اندر ہے باہر نہیں، اپنے وجود کو کنکریوں سے لہو لہان کر لیا کرو، گھر بیٹھے تمہارا حج ہو جائیگا۔ لوگ شیطان کے سامنے کھڑے ہو کر بھی امریکہ کو بددعائیں دے رہے ہوتے ہیں۔ امریکہ کتنا خوش نصیب ہے کہ لوگ اسے اللہ کے گھر جا کر بھی یاد کرتے ہیں بالخصوص مذہنی پیشواء اور سیاسی جماعتوں کی زندگی کا آسر ہی امریکہ کو لعن طعن کرنا ہے جبکہ صاحب اقتدار ’’امریکہ امریکہ‘‘ کی تسبیح جپتے ہیں۔ صدر زرداری نے بھی دورہ امریکہ کے دوران پاکستانیوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ ہمارا ہمدرد ہے۔ ہمارا دوست ہے۔ ہمارا خیر خواہ ہے۔ اسکے ساتھ نبھا کر رکھنا ہے تو اسے Curse کرنا چھوڑ دو۔

امریکہ کو شیطان سمجھنا اور لعن طعن کرنا حکمرانوں کا نہیں ہمیشہ اپوزیشن کا مرض رہا ہے۔ نواز لیگ کا مسئلہ وکھری ٹائپ کا ہے۔ انہیںابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ امریکہ اور حکومتی پارٹی میں بڑا شیطان کون ہے۔ اس تذبذب کا شکار وہ کبھی اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور کبھی حکومت کیساتھ۔ امریکہ میں کارکنان کو بھی یہی حکم ہے کہ بحیثیت اپوزیشن پی پی کیساتھ فاصلہ رکھیں لیکن اسکے خلاف مظاہروں میں شرکت سے بھی گریز کریں۔

واشنگٹن کے بعد نیویارک میں صدر زرداری کیلئے استقبالیہ دیا گیا۔ پاکستان سفارتخانہ کی جانب سے واشنگٹن میں دیئے گئے عشایہ میں قریبََا دو ہزار پاکستانی مدعو تھے جس پر پانچ لاکھ ڈالر کا خرچہ ہوا۔ یہ سارا پیسہ عوام کا ہے جسے امریکہ میں عیاشیوں اور تقریبات پر لٹایا جاتا ہے‘ سترہ کروڑ عوام بجلی کو ترس رہے ہیں‘ دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہے‘ لاکھوں بھوکے مر رہے ہیں جبکہ پاکستان کا دوسرا امیر ترین شخص انکا صدر ہے اور اسے رومال بھی خریدنا ہو تو سرکار کے خزانے سے خریدتا ہے۔ صدر زرداری کو ’’مشکوک دورہ نیویارک‘‘ میں بھی پاکستانی سفارتخانہ کی جانب سے استقبالیہ دیا گیا جسے پیپلز پارٹی کا شو کہنا زیادہ مناسب ہو گا جو کہ جیالوں کی بدتمیزی اور بدنظمی کی نظر ہو گیا۔ ہوٹل کے ہال میں موجود چار سو بندوں نے تماشہ دیکھا۔ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی مہذب نہ بن سکے۔ صدر اوبامہ اپنے نائب صدر کے ساتھ ڈی سی کے ریستوران میں اچانک پہنچ گئے۔ عام شہری کی طرح قطار میں کھڑے ہو کر برگر کا آرڈر دیا۔ گورے اپنے لیڈر کو اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہوگئے لیکن نظم و ضبط نہیں توڑا۔ کسی نے آگے بڑھ کر اوبامہ سے ہاتھ نہیں ملایا‘ ہنگامہ ہوا نہ ہلڑ بازی ہوئی‘ جذبات بے قابو ہوئے اور نہ ہی نعرے بازی ہوئی‘ ڈسپلن قائم رہا جبکہ پاکستان کا صدر اپنی ہی پارٹی کے دنگا فساد سے خوفزدہ سٹیج چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ ہم گوروں کو لعن طعن کرتے ہیں اور یہ ہم پر ہنستے ہیں۔ صدر پاکستان کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب میں قومی ترانہ بجا اور نہ ہی بابائے قوم کی تصویر وہاں موجود تھی۔ پی پی کی تقریبات میں جئے بھٹو کے نعرے ہی اول و آخر رہے۔ تقریب میں مسلم لیگ نے بھی شرکت کی البتہ یہ مظاہرے میں شامل نہیں ہوئے۔ ہوٹل کے باہر امریکی پالیسی، ڈرونز حملے، کراچی میں بارہ مئی کا واقعہ، پشتونوں کا واقعہ، سوات کے حالات، بلوچستان کی صورتحال کیلئے مظاہرہ بھی ہوا جسکی کوریج نہیں ہوئی‘ نیویارک میں سرکاری وفد کی رنگ رلیاں لوکل صحافیوں سے ڈھکی چھپی نہیں ہوتیں اور نہ ہی اسے ’’ذاتی فعل‘‘ کہہ کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ اسلامی مملکت پاکستان کے نمائندے ہیں۔ ایک باریش وفاقی وزیر کی نیویارک کے نامور علاقے فاٹی سیکنڈ سٹریٹ کی ایک معروف بار میں ایک گورے کیساتھ تلخ کلامی ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ بات بڑھتی میزبان دوست ’’عوام کے خادم‘‘ کو بار سے نکال کر لے گئے۔ وزیر نے خبر کی تردید کرنا چاہی تو مخبروں نے لائٹ برائوں رنگ کی جیپ پلیٹ نمبر 08268MS جس میں وزیر صاحب بار سوار تھے کی معلومات پیش کیں تو تردید سناٹے میں تبدیل ہو گئی۔ عوام کے خادم جب فاٹی سیکنڈ سٹریٹ کی چکا چوند روشنیوں میں غرق ہوتے ہیں تو وطن کے اندھیروں کو بھول جاتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کا نیویارک کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کے اپارٹمنٹ 1455 میں پانچ روز قیام رہا۔ ملاقاتوں اور سرگرمیوں کو میڈیا سے مخفی رکھا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی طاقتوں نے اپنی عورتوں اور پالیسیوں کو آلہ کار بنا کر مسلمان حکمرانوں کو نقصان پہنچایا اور انکے ملک و قوم کو بدنام کیا۔ سکیورٹی والوں نے مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والی تین لڑکیوں کو اپارٹمنٹ میں جانے سے روکا لیکن حسین حقانی کے کہنے پر انہیں بلا پوچھ گچھ آنے جانے کا اجازت نامہ بھی بنوا دیا۔ عام انسان ذاتی زندگی کے قول و فعل ذمہ دار خود ہے لیکن ایک حساس اور ذمہ دار عہدہ پر فائز شخصیت اپنے لوگوں کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہونا چاہئے۔ وہ اپنے عوام کو جوابدہ ہے۔ اسکے کردار، افعال، معاملات ذاتی نہیں بلکہ سترہ کرور عوام کیساتھ منسلک ہیں۔ سرکار کا 5 روزہ دورہ واشنگٹن 9 دن تک جاری رہا جبکہ پاکستان میں گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ عوام کی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے ’’آر یا پار‘‘ ’’اب نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ لاکھوں انسان بے گھر ہیں اور حکمران گھر سے باہر ہے؟ ملک کے سنگین حالات میں سرکاری وفد کا دورہ امریکہ اور ’’نجی مصروفیات‘‘ پر پاکستانی کمیونٹی ناخوش ہے۔ امریکی میڈیا بھی طنز کر رہا ہے۔ امریکی چینل کے مشہور مزاحیہ شو کے میزبان Jon Stewart, نے صدر زرداری کے سی این این چینل میں دیئے جانیوالے انٹرویو کو تضحیک کا نشانہ بناتے اور اسکی چند جھلکیاں دکھاتے ہوئے کہا کہ اس وقت جبکہ پاکستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ طالبان اسلام آباد سے ساٹھ کلو میٹر دور ہیں، پاکستانی صدر امریکہ آیا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ اسکے ملک کو طالبان سے کوئی خطرہ نہیں ہے جبکہ ہم سے امداد کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ صدر کے دورہ امریکہ کے بارے میں لکھنے اور بولنے کو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن…

حوالہ روزنامہ نوائے وقت
 

خرم

محفلین
میں تو حیران ہوں کہ نواز لیگ کے خلاف نوائے وقت نے یہ اداریہ چھاپ کیسے دیا؟ ویسے زرداری کی امریکہ آمد کسی قومی مفاد کے لئے تو تھی ہی نہیں سو اس پر بات کرنا بھی فضول ہے۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کا نیویارک کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کے اپارٹمنٹ 1455 میں پانچ روز قیام رہا۔ ملاقاتوں اور سرگرمیوں کو میڈیا سے مخفی رکھا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی طاقتوں نے اپنی عورتوں اور پالیسیوں کو آلہ کار بنا کر مسلمان حکمرانوں کو نقصان پہنچایا اور انکے ملک و قوم کو بدنام کیا۔ سکیورٹی والوں نے مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والی تین لڑکیوں کو اپارٹمنٹ میں جانے سے روکا لیکن حسین حقانی کے کہنے پر انہیں بلا پوچھ گچھ آنے جانے کا اجازت نامہ بھی بنوا دیا۔ عام انسان ذاتی زندگی کے قول و فعل ذمہ دار خود ہے لیکن ایک حساس اور ذمہ دار عہدہ پر فائز شخصیت اپنے لوگوں کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہونا چاہئے۔ وہ اپنے عوام کو جوابدہ ہے۔ اسکے کردار، افعال، معاملات ذاتی نہیں بلکہ سترہ کرور عوام کیساتھ منسلک ہیں۔

یہ ایک انتہائی سنگین الزام ہے۔ اور اگر اس الزام میں تھوڑی سی بھی سچائی ہے، اور اس کے باوجود یہ شخص صدارت کی کرسی پر برجمان رہا تو پھر واقعی بحیثت ایک قوم کے ہماری موت واقع ہوچکی ہے۔
 

arifkarim

معطل
یہ ایک انتہائی سنگین الزام ہے۔ اور اگر اس الزام میں تھوڑی سی بھی سچائی ہے، اور اس کے باوجود یہ شخص صدارت کی کرسی پر برجمان رہا تو پھر واقعی بحیثت ایک قوم کے ہماری موت واقع ہوچکی ہے۔

بھائی جب یہ سیاسی نظام ہی بیکار ہے تو چاہے زرداری صدارت پر بیٹھے یا کوئی اور کرپٹ بیٹھ جائے کیا فرق پڑتا ہے؟
 

راشد احمد

محفلین
امریکی یہودن اور بے وطن پاکستانی عورتیں
ڈاکٹر اجمل نیازی

پاکستان میں امتحان ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ ہم لوگ ہر امتحان میں فیل ہو ہو کے تنگ آگئے ہیں۔ پھر بھی امتحان ہو رہا ہے۔ نالائق لوگوں کیلئے امتحان بحران ہوتا ہے۔ سوات ‘بونیر وغیرہ سے لاکھوں مرد عورتیں بوڑھے اور بچے نقل مکانی کرکے آ رہے ہیں محفوظ جگہوں کی تلاش میں‘ اور محفوظ جگہ کہیں نہیں۔ پہلے دل ایک محفوظ جگہ ہوتا تھا۔ اب وہاں بھی ایک خوف و ہراس کا ڈیرہ ہے۔اور ایسے میں ہماری حکومت کے بیشتر لوگ ملک سے باہر ہیں۔ شاید محفوظ جگہ ان کیلئے ملک سے باہر ہے۔ ہمارے لئے تو وہاں بھی نہیں ہے۔ وہاں تو یہاں سے زیادہ ذلت اور اذیت ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے خیال میں باہر سے مراد امریکہ‘ یورپ اور ان کے غلام ملک ہیں۔ ہمارا ملک ان کا بہت غلام ہے مگر یہ محفوظ نہیں ہے اور یہاں آرام نہیں۔صدر زرداری پانچ دن کے دورے پر امریکہ گئے تھے اور اب نو دس دن ہوگئے ہیں۔ وہ امریکہ جاتے جاتے کئی ملکوں سے ہو کے گئے ہیں۔ دبئی تو خیر ان کا سسرال ہے۔ وہ امریکہ کوبھی اپنا سسرال سمجھتے ہیں۔ اب پاکستان بھی ان کا سسرال ہے۔ بے نظیر بھٹو کی زندگی اور موت زرداری کیلئے واقعی زر و مال اور تخت و تاج کا حوالہ بن گئے ہیں۔ باقی سب کچھ ملک و قوم اور عزت و وقار اللہ کے حوالے ہوگیا ہے۔غمگساری اور سرشاری میں فرق نہیں رہا۔
نوازشریف دبئی میں ہیں۔ ان کے پیچھے سلمان تاثیر بھی گئے ہیں۔ یہ وقت کوئی گھر سے باہر جانے کا ہے۔ نوازشریف پہلے مردان گئے۔ نقل مکانی کرنے والوں کو دلاسہ دینے۔ حنیف عباسی کو بھی ساتھ لے گئے۔ انہوں نے لٹے پٹے تھکے ٹٹے بے خانماں لوگوں کیلئے کچھ نہ کچھ کیا ہے۔ حنیف عباسی دل والا آدمی ہے یہاں اپنا نمائندہ نوازشریف نے ٹھیک بنایا ہے ورنہ وہ یہاں بھی چوہدری نثار کو کچھ بنا دیتے تو جاوید ہاشمی کیاکر لیتے۔ کلثوم نواز بھی گئیں‘ اچھا کیا۔ وہ اس عورت کو ملی ہوںگی جو 35 میل اپنی جوان بیٹی کے ساتھ پیدل چل کے کہیں پہنچی نجانے کہاں پہنچی۔ نہ پینے کا پانی نہ کوئی چھت نہ خوراک۔ مگر کلثوم نواز سے مل کر ہجر اورہجرت کی ماری عورتوں کی تھکن میں لگن پیدا ہوئی ہوگی۔ یہاں سے جدہ کی طرف راستہ ابھی نہیں جاتا اسلام آباد کی طرف جاتا ہے اور رائے ونڈ ’’شریف‘‘ لاہور میں ہے لاہور اپنے بھائی بہنوں کی دلجوئی کیلئے پوری طرح موجود ہے۔ نوازشریف نے اچھا کیا وہاں سے چلے گئے اگر وہ وہاں رہتے تو بھی اچھا کرتے مگر وہ دبئی چلے گئے۔ دبئی کے شیخ محمد کے بیٹے کی شادی میں سلمان تاثیر اور نوازشریف ایک دوسرے سے ملیں گے۔ ان کے بغیر یہ شادی نہ ہوتی کیا؟ وہ دولہا میاں کوشاید خاص پیغام اور ہدایات دینے آئے ہونگے۔ میڈیا میں سلمان تاثیر اورنوازشریف کی گپ شپ خاص موضوع ہوگا۔
شہباز شریف ایران چلے گئے۔ شعیب بن عزیز ان کے ساتھ ہے۔ ایران تو صدر زرداری بھی جا چکے ہیں اور رحمان ملک بھی۔ ان کے ادھورے کام کو مکمل کرنے گئے ہونگے۔ مگر شہبازشریف کو کیا پتہ کہ ان کا کیا کام تھا۔ انہوں نے ایران‘ پاکستان میں تجارت کی سانجھ کی بات کی۔ حنیف عباسی نے بتایا کہ وہ ایران سے سیدھے اسلام آباد آئیں گے اورمردان جائیں گے۔ ایران کچھ دنوںکے بعد بھی جایا جاسکتا تھا‘ دورہ منسوخ کیا جاسکتا تھا مگر صدر زرداری نے دورہ مختصر بھی نہیں کیا۔ پاکستان میں انسان تڑپ رہے ہیں اور امریکہ میں حکمران بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ واشنگٹن کا دورہ تھا پانچ دنوں کا تو پھر نیویارک میں مزید چھ دن گزارنے کی کیا ضرورت تھی۔ غریب لوگ تو سمجھتے ہیں کہ دل کا دورہ ہوتا ہے یا مرگی کا دورہ ہوتا ہے۔ واشنگٹن کے بعد نیویارک کا دورہ کیا ہے؟یہاں کسی نے کچھ نہیں کیا۔پھر نجانے وہ کیا کرتے رہے۔ کچھ تو کرتے رہے ہونگے۔ نوائے وقت کی کالم نگار طیبہ ضیاء نے لکھا ہے کہ نیویارک میں صدر زرداری کے آنے سے پہلے تین امریکن لڑکیاں بلکہ گوریاں اس ہوٹل میں پہنچ گئی تھیں۔ انہیں روکا گیا تو حسین حقانی نے انہیں اگلے دنوں کیلئے بھی کسی روک ٹوک سے آزاد کرا لیا۔ طیبہ ضیاء تو امریکہ میں ہیں اور ہمیں پاکستان میں پتہ چل گیا ہے کہ تین لڑکیوں میں سے ایک یہودن تھی۔ اس کا نام مشکل سا ہے۔ صدر کلنٹن کی محبوبہ کی طرح شاید مس ڈوبنسکی۔ اس کا دادا پولینڈ سے 30 سال پہلے امریکہ آیاتھا وہ زرداری صاحب سے امریکہ میں بہت پہلے ملی تھی یہ دوستی بے نظیر بھٹو کی زندگی میں تھی۔ وہ وزیراعظم ہائوس آتی تھی۔ جیل میں بھی آتی رہی بی بی کے بعد ایوان صدر میں فرح ناز اصفہانی کی میزبانی سے لطف اٹھاتی رہتی ہے۔ وہ امریکہ میں بھی اس کی مہربانی سے فرحت پاتی رہی ہے۔
حسین حقانی رحمان ملک اور خالدشہنشاہ‘ امریکہ میں زرداری صاحب کے بہت ساتھ ہوتے تھے خالد شہنشاہ ان کا ڈرائیور ہوا کرتا تھا جس طرح مصطفی کھر بھٹو صاحب کا ڈرائیور ہوا کرتا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ڈرائیور اعتزاز احسن تھا۔ اور بھی ڈرائیور ہونگے مگر اس موقع پر یہی دو یاد آرہے ہیں۔خالد شہنشاہ بی بی کا اور امریکن یہودی لڑکی کا بھی ڈرائیور تھا۔ اس کا افسوس بھی یہودن نے صدر زرداری کے ساتھ کیا۔ اس کے قتل کا کچھ پتہ نہیں چلا جس طرح بے نظیر بھٹو کے قتل کا پتہ نہیں چلا۔ اس کیلئے تو اقوام متحدہ سے تحقیقات کا بہانہ نہیں کیا گیا۔ صدر زرداری بی بی کی طرح خالد شہنشاہ کے قاتلوں کو بھی جانتا ہوگا۔پاکستان میں خوراک کا بحران بھی انتہا کا ہے نقل مکانی کرنے والے روٹی کے لقمے کو ترس گئے ہیں اور ہمارا وزیر خوراک نذر محمد گوندل نیویارک میں سیرسپاٹا کرتا پھرتا رہا۔ سیر کیلئے امریکہ کی سب سے قیمتی گاڑی لیموزین کرائے پر حاصل کی جس کا فی گھنٹہ کرایہ چار سو ڈالر ہے۔ اس گاڑی میں میکدے کے علاوہ بھی کئی ’’کدے‘‘ ہوتے ہیں۔صدر زرداری نے بھی اپنے پسندیدہ مقامات کی سیر کی۔ پسندیدہ مقامات تو سوات وغیرہ کی طرف بھی بہت ہیں۔ وہاں گئے ہونگے اب بھی جائیں اور نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے پاس بھی جائیں مگر دل کہتا ہے کہ وہ نہیں جائیں گے۔ابھی وزیراعظم بھی نہیں گئے۔ وہ صدر زرداری کو ساتھ لے جائیں اس بات کا غصہ نہ کریں کہ وہ انہیں امریکہ نہیں لے گئے۔ قائم مقام صدر فہمیدہ مرزا جا رہی ہیں۔ یاسمین رحمان کے بقول ایجنسیوں نے انہیں منع کیا ہے۔ ہماری ایجنسیاں حکمرانوں کی دشمن کیوں ہیں۔ حکمران ان سے پوچھتے کیوں ہیں۔ فاروق نائیک بیرون ملک ہیں۔ ایسے موقعوں پر وہ بیرون ملک ہوں تو اچھا لگتا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا قائم مقام صدر ہوتی ہیں۔ وہ اس سے تو بہتر ہیں۔!

حوالہ روزنامہ نوائے وقت
 
کیا زرداری کیا نواز کیا کیانی
یہ بے غیرت لوگ ملک کو کھا گئے
ہزاروں‌لوگوں‌کا لہو ان کے منہ پر ہے اور لاکھوں‌معصوموں‌کی بدعائیں
خدا غارت کرے ان لوگوں کو جو گھروں کو اجاڑ رہے ہیں
 

غازی عثمان

محفلین
کیا زرداری کیا نواز کیا کیانی
یہ بے غیرت لوگ ملک کو کھا گئے
ہزاروں‌لوگوں‌کا لہو ان کے منہ پر ہے اور لاکھوں‌معصوموں‌کی بدعائیں
خدا غارت کرے ان لوگوں کو جو گھروں کو اجاڑ رہے ہیں

ہمت بھائی آپ اور زرداری کے خلاف کیا آج سورج ملائشیا سے نکلا ہے
 

خرم

محفلین
زرداری کا نام تو شائد ہمت بھیا نے صرف کیانی اور نواز شریف کو برا بھلا کہنے کی غرض سے لیا ہے۔ اب انکی صلوٰتوں پر جانبداری کی تہمت نہیں لگے گی نا :battingeyelashes:
ویسے امریکہ کا کوئی غلام نہیں ہے۔ جو بھی ہے اپنی ہوس کا غلام ہے۔
 
Top