نبیل
تکنیکی معاون
عمران خان کو سرسید سے تشبیہ دینے پر کچھ لوگ یقیناً چونک اٹھیں گے لیکن مجھے پاکستان سے ملنے والی ایک خبر نے اس superlative کا استعمال کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور یہ خبر میانوالی میں نمل کالج کے افتتاح کی خبر ہے۔ وطن عزیز، جہاں سے کوئی اچھی خبر سنے ہوئے مدت ہو گئی ہے، یکایک اس عظیم کارنامے کی خبر پر بلاشبہ میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے تھے۔ اب بھی الفاظ میرے جذبات کا ساتھ نہیں دے پا رہے ہیں۔ مجھے عمران خان کے پرانے انٹرویوز سے اس کے تعلیمی میدان میں کچھ کام کرنے کے ارادے کا علم ضرور تھا لیکن مجھے اس چیز کی خبر نہیں تھی کہ عمران خان صرف باتیں ہی نہیں کر رہا بلکہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ بھی پہنا رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر قوم کے اس عظیم سپوت نے تمام رکاوٹوں اور مخالفتوں کو زیر کرکے ایک شاندار منصوبے کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ میری نظر میں تعلیمی اداروں کا قیام قوم کی نسلوں پر احسان کے مترادف ہوتا ہے اور میانوالی کے ایک پسماندہ علاقے میں ایک عالمی معیار کی یونیورسٹی کے قیام سے حاصل ہونے والے ثمرات کا ادراک کچھ مدت گزرنے کے بعد ہی ہوگا۔
شاید کچھ لوگ یہ نہ جانتے ہوں کہ عمران خان کو ایک اور منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بھی ہے۔ اور بریڈ فورڈ یونیورسٹی ہی نمل کالج کے نصاب کی تیاری اور اس کے معیار کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہوگی۔ عمران خان کا ویژن یہ ہے کہ نمل کالج میں آکسفورڈ سے مماثلت رکھتا ہوا تعلیم اور تحقیق کا ماحول فراہم کیا جائے۔ نمل کالج کی فیکلٹی میں آغاز میں جن انجینیرنگ کے مضامین کی تعلیم دی جائے گی ان میں الیکٹریکل انجینیرنگ، آٹو موٹو انجینیرنگ، زرعی انجینیرنگ، کنسٹرکشن اور سیمنٹ انڈسٹری ورک شامل ہیں۔ مجھے نمل کالج کے ایجنڈے میں ایک اور چیز متاثر کن لگی ہے کہ اس میں مقامی سکولوں اور ان کے اساتذہ کے معیار کو بہتر بنانے کا پروگرام بھی شامل ہے۔ اس پروگرام کے مطابق میانوالی کے سکولوں کے اساتذہ کی قابلیت کو بہتر بنانے کے لیے انہیں ٹریننگ دی جائے گی اور وہاں کے طلبا و طالبات کا معیار بہتر بنانے کے لیے انہیں انگریزی اور ریاضی کے مضامین پڑھائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سکولوں کے نصاب اور ان کی لیبارٹریز کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دی جائے گی۔ اس کام کے لیے ان لوکل پارٹنرز کا تعاون حاصل کیا جائے گا جو علاقے میں معیاری تعلیم فراہم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس طرح نمل کالج علاقے میں اعلی تعلیم کا کوئی الگ تھلگ جزیرہ نہیں بنے گا بلکہ اس کے ثمرات پورے علاقے تک پھیلیں گے۔
شوکت خانم میموریل ہسپتال کی طرح نمل کالج کو چلانے کے لیے بھی کروڑوں بلکہ شاید اربوں روپے درکار ہوں گے۔ یہ رقم بھی عوام اور حکومت کے تعاون سے ہی اکٹھی ہو سکتی ہے۔ نمل کالج کے افتتاح کے موقع پر اگرچہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے نمل کالج کے لیے گرانٹ کا اعلان کیا لیکن اس موقع پر پنجاب حکومت کا رویہ قدرے مایوس کن تھا۔ مجھے اس موقعے پر پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کا رویہ بھی شرمناک لگا ہے۔ جہاں ہر چینل پر معمولی سے واقعے کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کیا جاتا ہے، وہاں نمل کالج کے افتتاح جیسے تاریخ ساز لمحات کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا۔ میڈیا کا یہ رویہ ہماری قوم کے مجموعی علم دشمن رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ نمل کالج کی تعمیر کے دوران بھی اس بات پر علاقے میں کشیدگی پھیلی رہی ہے کہ یہ کالج نیازیوں کی بجائے اعوانوں کے علاقے میں کیوں بنایا جا رہا ہے۔ اگر اس کالج کی تعمیر کسی عالمی ادارے کے ہاتھ میں ہوتی تو یہ پاکستان میں کبھی بھی نہ بن پاتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کسی زمانے میں ورلڈ بینک نے بلوچستان میں زرعی یونیورسٹی کے قیام کے لیے کئی سو ملین روپے کی امداد کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد بلوچستان میں ایک طویل عرصے تک پشتونوں اور بلوچوں میں اس ضد پر فسادات ہوتے رہے کہ یہ یونیورسٹی ان کے علاقے میں بننی چاہیے۔ مجبوراً ورلڈ بینک کو اپنی امداد واپس لینی پڑی۔ اس سے ملتی جلتی داستانیں پاکستان کے اعلی تعلیمی اداروں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر کسی ایک یونیورسٹی کو سینٹر آف ایکسیلینس قائم کرنے کے لیے گرانٹ ملنے کا امکان پیدا ہو جائے تو باقی یونیورسٹیاں اس میں سے حصہ لینے کے لیے بضد ہو جاتی ہیں۔
عمران خان کے ناکام سیاستدان ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ وہ غالباً عوامی سیاست میں کبھی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا۔ لیکن ملک وقوم کے لیے اس کی خدمات ہمیشہ اس کا نام روشن کیے رکھیں گی۔ عمران خان نے نمل کالج کے پراجیکٹ میں بھی رزاق داؤد کا تعاون حاصل کیا ہے۔ رزاق داؤد اور بابر علی جیسے لوگ نام و نمود کی پرواہ کیے بغیر معاشرے کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ یہ رزاق داؤد اور بابر علی ہی تھے جنہوں نے لاہور میں عالمی معیار کی منیجمنٹ سائنسز کی یونیورسٹی لمز کی بنیاد رکھی۔ بعد میں عمران خان نے انہیں شوکت خانم ہسپتال کے پراجیکٹ کا ذمہ دار بھی بنایا۔ اور اب یہ نمل کالج کے پراجیکٹ میں عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کسی قوم کو عروج بخشنے کے لیے چند عزم اور حوصلہ رکھنے والے افراد ہی کافی ہوتے ہیں۔ عمران خان اور اس کے رفقاء کار اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ نمل کالج کے پراجیکٹ میں تعاون یا ڈونیشن کے لیے معلومات اس ربط پر موجود ہیں۔