صابرہ امین
لائبریرین
روؤف بھائی کا مشورعمدہ لگا۔ اب دیکھیےنظر ثانی 'غضب بھی' کی تکرار پر پڑی، اگر کچھ بن سکے تو کرو ورنہ ایک آدھ معمولی سا سقم تو چھوڑ بھی دیا جا سکتا ہے!
پیار پھر دشمنوں پہ آتا ہے
دوستی وہ ستم بھی ڈھاتی ہے
روؤف بھائی کا مشورعمدہ لگا۔ اب دیکھیےنظر ثانی 'غضب بھی' کی تکرار پر پڑی، اگر کچھ بن سکے تو کرو ورنہ ایک آدھ معمولی سا سقم تو چھوڑ بھی دیا جا سکتا ہے!
شکریہ، روؤف بھائی۔"غضب بھی" کو "ستم بھی" کیا جا سکتا ہے
تہِ ٹیگ کرنے کا شکریہ!استادِ محترم،
آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے۔
دوستی جب بھی دل دکھاتی ہے
دشمنی ہم کو راس آتی ہے
یاد ہر پل تری ستاتی ہے
آتشِ عشق کو بڑھاتی ہے
پیار پھر دشمنوں پہ آتا ہے
دوستی وہ غضب بھی ڈھاتی ہے
سر پہ پڑتی ہے جب مرے افتاد
مجھے قسمت بھی آزماتی ہے
زندگی کچھ نہیں بجز اس کے
سانس آتی ہے سانس جاتی ہے
کیا شفا دے گا وہ طبیب مجھے
جس کے آنے سے جان جاتی ہے
گردشِ بخت ہے، کہ اس کی یاد
یاد کرنے پہ یاد آتی ہے
روز دکھتے ہیں مجھ کو خواب نئے
پھر قیامت بھی روز آتی ہے
چاند روٹھا ہے میرے آنگن سے
تیرگی شب کی بڑھتی جاتی ہے
وہ خفا مجھ سے کب نہیں ہوتا
یہ گھڑی روز روز آتی ہے
جب اجڑتا ہے میرا دل، تو امید
اس میں بستی نئی بساتی ہے
ارشد چوہدری بھائی، محمد عبدالرؤوف بھائی، ریحان احمد ریحانؔ بھائی اور یاسر شاہ بھائی آپ کی رہنمائی اور اصلاح کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
جی بے حد شکریہ، نئی شاعری کے ساتھ ایسا ہی ہو گا۔ پراننی شاعری پر نظر ثانی کی تو کچھ نہیں بچے گا۔ یہ غزل تو جیسے لکھی پال میں رکھے بغیر پیش کر دی تھی۔تہِ ٹیگ کرنے کا شکریہ!
اب تو آپ کی غزل اصلاح کے کئی ادوار سے گزر چکی ۔ اب مزید کہنے کی گنجائش کم ہے اگرچہ بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ ہی موجود رہتی ہے ۔ ایک مشورہ یہ ہے کہ معمولی اور سامنے کے مضامین سے گریز کریں ۔ معمولی اور متداول مضامین پر مشتمل طویل غزل سے چار پانچ اشعار کی وہ غزل بہتر ہوتی ہے جس کے مضامین یا زبان و بیان اعلیٰ و ارفع ہوں ۔ مثال کے طور پر اس شعر کو دیکھئے:
یاد ہر پل تری ستاتی ہے
آتشِ عشق کو بڑھاتی ہے
یہ مضمون اردو شاعری میں تین لاکھ سترہ ہزار پانچ سو بارہ مرتبہ باندھا جاچکا ہے ۔ اب اس کی مزید گنجائش نہیں ۔ اسی مضمون کو اگر اچھوتے پیرائے یا صنائع و بدائع استعمال کرتے ہوئے مختلف طریقے سے باندھا جائے تو بات بنتی ہے ورنہ یہ سیدھا سادھا سامنے کا مضمون ہے ۔ اسی طرح اور اشعار پر بھی نظر ڈالئے اور قطع و برید کیجئے ۔
جی بہتر۔ اچھا معلوم ہو رہا ہے۔ شکریہ۔پیار پھر دشمنوں پہ آتا ہے
کو اگر
پیار آتا ہے پھر عدو پر بھی
کر دیں تو؟
جی ان شاءاللہ ضرور شامل مطالعہ ہو گی۔ شکریہ، ریحان احمد ریحانؔ بھائی۔محمد حسین آزاد کی کتاب آبِ حیات کا بھی ایک بار مطالعہ کر لیں تمام شعراء کی شاعری ایک جگہ پڑھنے کو مل جائے گی
کل ہی صاحب کو زبردستی اپنی ساڑھے اٹھارویں غزل سنائی تو انہوں نے پوچھا ، "یہ محبت کے موضوع پر ہی کیوں لکھتی ہیں آپ؟" ہم نے جھٹ کہا، "انسان کی زندگی میں جس چیز کی کمی ہو گی اسے کے بارے میں لکھے گا نا!"
تنقید پڑھنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا ۔ ویسے حالی کی کتاب پڑھنے میں ہرج نہیں کہ یہ تنقید کی ثقیل کتاب نہیں بلکہ اسے تو شاعری کا پرائمر سمجھئے ۔آپ بھی کچھ کتب کے نام تجویز کیجیے۔
ظہیر بھائی،
آپ کے اس اصول کی روسے تو میری شاعری کے موضوعات یہ ہونے چاہئیں : بالو شاہی ، پلّا مچھلی ، سَجی ، چپلی کباب ، گول گپے، سندھڑی آم ، ربڑی ، ملائی والی قلفی اور گنے کا رس ۔
اب ان موضوعات پر شعر لکھوں تو لوگ قہقہے ہی لگائیں گے ۔
آپ کے قیمتی وقت کا بہت بہت شکریہ ۔ ۔ آپ نے جب پہلی مرتبہ ادب عالیہ پڑھنے کا مشورہ دیا تھا تب سے پڑھنا شروع کردیا تھا۔تنقید پڑھنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا ۔ ویسے حالی کی کتاب پڑھنے میں ہرج نہیں کہ یہ تنقید کی ثقیل کتاب نہیں بلکہ اسے تو شاعری کا پرائمر سمجھئے ۔
شاعر کے لئے پہلا کام زبان سیکھنے کا ہوتا ہے ۔ یعنی اسے یوں سمجھئے کہ جس طرح رنگوں کی تھیوری سمجھے بغیر آپ اچھے مصور نہیں بن سکتے اسی طرح زبان پر عبور حاصل کئے بغیر آپ اچھے شاعر نہیں بن سکتے ۔ شاعر کے لئے الفاظ رنگوں کے مانند ہیں ۔ جب تک لفظوں کا استعمال نہیں آئے گا شاعری مشکل رہے گی۔ زبان و بیان سیکھنے کے لئے ادب عالیہ پڑھئے ۔ شاعری پڑھنا بھی ٹھیک ہے ۔ اچھے شعرا اور اپنی پسند کےشعراکو پڑھنا چاہئے ۔( میں عموماً اپنے پسندیدہ شعرا کو لطف اندوز ہونے کے لئے پڑھتا ہوں اور اس سے کبھی کبھی شعرگوئی کی تحریک بھی ملتی ہے)۔ لیکن الفاظ کا ذخیرہ اور ان کا استعمال اچھے نثر نگاروں کو پڑھنے سے ہاتھ آتا ہے ۔ روزمرہ ، محاورہ جات ، تشبیہات ، تلمیحات ، استعارے اور علامات وغیرہ کا ذخیرہ صرف اور صرف مطالعے سے حاصل ہوگا ۔ اسماعیل میرٹھی کی کتب پڑھئے ۔ ڈپٹی نذیر احمد کو پڑھئے ۔ پرانےنثری ادب کو چاٹ جائیے۔ ایک دفعہ محنت ہوگی لیکن آپ کو زبان آجائے گی ۔ زبان سیکھنے کے لئے شاعری پڑھنی ہے تو داغ کی شاعری کو ضرور پڑھ لیجئے ۔
اب یہ بھی جان لیجئے کہ کیا چیزیں نہیں پڑھنی ہیں ۔ آپ نے میر تقی میر کا وہ مشہور واقعہ سنا ہوگا کہ ایک طویل سفر کے دوران "عامی" زبان بولنے والے ہمسفر سے گفتگو کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میاں اس سے ہماری زبان بگڑتی ہے ۔ انٹر نیٹ کے اس دور میں یہ بات انتہائی درست ہے ۔ اگر آپ مطالعے میں تخصیص نہیں برتیں گی اور ہرقسم کی تحریریں پڑھیں گی تو اس کا اثر لامحالہ آپ کی زبان پر پڑے گا ۔ اس کی مثالیں آئےدن اسی اردو محفل میں جابجا نظر آتی ہیں ۔ اچھے شاعر کے لئے مطالعے میں اچھا ذوق رکھنا شرط ہے۔
اب دفتر سے گھر جانے کا وقت ہوگیا ہے ۔ ان مختصر سی باتوں کو غور سے پڑھئے اور سمجھئے ۔ یعنی اس افسانچے کو ناول سمجھئے ۔
شاعر کا کام اپنے اندر جھانکنا ہی نہیں بلکہ اپنے احساس کی آنکھ سے اپنے ماحول کو دیکھنا بھی ہوتا ہے ۔ اور نہ صرف دیکھنا بلکہ دوسروں کو دکھانا ہی اصل شاعری ہے۔
کل ہی صاحب کو زبردستی اپنی ساڑھے اٹھارویں غزل سنائی تو انہوں نے پوچھا ، "یہ محبت کے موضوع پر ہی کیوں لکھتی ہیں آپ؟" ہم نے جھٹ کہا، "انسان کی زندگی میں جس چیز کی کمی ہو گی اسی کے بارے میں لکھے گا نا!" اب بتائیے اس بات پر فلک شگاف قہقہہ لگانے کی کیا ضرورت تھی بھلا؟ یہ شوہر بھی نا ۔ ۔ ۔