دوستی دل کو جب دکھاتی ہے

صابرہ امین

لائبریرین
نظر ثانی 'غضب بھی' کی تکرار پر پڑی، اگر کچھ بن سکے تو کرو ورنہ ایک آدھ معمولی سا سقم تو چھوڑ بھی دیا جا سکتا ہے!
روؤف بھائی کا مشورعمدہ لگا۔ اب دیکھیے

پیار پھر دشمنوں پہ آتا ہے
دوستی وہ ستم بھی ڈھاتی ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
استادِ محترم،
آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے۔

دوستی جب بھی دل دکھاتی ہے
دشمنی ہم کو راس آتی ہے

یاد ہر پل تری ستاتی ہے
آتشِ عشق کو بڑھاتی ہے

پیار پھر دشمنوں پہ آتا ہے
دوستی وہ غضب بھی ڈھاتی ہے

سر پہ پڑتی ہے جب مرے افتاد
مجھے قسمت بھی آزماتی ہے

زندگی کچھ نہیں بجز اس کے
سانس آتی ہے سانس جاتی ہے

کیا شفا دے گا وہ طبیب مجھے
جس کے آنے سے جان جاتی ہے

گردشِ بخت ہے، کہ اس کی یاد
یاد کرنے پہ یاد آتی ہے

روز دکھتے ہیں مجھ کو خواب نئے
پھر قیامت بھی روز آتی ہے

چاند روٹھا ہے میرے آنگن سے
تیرگی شب کی بڑھتی جاتی ہے

وہ خفا مجھ سے کب نہیں ہوتا
یہ گھڑی روز روز آتی ہے

جب اجڑتا ہے میرا دل، تو امید
اس میں بستی نئی بساتی ہے
ارشد چوہدری بھائی، محمد عبدالرؤوف بھائی، ریحان احمد ریحانؔ بھائی اور یاسر شاہ بھائی آپ کی رہنمائی اور اصلاح کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
تہِ ٹیگ کرنے کا شکریہ!:)
اب تو آپ کی غزل اصلاح کے کئی ادوار سے گزر چکی ۔ اب مزید کہنے کی گنجائش کم ہے اگرچہ بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ ہی موجود رہتی ہے ۔ ایک مشورہ یہ ہے کہ معمولی اور سامنے کے مضامین سے گریز کریں ۔ معمولی اور متداول مضامین پر مشتمل طویل غزل سے چار پانچ اشعار کی وہ غزل بہتر ہوتی ہے جس کے مضامین یا زبان و بیان اعلیٰ و ارفع ہوں ۔ مثال کے طور پر اس شعر کو دیکھئے:
یاد ہر پل تری ستاتی ہے
آتشِ عشق کو بڑھاتی ہے
یہ مضمون اردو شاعری میں تین لاکھ سترہ ہزار پانچ سو بارہ مرتبہ باندھا جاچکا ہے ۔ اب اس کی مزید گنجائش نہیں ۔ اسی مضمون کو اگر اچھوتے پیرائے یا صنائع و بدائع استعمال کرتے ہوئے مختلف طریقے سے باندھا جائے تو بات بنتی ہے ورنہ یہ سیدھا سادھا سامنے کا مضمون ہے ۔ اسی طرح اور اشعار پر بھی نظر ڈالئے اور قطع و برید کیجئے ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
تہِ ٹیگ کرنے کا شکریہ!:)
اب تو آپ کی غزل اصلاح کے کئی ادوار سے گزر چکی ۔ اب مزید کہنے کی گنجائش کم ہے اگرچہ بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ ہی موجود رہتی ہے ۔ ایک مشورہ یہ ہے کہ معمولی اور سامنے کے مضامین سے گریز کریں ۔ معمولی اور متداول مضامین پر مشتمل طویل غزل سے چار پانچ اشعار کی وہ غزل بہتر ہوتی ہے جس کے مضامین یا زبان و بیان اعلیٰ و ارفع ہوں ۔ مثال کے طور پر اس شعر کو دیکھئے:
یاد ہر پل تری ستاتی ہے
آتشِ عشق کو بڑھاتی ہے
یہ مضمون اردو شاعری میں تین لاکھ سترہ ہزار پانچ سو بارہ مرتبہ باندھا جاچکا ہے ۔ اب اس کی مزید گنجائش نہیں ۔ اسی مضمون کو اگر اچھوتے پیرائے یا صنائع و بدائع استعمال کرتے ہوئے مختلف طریقے سے باندھا جائے تو بات بنتی ہے ورنہ یہ سیدھا سادھا سامنے کا مضمون ہے ۔ اسی طرح اور اشعار پر بھی نظر ڈالئے اور قطع و برید کیجئے ۔
جی بے حد شکریہ، نئی شاعری کے ساتھ ایسا ہی ہو گا۔ پراننی شاعری پر نظر ثانی کی تو کچھ نہیں بچے گا۔ :D یہ غزل تو جیسے لکھی پال میں رکھے بغیر پیش کر دی تھی۔
بذات خوداس بات کا احساس ہے اور آپ اور آپ کی طرح کے اچھے شعراؑ کا کلام پڑھ کر دوچند ہوجاتا ہے۔ کل ہی صاحب کو زبردستی اپنی ساڑھے اٹھارویں غزل سنائی تو انہوں نے پوچھا ، "یہ محبت کے موضوع پر ہی کیوں لکھتی ہیں آپ؟" ہم نے جھٹ کہا، "انسان کی زندگی میں جس چیز کی کمی ہو گی اسی کے بارے میں لکھے گا نا!" اب بتائیے اس بات پر فلک شگاف قہقہہ لگانے کی کیا ضرورت تھی بھلا؟ یہ شوہر بھی نا ۔ ۔ ۔ :D

ویسے آپ کو جان کر خوشی ہو گی کہ اپنی پیاری دوست نور وجدان سے کل اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ہم نے ان سے یہی کہا کہ اب اصلاح سخن میں شاعری پیش کرنے کے بجائے شاعری کے اسرار و رموز یعنی محاسن و عیوب کو پڑھنے کا ارادہ ہے۔ اسی طرح مختلف شعراء کا کلام بھی پڑھنا اس عمل کا حصہ ہو گا۔ اپنے پسندیدہ وارث صاحب کی فارسی کے ترجمے والی لڑی کا بھی شروع سے مطالعہ شروع کر دیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

یاسر بھائی کی تجویز کردہ کتاب الطاف حسین حالی کی مقدمہ شعروشاعری کل سے شروع کی ہے۔ روز دس صفحات کا مطالعہ ٹارگٹ تھا مگر ایک ساتھ پچاس صفحات پڑھ ڈالے۔ (اگر گردن نہ اکڑی ہوتی یا آنکھوں سے پانی نہ بہہ نکلتا یا فجر کا وقت اور نیند کا غلبہ شدید نہ ہوتا تو ایک نشست ہی کافی تھی :LOL:)
اس کا کئی بار مطالعہ کرنا پڑے گا۔ آپ کو یہ سب روداد سنانے کا مقصد ہمدردی بٹورنا پرگز نہیں بلکہ گذارش ہے کہ آپ بھی کچھ کتب کے نام تجویز کیجیے۔ اور اگر کچھ محفلین بھی اس سلسلے میں ہماری مدد کریں تو خوشی ہو گی۔ میں آپ سب کی آپ کی مقروض و ممنون رہوں گی۔ ان شاء اللہ
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کل ہی صاحب کو زبردستی اپنی ساڑھے اٹھارویں غزل سنائی تو انہوں نے پوچھا ، "یہ محبت کے موضوع پر ہی کیوں لکھتی ہیں آپ؟" ہم نے جھٹ کہا، "انسان کی زندگی میں جس چیز کی کمی ہو گی اسے کے بارے میں لکھے گا نا!"
:):):)
آپ کے اس اصول کی روسے تو میری شاعری کے موضوعات یہ ہونے چاہئیں : بالو شاہی ، پلّا مچھلی ، سَجی ، چپلی کباب ، گول گپے، سندھڑی آم ، ربڑی ، ملائی والی قلفی اور گنے کا رس ۔
اب ان موضوعات پر شعر لکھوں تو لوگ قہقہے ہی لگائیں گے ۔ :D

شاعر کا کام اپنے اندر جھانکنا ہی نہیں بلکہ اپنے احساس کی آنکھ سے اپنے ماحول کو دیکھنا بھی ہوتا ہے ۔ اور نہ صرف دیکھنا بلکہ دوسروں کو دکھانا ہی اصل شاعری ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ بھی کچھ کتب کے نام تجویز کیجیے۔
تنقید پڑھنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا ۔ ویسے حالی کی کتاب پڑھنے میں ہرج نہیں کہ یہ تنقید کی ثقیل کتاب نہیں بلکہ اسے تو شاعری کا پرائمر سمجھئے ۔
شاعر کے لئے پہلا کام زبان سیکھنے کا ہوتا ہے ۔ یعنی اسے یوں سمجھئے کہ جس طرح رنگوں کی تھیوری سمجھے بغیر آپ اچھے مصور نہیں بن سکتے اسی طرح زبان پر عبور حاصل کئے بغیر آپ اچھے شاعر نہیں بن سکتے ۔ شاعر کے لئے الفاظ رنگوں کے مانند ہیں ۔ جب تک لفظوں کا استعمال نہیں آئے گا شاعری مشکل رہے گی۔ زبان و بیان سیکھنے کے لئے ادب عالیہ پڑھئے ۔ شاعری پڑھنا بھی ٹھیک ہے ۔ اچھے شعرا اور اپنی پسند کےشعراکو پڑھنا چاہئے ۔( میں عموماً اپنے پسندیدہ شعرا کو لطف اندوز ہونے کے لئے پڑھتا ہوں اور اس سے کبھی کبھی شعرگوئی کی تحریک بھی ملتی ہے)۔ لیکن الفاظ کا ذخیرہ اور ان کا استعمال اچھے نثر نگاروں کو پڑھنے سے ہاتھ آتا ہے ۔ روزمرہ ، محاورہ جات ، تشبیہات ، تلمیحات ، استعارے اور علامات وغیرہ کا ذخیرہ صرف اور صرف مطالعے سے حاصل ہوگا ۔ اسماعیل میرٹھی کی کتب پڑھئے ۔ ڈپٹی نذیر احمد کو پڑھئے ۔ پرانےنثری ادب کو چاٹ جائیے۔ ایک دفعہ محنت ہوگی لیکن آپ کو زبان آجائے گی ۔ زبان سیکھنے کے لئے شاعری پڑھنی ہے تو داغ کی شاعری کو ضرور پڑھ لیجئے ۔
اب یہ بھی جان لیجئے کہ کیا چیزیں نہیں پڑھنی ہیں ۔ آپ نے میر تقی میر کا وہ مشہور واقعہ سنا ہوگا کہ ایک طویل سفر کے دوران "عامی" زبان بولنے والے ہمسفر سے گفتگو کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میاں اس سے ہماری زبان بگڑتی ہے ۔ انٹر نیٹ کے اس دور میں یہ بات انتہائی درست ہے ۔ اگر آپ مطالعے میں تخصیص نہیں برتیں گی اور ہرقسم کی تحریریں پڑھیں گی تو اس کا اثر لامحالہ آپ کی زبان پر پڑے گا ۔ اس کی مثالیں آئےدن اسی اردو محفل میں جابجا نظر آتی ہیں ۔ اچھے شاعر کے لئے مطالعے میں اچھا ذوق رکھنا شرط ہے۔

اب دفتر سے گھر جانے کا وقت ہوگیا ہے ۔ ان مختصر سی باتوں کو غور سے پڑھئے اور سمجھئے ۔ یعنی اس افسانچے کو ناول سمجھئے ۔ :)
 

صابرہ امین

لائبریرین
:):):)
آپ کے اس اصول کی روسے تو میری شاعری کے موضوعات یہ ہونے چاہئیں : بالو شاہی ، پلّا مچھلی ، سَجی ، چپلی کباب ، گول گپے، سندھڑی آم ، ربڑی ، ملائی والی قلفی اور گنے کا رس ۔
اب ان موضوعات پر شعر لکھوں تو لوگ قہقہے ہی لگائیں گے ۔ :D
ظہیر بھائی،
ہم نے تو ایک بات کی، آپ نے کمال کر دیا

کیا کہنے آپ کی خواہشوں کے۔ یعنی ہمارے ارماں پھر بھی کم نکلے!!

اگر صاحب کو یہ کہتے کہ سیماب اکبر آبادی کہتے ہیں کہ ایک مبتدی ہر روز چالیس اشعار لکھے اور یہ کہ اردو شاعری نوے فیصد عشق کے موضوع پر ہی ہے اور اسی لیے یہ سب قافیہ پیمائی بھی ہو جاتی ہے تو اس گفتگو سے انہوں نے فوراً بدک جانا تھا۔ اتنی مشکل سے تو انہیں راہ پر لائے ہیں۔ :D
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
تنقید پڑھنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا ۔ ویسے حالی کی کتاب پڑھنے میں ہرج نہیں کہ یہ تنقید کی ثقیل کتاب نہیں بلکہ اسے تو شاعری کا پرائمر سمجھئے ۔
شاعر کے لئے پہلا کام زبان سیکھنے کا ہوتا ہے ۔ یعنی اسے یوں سمجھئے کہ جس طرح رنگوں کی تھیوری سمجھے بغیر آپ اچھے مصور نہیں بن سکتے اسی طرح زبان پر عبور حاصل کئے بغیر آپ اچھے شاعر نہیں بن سکتے ۔ شاعر کے لئے الفاظ رنگوں کے مانند ہیں ۔ جب تک لفظوں کا استعمال نہیں آئے گا شاعری مشکل رہے گی۔ زبان و بیان سیکھنے کے لئے ادب عالیہ پڑھئے ۔ شاعری پڑھنا بھی ٹھیک ہے ۔ اچھے شعرا اور اپنی پسند کےشعراکو پڑھنا چاہئے ۔( میں عموماً اپنے پسندیدہ شعرا کو لطف اندوز ہونے کے لئے پڑھتا ہوں اور اس سے کبھی کبھی شعرگوئی کی تحریک بھی ملتی ہے)۔ لیکن الفاظ کا ذخیرہ اور ان کا استعمال اچھے نثر نگاروں کو پڑھنے سے ہاتھ آتا ہے ۔ روزمرہ ، محاورہ جات ، تشبیہات ، تلمیحات ، استعارے اور علامات وغیرہ کا ذخیرہ صرف اور صرف مطالعے سے حاصل ہوگا ۔ اسماعیل میرٹھی کی کتب پڑھئے ۔ ڈپٹی نذیر احمد کو پڑھئے ۔ پرانےنثری ادب کو چاٹ جائیے۔ ایک دفعہ محنت ہوگی لیکن آپ کو زبان آجائے گی ۔ زبان سیکھنے کے لئے شاعری پڑھنی ہے تو داغ کی شاعری کو ضرور پڑھ لیجئے ۔
اب یہ بھی جان لیجئے کہ کیا چیزیں نہیں پڑھنی ہیں ۔ آپ نے میر تقی میر کا وہ مشہور واقعہ سنا ہوگا کہ ایک طویل سفر کے دوران "عامی" زبان بولنے والے ہمسفر سے گفتگو کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میاں اس سے ہماری زبان بگڑتی ہے ۔ انٹر نیٹ کے اس دور میں یہ بات انتہائی درست ہے ۔ اگر آپ مطالعے میں تخصیص نہیں برتیں گی اور ہرقسم کی تحریریں پڑھیں گی تو اس کا اثر لامحالہ آپ کی زبان پر پڑے گا ۔ اس کی مثالیں آئےدن اسی اردو محفل میں جابجا نظر آتی ہیں ۔ اچھے شاعر کے لئے مطالعے میں اچھا ذوق رکھنا شرط ہے۔

اب دفتر سے گھر جانے کا وقت ہوگیا ہے ۔ ان مختصر سی باتوں کو غور سے پڑھئے اور سمجھئے ۔ یعنی اس افسانچے کو ناول سمجھئے ۔ :)

شاعر کا کام اپنے اندر جھانکنا ہی نہیں بلکہ اپنے احساس کی آنکھ سے اپنے ماحول کو دیکھنا بھی ہوتا ہے ۔ اور نہ صرف دیکھنا بلکہ دوسروں کو دکھانا ہی اصل شاعری ہے۔
آپ کے قیمتی وقت کا بہت بہت شکریہ ۔ ۔ آپ نے جب پہلی مرتبہ ادب عالیہ پڑھنے کا مشورہ دیا تھا تب سے پڑھنا شروع کردیا تھا۔


https://www.urduweb.org/mehfil/threads/شعریت،-تغزل،-مصرعہ-سازی-سے-متعلق-معلومات.112769/page-3

اب مزید ان ادیبوں کو بھی پڑھا جائے گا کہ جن کا آپ نے مشورہ دیا ہے۔۔ ان شاءاللہ زیادہ وقت ان پر صرف کیا جائے گا تاوقتیکہ اسلوب میں مزید بہتری کے آثار نمایاں نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالی آپ جزائے خیر دیں ۔کیسے آپ کا شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے بھلا۔

ہماری تمام نیک تمنائیں اور دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گی۔ سدا سلامت رہیں۔ آمین
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کل ہی صاحب کو زبردستی اپنی ساڑھے اٹھارویں غزل سنائی تو انہوں نے پوچھا ، "یہ محبت کے موضوع پر ہی کیوں لکھتی ہیں آپ؟" ہم نے جھٹ کہا، "انسان کی زندگی میں جس چیز کی کمی ہو گی اسی کے بارے میں لکھے گا نا!" اب بتائیے اس بات پر فلک شگاف قہقہہ لگانے کی کیا ضرورت تھی بھلا؟ یہ شوہر بھی نا ۔ ۔ ۔ :D
:LOL::LOL::LOL::LOL:
 
Top