بہت شکریہ فرخ بھائی کیا عمدہ انتخاب ہے واہ ایک واقعہ یاد آتا ہے برسبیلِ تذکرہ شامل کرتا ہوں ۔
فیض صاحب کی غزل جب اپنے عروج پر تھی ۔ آپ ایک مشاعرے کی صدارت فرمارہے تھے، کہ معروف مزاح گو شاعر امیر السلام ہاشمی اسی غزل کی پیروڈی کر لائے اور خوب لہک لہک کر پڑھنے لگے ۔ فیض صاحب دورانِ سماعت بار بار ناگوار سا منھ بناتے اور زیرِ لب ’’ داد ‘‘ (آپ خود سمجھ جائیں ناں ہر بات بتانی پڑے گی کیا ؟)دیتے ۔ ۔ کہ ایک شعر پر فیض صاحب کھڑے ہوئے اور امیر الاسلام ہاشمی کی طرف لپکے ، ہاشمی صاحب نے بھانپتے ہی بھاگنے کی کوشش کی مگر فیض صاحب نے جالیا، اور خوب پیٹھ ٹھونکی، ’’ شاباش، غزل کی گت بنتے دیکھ کر میرا غصہ فطری تھا مگر برخورداد تمھارے اس شعر پر ، جی خوش ہوا، سلامت رہو، کیا قافیہ برتا ہے اور کیا جواز تراشا ہے ۔ ‘‘۔۔۔۔۔ شعر یہ تھا۔
کُشتی میں لڑ رہا تھا ابھی تیرے غم کے ساتھ
دنیا کے غم بھی آگئے ، کپڑے اتار کے ۔۔
(امیر الاسلام ہاشمی)