فاتح
لائبریرین
عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے گائے ہوئے معدودے چند اچھے کلاموں میں سے ایک غزل پیش ہے۔
نوٹ: یہ غزل نجانے کس عمر کلیم خان نے اپنے فون نمبر اور شہر کے نام کے ساتھ اپلوڈ کی ہے لیکن بہرحال ان کا نمبر دیکھ کر میں نے ابھی (صبح کے چار بجے) انہیں کال کر کے انہیں ان کے ذوق اور "جذبے" پر داد د اور ساتھ ہی شکریہ بھی ادا کیا کہ انہوں نے ہمارے اعادۂ ایمان کے لیے یہ غزل یو ٹیوب پر رکھی۔ بے چارے یقیناً جز بز تو ہوئے ہوں گے لیکن کم از کم ان کا ردِ عمل ویسا نہیں تھا جیسا ان کے نام کے ساتھ "خان" اور شہر کا نام دیکھ کر ہماری توقع تھی۔ آہ بے چارے عمر کلیم خان
خیر غزل سنیے!
دونوں کو آ سکیں نہ نبھانی محبتیںنوٹ: یہ غزل نجانے کس عمر کلیم خان نے اپنے فون نمبر اور شہر کے نام کے ساتھ اپلوڈ کی ہے لیکن بہرحال ان کا نمبر دیکھ کر میں نے ابھی (صبح کے چار بجے) انہیں کال کر کے انہیں ان کے ذوق اور "جذبے" پر داد د اور ساتھ ہی شکریہ بھی ادا کیا کہ انہوں نے ہمارے اعادۂ ایمان کے لیے یہ غزل یو ٹیوب پر رکھی۔ بے چارے یقیناً جز بز تو ہوئے ہوں گے لیکن کم از کم ان کا ردِ عمل ویسا نہیں تھا جیسا ان کے نام کے ساتھ "خان" اور شہر کا نام دیکھ کر ہماری توقع تھی۔ آہ بے چارے عمر کلیم خان
خیر غزل سنیے!
اب پڑ رہی ہیں ہم کو بھلانی محبتیں
کن کن رفاقتوں کے دیے واسطے مگر
اس کو نہ یاد آئیں پرانی محبتیں
گزری رُتوں کے زخم بھی اب تک بھرے نہیں
پھر اور کیا کسی سے بڑھانی محبتیں
جانے وہ آج کون سے رستے سے آئیں گھر
ہر موڑ ہر گلی پہ بچھانی محبتیں