عرفان سعید
محفلین
میرا نام عرفان سعید ہے۔ میرے والدین نے دُنیا میں میری آمد کا اِستقبال لاہور کے علاقے رحمان پورہ میں کیا۔اپنی زندگی کے اَٹھایئس سال شہرِ لاہور ہی میں بسر ہوئے۔ تعلیم کے معاملے میں ہائی سکول سے ہی سائنس کے مضامین کا انتخاب کیا اور ایف ایس سی میں کیمیا اور پھر بطورِ خاص نامّیاتی کیمیا کے سَحر میں کُچھ اِس طرح گرفتار ہو گیاکہ ابھی تک کیمیا گری کے طلسم کُدہ سے فرار نہیں ہو سکا۔عہدِ طالبِ علمی کے دوران نا مُساعدحالات کے باوصف بختِ اتفاق یہ کہ جامعہء پنجاب لاہور سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کی ڈگری امتیازی حیثیت سے حاصل کی اور بَطورِ تحسین جامعہء کی طرف سےتمغہءزر میرے گَلے کا ہار بنا۔کچھ سال اور اِسی یونیورسٹی میں دَرس و تدریس اور تحقیق میں گُزرانے کے بعد ، ۲۰۰۳ میں حکومتِ جاپان کی جانب سے علمِ کیمیامیں اعلیٰ تعلیم کا وظیفہ مِلا۔ایک بار پھر حُسنِ اتفاق سے ، مَیں پاکستان بھر سے کیمیا کے مضمون میں وظیفہ حاصل کرنے والا واحِدطالبِ علم تھا۔۲۰۰۷کے اوائل میں،جاپان کی مشہور و معروف درس گاہ کیوٹو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کی تکمیل کی اور مزید دو سال بحثیتِ پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق و تدقیق میں گُزر گئے۔لیکن چند برس قبل ،میدانِ کیمیا گری میں جوئےِ شیر بہانے کی جو مُہم شروع کی تھی وہ ابھی ناتمام تھی، اِس داستانِ بے سُتون و کوہکن کو ابھی جاری رہنا تھا سَو جاری رہی۔۲۰۰۹ کے موسمِ بہار میں جرمنی کے عظیم الشّان تحقیقاتی اِدارے مَیکس پلانک اِنسٹیٹیوٹ برائے پولیمر ریسرچ سے وابستہ ہُوا اوردو سال مزید صحرائےِ کیمیا کے اَسرار و رُموز کی دشت پیمائی میں قِصّہء ماضی بن گئے۔اب گذشتہ ساڑھے تین سال سے فِن لینڈ میں مُقیم ہُوں اور ایک بین الاقوامی کمپنی میں اپنے ذوقِ تحقیق اور شوقِ تدقیق کی آبیاری کر رہا ہُوں۔
اُردو زبان کی لازمی اور رواجی تعلیم ایف ایس سی تک کالج میں حاصل کی۔ایک ایسا ماحول جہاں ہر شخص ڈاکٹر یا انجئنیر بننے کا خواہاں ہو،شعور و آگہی سے زیادہ نمبروں کی اندھا دھند میراتھن کا غلغلہ ہو،سائنسی مضامین کی اہمیت پر بے پناہ زور ہو، وہاں زبان و ادب کی خوبصورتی گہنا جاتی ہے۔امتحانات کے جاں گسل مرحلے سے جب کچھ فراغت میسر آئی تو اردو نثر کی کتب بینی کا موقعہ مل گیا، جسے نعمت غیر مترقبہ جانتے ہوئے مقدور بھر کسب فیض کی کاوش کی۔ گاہے بگاہے اپنے احساسات کو بھی پیرایہء نثر میں قلم بند کرنے کی کوشش کی۔شاید یہ سلسلہ جاری رہتا لیکن میری تعلیم کا دھارا اب ایسا موڑ مڑنے جا رہا تھا کہ زبان و ادب سے تمام علاقے منقظع ہونے جا رہے تھے۔ بی ایس سی میں اردو زبان کی تدریس لازم نہ تھی اور دوبارہ کالج میں داخلے کے بعد تعلیم کا بار، خود کفالتی کی ذمہ داریاں،بحرِ کیمیا میں تلاشِ گوہرِعلم کے لیے آب بازی اور کچھ کسالت مزاجی کے باعث اردو کی جن حسین و جمیل وادیوں میں کبھی محوِ خراماں تھا، وہ سفرِ حیات میں دُور کہیں بہت دُور رہ گئیں تھیں۔میں اب نئی منازل کی تلاش میں بالکل مختلف راستوں پر گامزن تھااور یہ بھی معلوم نہ تھا کہ زندگی کی گاڑی کبھی اس چمنستان کے قرب و جوار سے بھی گُزرپائے گی یا نہیں۔ اِسی خود فراموشی میں تقریبًا دو دہائیاں گردشِ ایّام کی نذر ہو گئیں۔دستِ کیمیا گر جو اَب کیمیا بازی میں عناصر و مرکبات کی ترکیبوں کو تجربات کی بھٹی میں افشا کرنے کے خُوگر ہو چُکے تھے، وہ اب تراکیب زبان سے ناشناش تھے۔
کیمیائی مرکبات کی تیز و تند بُو -جو کبھی کبھی اپنی شدید تاثیر کے باعث دماغ کو ماؤف کر دیتی تھی-نےگلستانِ اُردو کے گُل ہائے معطر کی دل آویز مہک کو ذہن سے محو کر دیا تھا۔فکر و نظر جو اب اُس انتہائی چھوٹی سی دُنیا –جو ایٹم اور سالمات کے قلب میں مستور ہے –میں موجود انسان کی حسِ باصرہ اور خوردبینی نگاہ سے اوجھل ذرات کے رقص کو محسوس کر لیتی تھی، لیکن دل کی اتھاہ گہرائیوں سے بلند ہونے والے نغمات اس کی حسِ سماعت کو منفعل نہ کرتے تھے۔علم و حرفت کے شاہکار آلاتِ جدید جو ذرّات کی دُنیا میں وُقوع پذیر ہونے والے معمولی سے معمولی حوادث و واقعات کا سُراغ لگانے میں میرے ممد و معاون تھے، جذبات و احساسات میں برپا ہونے والے تلاطم کی کوئی خبر دینے سے قاصر تھے۔میری زندگی کا سفینہ جو کبھی جُوئے اردو میں تیر رہا تھا، اب جمود و تعطل کا شکار تھااور مدت ہائے دراز سے رُک چکا تھا اورمیرے لیے اس رواں دواں ندی کا پانی آب بستہ ہو چُکا تھا۔ایک طرف وسیع تر تجربات کی آزمائش کے بعد ثابت شدہ سائنسی قوانین و عقائد تھے، جن کا اطلاق ذرات کے سینہ کو پھاڑ کر قوت و توانائی کا ہمالہ بہم پہنچا رہا تھا، لیکن دُوسری طرف یہ انسان کی انانیت اور خود سری کے سخت پتھروں میں چھید کرنے سے قاصر تھے۔اس محیر العقول اور عظیم الشان عملِ انشقاق کی بدولت ایک طرف انسان مادے کو توانائی میں تبدیل کر رہا تھااور اس عمل کی چکاچوند روشنیاں انسان کی نگاہوں کو خیرہ کرتے ہوئےعالم صُغریٰ کو بُقعہ نُور بنا رہی تھیں۔لیکن اس کے برعکس، عقل و شعور اورعلم و آگہی کے خورشید کی وہ تابانی جو ذرّے کو آفتاب بناتی ہیں، انسان کے فکر و نظر کے گھر میں اُجالے کا پیغام لاتی ہیں اس کے قلب و رُوح ابھی اُس کی شعاع ریزی سے محروم تھے۔انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی آئینہ دار عظیم ایجادات اور دریافتیں ،سورج کی شُعاعوں کو قید کر کے اس کا معیارِ زندگی بلند سے بلند تر کرنے میں مگن تھیں۔لیکن صُبحِ صادق کی وہ کرن جو انسانیت کی شبِ تاریک کو سحر کرتی اور جس کی روشنی میں مہرِ تاب کے نور کا صیاد اپنے افکار کی دنیا کا مسافر بنتا، نہ جانے کہاں تھی؟
۹نومبر ۲۰۱۴ کا دن یادگار رہے گا۔ دیارِ غیر میں مقیم کچھ ہم وطنوں نےیومِ اقبال کی مُناسبت سے ایک تقریب کا اہتمام کیاجس کی خبر سُنتے ہی دل ایک خوشگوار حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔آخر کیوں نہ ڈوبتا؟ غیر وطنی کے گیارہ سالوں میں پہلی بارایسا موقع آیا تھا۔اِس خاکسار کو بھی اپنی قومی زُبان میں لب کُشائی کا موقعہ مِل گیا۔شاعرِ مشرق کی شان میں بے ساختہ کچھ یُوں رطب اللسان ہُوا۔
" اقبال کی شاعری کے بغیر اُردو زبان ایسے ہے جیسے جِسم رُوح کے بغیر، آشیانہ سائبان کے بغیر، شجر جڑ کے بغیر، چَمن گُل کے بغیراور گُل مہک کے بغیر۔ کُلیاتِ اقبال کو اُردو سے خارِج کر دیا جائے تو یہ وہ نیام جِس میں تلوار نہیں، شیر جِس کی للکار نہیں، قوم جِس کے افکار نہیں، حُکمران جِس کا اختیار نہیں، سمندر جِس کی گہرائی نہیں،کُہسار جِس کی اُونچائی نہیں۔کلامِ اقبال کے بِنا اُردو ادب کی مثال وہ ندی جِس میں پانی نہ ہو، دریا جِس میں طُغیانی نہ ہو، تجسّس جِس میں حیرانی نہ ہو، فسانہ جِس میں کہانی نہ ہو، نظم جِس میں روانی نہ ہو، پِھر یہ وہ لفظ جِس کا کوئی معانی نہ ہو۔"
انسان کا بھی عجیب حال ہے، نشہء خود فراموشی سے سرشارہو تو بدیۂہ النظراشیاء کی ہستی واہمہ پر مُشتبہ ہو جائے اور مستیِ شوقِ جُستجومیں گرفتار ہو دُنیائے نامعلوم کے قصر ِغیر محسوس میں نقب زنی کرتا پھرے۔کبھی واضح اور صریح حقائق پردہِ نگاہ سے اوجھل ہو جائیں اور کبھی عظیم الوسعت کائنات کے راز طشت از بام کر دے۔اُردو کے باب میں کچھ ایسا ہی معاملہ میرے ساتھ بھی ہُوا،دو دہائیاں اس طرح گُزرئیں جیسے میں اس کُوچے میں سدا سے اجنبی تھا۔اب جو کلامِ اقبال کی بابت رطبِ اللسان ہونے کا موقعہ ملا تو جو آگ بیس سال قبل بجھ چُکی تھی، اُس کی چنگاری دوبارہ بھڑکنے کے لئے تیار تھی۔
یومِ اقبال کی تقریب میں شرکت کے بعد سوچا کہ اگلے روز معمولات زندگی کا آغاز از سر نَو کیا جائے۔لیکن یاداشت تقریب کچھ اس طرح طبعیت پر چھا گئی کہ خود کو اقبالیات کے سحر اور کلام اقبال کے طلسم کدہ میں گرفتار پایا۔اب وہ کیفیت تھی کہ اقبال کی لیلٰیِ سخن وری کی اسیری زلف رسا سے فرار ممکن نہ تھا۔ جذبات کے سمندر میں جو مدوجزر برپا ہوا،تخیل و وجدان نے احساسات کی تلاطم خیز موجوں پر جن جزائر فکر و نظر کے لبوں کو بوسہ دیا،انہیں آشنائے نوک قلم کر دیا۔
اب جو آگ بھڑک ہی چُکی تھی تو میں بھی عزمِ مصمم کر چُکا تھا کہ اس بار عقلِ کیمیا گر کو ترکیبِ آتش کی سُراغرسانی میں بہکنے سے بچایا جائے ، بلکہ اس آگ کی لپیٹوں سےرُوح کو حرارت اور فکر کو تمازت مہیا کی جائے۔جس قلم و قرطاس سے رشتہ ماضی میں ٹوٹ چُکا تھا، اب اس کے ساتھ دوبارہ شبِ عُروسی منا چُکا ہوں۔ جو متاع کبھی گُم گشتہ تھی اب اس کا سراغ پانے میں محوِ کاوش ہوں۔اب میری انتہائے آرزو یہی ہے کہ یہ طائرِ بے منزل ذوقِ خامہ فرسائی کی آبِ تیغ سے گھائل ہوتا رہے اور اس چمن میں اس بُلبلِ مضطرب کی نغمہ سرائی نا محرمِ گوش نہ رہے۔منزل کٹھن سہی، لیکن خارِ راہ سے آبلہ پا ہو کر درد اور تکلیف جھیلنے میں جو لذت اور راحت ہے وہ سرِ راہ تماش بین بنے رہنے میں کہاں۔
اسی تڑپ نے آج اردو محفل کے ورق تک پہنچا دیا ہے، اُمید کرتا ہوں کہ چراغِ اُردو کو گُل نہ ہونے دوں۔
اُردو زبان کی لازمی اور رواجی تعلیم ایف ایس سی تک کالج میں حاصل کی۔ایک ایسا ماحول جہاں ہر شخص ڈاکٹر یا انجئنیر بننے کا خواہاں ہو،شعور و آگہی سے زیادہ نمبروں کی اندھا دھند میراتھن کا غلغلہ ہو،سائنسی مضامین کی اہمیت پر بے پناہ زور ہو، وہاں زبان و ادب کی خوبصورتی گہنا جاتی ہے۔امتحانات کے جاں گسل مرحلے سے جب کچھ فراغت میسر آئی تو اردو نثر کی کتب بینی کا موقعہ مل گیا، جسے نعمت غیر مترقبہ جانتے ہوئے مقدور بھر کسب فیض کی کاوش کی۔ گاہے بگاہے اپنے احساسات کو بھی پیرایہء نثر میں قلم بند کرنے کی کوشش کی۔شاید یہ سلسلہ جاری رہتا لیکن میری تعلیم کا دھارا اب ایسا موڑ مڑنے جا رہا تھا کہ زبان و ادب سے تمام علاقے منقظع ہونے جا رہے تھے۔ بی ایس سی میں اردو زبان کی تدریس لازم نہ تھی اور دوبارہ کالج میں داخلے کے بعد تعلیم کا بار، خود کفالتی کی ذمہ داریاں،بحرِ کیمیا میں تلاشِ گوہرِعلم کے لیے آب بازی اور کچھ کسالت مزاجی کے باعث اردو کی جن حسین و جمیل وادیوں میں کبھی محوِ خراماں تھا، وہ سفرِ حیات میں دُور کہیں بہت دُور رہ گئیں تھیں۔میں اب نئی منازل کی تلاش میں بالکل مختلف راستوں پر گامزن تھااور یہ بھی معلوم نہ تھا کہ زندگی کی گاڑی کبھی اس چمنستان کے قرب و جوار سے بھی گُزرپائے گی یا نہیں۔ اِسی خود فراموشی میں تقریبًا دو دہائیاں گردشِ ایّام کی نذر ہو گئیں۔دستِ کیمیا گر جو اَب کیمیا بازی میں عناصر و مرکبات کی ترکیبوں کو تجربات کی بھٹی میں افشا کرنے کے خُوگر ہو چُکے تھے، وہ اب تراکیب زبان سے ناشناش تھے۔
کیمیائی مرکبات کی تیز و تند بُو -جو کبھی کبھی اپنی شدید تاثیر کے باعث دماغ کو ماؤف کر دیتی تھی-نےگلستانِ اُردو کے گُل ہائے معطر کی دل آویز مہک کو ذہن سے محو کر دیا تھا۔فکر و نظر جو اب اُس انتہائی چھوٹی سی دُنیا –جو ایٹم اور سالمات کے قلب میں مستور ہے –میں موجود انسان کی حسِ باصرہ اور خوردبینی نگاہ سے اوجھل ذرات کے رقص کو محسوس کر لیتی تھی، لیکن دل کی اتھاہ گہرائیوں سے بلند ہونے والے نغمات اس کی حسِ سماعت کو منفعل نہ کرتے تھے۔علم و حرفت کے شاہکار آلاتِ جدید جو ذرّات کی دُنیا میں وُقوع پذیر ہونے والے معمولی سے معمولی حوادث و واقعات کا سُراغ لگانے میں میرے ممد و معاون تھے، جذبات و احساسات میں برپا ہونے والے تلاطم کی کوئی خبر دینے سے قاصر تھے۔میری زندگی کا سفینہ جو کبھی جُوئے اردو میں تیر رہا تھا، اب جمود و تعطل کا شکار تھااور مدت ہائے دراز سے رُک چکا تھا اورمیرے لیے اس رواں دواں ندی کا پانی آب بستہ ہو چُکا تھا۔ایک طرف وسیع تر تجربات کی آزمائش کے بعد ثابت شدہ سائنسی قوانین و عقائد تھے، جن کا اطلاق ذرات کے سینہ کو پھاڑ کر قوت و توانائی کا ہمالہ بہم پہنچا رہا تھا، لیکن دُوسری طرف یہ انسان کی انانیت اور خود سری کے سخت پتھروں میں چھید کرنے سے قاصر تھے۔اس محیر العقول اور عظیم الشان عملِ انشقاق کی بدولت ایک طرف انسان مادے کو توانائی میں تبدیل کر رہا تھااور اس عمل کی چکاچوند روشنیاں انسان کی نگاہوں کو خیرہ کرتے ہوئےعالم صُغریٰ کو بُقعہ نُور بنا رہی تھیں۔لیکن اس کے برعکس، عقل و شعور اورعلم و آگہی کے خورشید کی وہ تابانی جو ذرّے کو آفتاب بناتی ہیں، انسان کے فکر و نظر کے گھر میں اُجالے کا پیغام لاتی ہیں اس کے قلب و رُوح ابھی اُس کی شعاع ریزی سے محروم تھے۔انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی آئینہ دار عظیم ایجادات اور دریافتیں ،سورج کی شُعاعوں کو قید کر کے اس کا معیارِ زندگی بلند سے بلند تر کرنے میں مگن تھیں۔لیکن صُبحِ صادق کی وہ کرن جو انسانیت کی شبِ تاریک کو سحر کرتی اور جس کی روشنی میں مہرِ تاب کے نور کا صیاد اپنے افکار کی دنیا کا مسافر بنتا، نہ جانے کہاں تھی؟
۹نومبر ۲۰۱۴ کا دن یادگار رہے گا۔ دیارِ غیر میں مقیم کچھ ہم وطنوں نےیومِ اقبال کی مُناسبت سے ایک تقریب کا اہتمام کیاجس کی خبر سُنتے ہی دل ایک خوشگوار حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔آخر کیوں نہ ڈوبتا؟ غیر وطنی کے گیارہ سالوں میں پہلی بارایسا موقع آیا تھا۔اِس خاکسار کو بھی اپنی قومی زُبان میں لب کُشائی کا موقعہ مِل گیا۔شاعرِ مشرق کی شان میں بے ساختہ کچھ یُوں رطب اللسان ہُوا۔
" اقبال کی شاعری کے بغیر اُردو زبان ایسے ہے جیسے جِسم رُوح کے بغیر، آشیانہ سائبان کے بغیر، شجر جڑ کے بغیر، چَمن گُل کے بغیراور گُل مہک کے بغیر۔ کُلیاتِ اقبال کو اُردو سے خارِج کر دیا جائے تو یہ وہ نیام جِس میں تلوار نہیں، شیر جِس کی للکار نہیں، قوم جِس کے افکار نہیں، حُکمران جِس کا اختیار نہیں، سمندر جِس کی گہرائی نہیں،کُہسار جِس کی اُونچائی نہیں۔کلامِ اقبال کے بِنا اُردو ادب کی مثال وہ ندی جِس میں پانی نہ ہو، دریا جِس میں طُغیانی نہ ہو، تجسّس جِس میں حیرانی نہ ہو، فسانہ جِس میں کہانی نہ ہو، نظم جِس میں روانی نہ ہو، پِھر یہ وہ لفظ جِس کا کوئی معانی نہ ہو۔"
انسان کا بھی عجیب حال ہے، نشہء خود فراموشی سے سرشارہو تو بدیۂہ النظراشیاء کی ہستی واہمہ پر مُشتبہ ہو جائے اور مستیِ شوقِ جُستجومیں گرفتار ہو دُنیائے نامعلوم کے قصر ِغیر محسوس میں نقب زنی کرتا پھرے۔کبھی واضح اور صریح حقائق پردہِ نگاہ سے اوجھل ہو جائیں اور کبھی عظیم الوسعت کائنات کے راز طشت از بام کر دے۔اُردو کے باب میں کچھ ایسا ہی معاملہ میرے ساتھ بھی ہُوا،دو دہائیاں اس طرح گُزرئیں جیسے میں اس کُوچے میں سدا سے اجنبی تھا۔اب جو کلامِ اقبال کی بابت رطبِ اللسان ہونے کا موقعہ ملا تو جو آگ بیس سال قبل بجھ چُکی تھی، اُس کی چنگاری دوبارہ بھڑکنے کے لئے تیار تھی۔
یومِ اقبال کی تقریب میں شرکت کے بعد سوچا کہ اگلے روز معمولات زندگی کا آغاز از سر نَو کیا جائے۔لیکن یاداشت تقریب کچھ اس طرح طبعیت پر چھا گئی کہ خود کو اقبالیات کے سحر اور کلام اقبال کے طلسم کدہ میں گرفتار پایا۔اب وہ کیفیت تھی کہ اقبال کی لیلٰیِ سخن وری کی اسیری زلف رسا سے فرار ممکن نہ تھا۔ جذبات کے سمندر میں جو مدوجزر برپا ہوا،تخیل و وجدان نے احساسات کی تلاطم خیز موجوں پر جن جزائر فکر و نظر کے لبوں کو بوسہ دیا،انہیں آشنائے نوک قلم کر دیا۔
اب جو آگ بھڑک ہی چُکی تھی تو میں بھی عزمِ مصمم کر چُکا تھا کہ اس بار عقلِ کیمیا گر کو ترکیبِ آتش کی سُراغرسانی میں بہکنے سے بچایا جائے ، بلکہ اس آگ کی لپیٹوں سےرُوح کو حرارت اور فکر کو تمازت مہیا کی جائے۔جس قلم و قرطاس سے رشتہ ماضی میں ٹوٹ چُکا تھا، اب اس کے ساتھ دوبارہ شبِ عُروسی منا چُکا ہوں۔ جو متاع کبھی گُم گشتہ تھی اب اس کا سراغ پانے میں محوِ کاوش ہوں۔اب میری انتہائے آرزو یہی ہے کہ یہ طائرِ بے منزل ذوقِ خامہ فرسائی کی آبِ تیغ سے گھائل ہوتا رہے اور اس چمن میں اس بُلبلِ مضطرب کی نغمہ سرائی نا محرمِ گوش نہ رہے۔منزل کٹھن سہی، لیکن خارِ راہ سے آبلہ پا ہو کر درد اور تکلیف جھیلنے میں جو لذت اور راحت ہے وہ سرِ راہ تماش بین بنے رہنے میں کہاں۔
اسی تڑپ نے آج اردو محفل کے ورق تک پہنچا دیا ہے، اُمید کرتا ہوں کہ چراغِ اُردو کو گُل نہ ہونے دوں۔