حضور انور بندہ پرور ہم پشاور سے اسلام آباد جاتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں آپ تو انڈیا کی بات کررہے ہیں واہ کیا خوبصورت مذاق ہےایسے تمام احباب، بہن بھائیوں کو، جو خاکسار کو نہیں جانتے،بلا اجازت ٹیگ کرنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ آپ سبھوں تک سیمنار کی اطلاع پہنچ جائے، یہ مطمع نظر تھا
راشد اشرف زندہ باد۔ ادھر تین چار سال سے ابن صفی کو بطور ادیب جو اہمیت حاصل ہو رہی ہے، اس کا سہرا راشد اشرف کے سر ہی بندھتا ہے۔ وہ اردو بک رویو، آمد یا شاعر کا گوشہ ہے، ابن صفی پر کتابیں ہوں یا سیمنار۔ ان کے احیاء کے لئے وہی محرک رہے ہیں۔
(مذکورہ گجراتی مضمون کا اردو ترجمہ)نورجہاں، لتا، رفیع، مکیش کے ساتھ ہی ابن صفی کے جاسوسی ناولوں نے بھی دونوں ملکوں (ہندوپاک) کو ایک ایسے رشتے میں باندھ رکھا جو اٹوٹ ہے۔
ہندوپاک کے مابین ایسے بہت سے رشتے اور روابط ہیں جن کے سبب 64 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اور چند عناصر کی مخالف کوششوں کے باوجودبھی ہمارے سرحدوں کے بیچ آسمان کو چھو لینے والی کوئی دیوار تعمیر نہیں ہو سکی۔ ہواؤں، جانوروں، پرندوں اور تحریری ادب نےایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر بدستور جاری رکھا۔پہلے فلمیں ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی تھیں۔ اور اب ٹیلی ویژن چینلوں نے تمام سرحدی خطوط کو گویا مٹا کر رکھ دِیا ہے۔تقسیم ملک کے پہلے ہی دن سے ریڈیو، راگ راگنی کی باتوں نے دونوں ملکوں کے عوام کو ایک مضبوط رِشتے میں باندھ رکھا۔لڑائی جھگڑے جیسی کوئی بات پیدا ہوتی تو کڑوی اور تلخ ترش باتیں بھی ہوتیں۔لیکن سال چھ ماہ کا عرصہ گزرتے گزرتے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے عوام لتا، مکیش، رفیع اور نورجہاں کے گیتوں سے اپنے دلوں کو بہلانے لگتے۔
یقینا یہی ہوگا کہ مقالہ ان کی جانب سے وضع و مقرر کردہ تمام شرائط اور معیار پر پورا اترے گا تبھی وہ اسے قبول کریں گے۔ یہ اور بات ہے کہ خاکسار کو اس بات کا گمان ہے کہ وہ جو کچھ لکھے گا، کم از کم اسے پڑھنے کی حد تک تو درخور اعتنا جانا جائے گا اور ایک امکان اور امید ہے کہ یہ ان کے معیار پر پورا بھی اترے۔ باقی اللہ مالک ہے۔
[/USER]
ہندوستان کی ادبی کانفرنسوں اور سیمیناروں کی یہ روایت رہی ہے کہ جب کبھی مدعو اسکالرز کی تعداد اس قدر زیادہ ہو جاتی ہے کے متعینہ محدود وقت میں تمام اسکالرز سے ان کے تحقیقی مقالات پڑھوانا دُشوار ہو جاتا ہے تب متبادل طریقہ کار کے طور پر یہ کیا جاتا ہے کہ ہر اسکالرز کو اپنے مقالے کی تلخیص پیش کرنے کا موقع دِیا جاتا ہے۔ اب اگر اسکالرز نے پہلے سے تلخیص تیار نہ کی ہو تو سیمینارمیں جب ان کا نام پکارا جائے عین اس وقت ان کے لیے اپنے مقالے کی تلخیص کرنا ایک دُشوار امر ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا 400 الفاظ میں دس-بیس کی کمی بیشی سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔چونکہ آپ پڑوسی ملک سے تشریف لائیں گے، لہذا ہو سکتا ہے آپ کے ساتھ تلخیص پیش کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ اور آپ کو اپنا مکمل مقالہ پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ البتہ 400 سے 450 نہ ہونے پائیں اس بات کا خیال رکھیےگا۔ اس ناچیز کے پاس بھی ابن صفی کے ایک سو سے زائد ناولوں کی پی۔ڈی۔ایف فائلز موجود ہیں۔ بچپن میں یہ ناول خوب پڑھے ہیں۔ اب تو بہت کچھ یاد بھی نہیں رہا۔ البتہ کسی آسان سے موضوع پر طبع آزمائی میں اگر کامیابی حاصل ہوئی تو ممکن ہے شرکت کی کوشش ہم بھی کریں۔ چونکہ آپ کا مطالعہ تازہ بہ تازہ ہے، لہٰذا حسب ضرورت آپ سے مشورہ بھی کر لیں گے۔بہرحال میں نے تین ممکنہ عنوانات میں سے ایک عنوان کو منتخب کیا ہے۔ کام کررہا ہوں۔ پھر ایک شرط یہ ہے کہ مقالے کی تلخیص 400 الفاظ پر مشتمل ہو۔ یہ پڑھ کر پہلے گڑبڑا گیا تھا لیکن جب لکھنے بیٹھا تو 400 الفاظ سے آگے ہی نکل گیا تھا۔
باقی شرائط یہ ہیں کہ مقالہ 14 ان پیج صفحات پر مشتمل ہونا چاہیے، فونٹ سائز 14 اور متن نوری نستعلیق میں ہو۔ ان سب پر پورا اترنا تو ہم ایسے شخص کے لیے نہایت آسان ہے جس نے اپنی کتابیں خود ٹائپ و کمپوز کی ہو۔
تلمیذ
راشد اشرف بھائی کیا خیال ہے۔ ہندوستان سے آپ کی واپسی پر محفل پر آپ کی نگرانی میں ابنِ صفی پر ایک مذاکرہ منعقد نہ کروالیا جائے؟