دو سوال

السلام علیکم
احباب اور اساتذہ ، دو سوالات ، دورانِ مطالعہ میرے ذہن میں آئے اور میں خود کو کوئی تشفی بخش جواب نہیں دے پایا۔ آپ تمام احباب کی رائے اور رہنمائی درکار ہے۔ ممنون فرمائیں۔
1۔ کیا یہاں چوتھے شعر کے مصرع ثانی میں قوافی درست ہیں ؟
یوں ہر گلی کنارہ کش و چشم پوش ہے
جیسے ہمارا گھر سے نکلنا گناہ ہو
منبر میں ایسا لحن ہے ایسا سروش ہے
جیسے ہمارا نامہء رندی سیاہ ہو
یوں دن گزر رہےہیں کہ فردا نہ دوش ہے
اے اعتبار وقت معین نگاہ ہو
اب تک قتیل ناوک یاراں میں ہوش ہے
اے دوستوں کی مجلس شوریٰ صلاح ہو
مصطفٰی زیدی

2۔ جون ایلیا کے ان اشعار کا مطلب ہی سمجھ نہیں آیا۔
بے احوالی کی حالت ہے شاید یا شاید کہ نہیں
پُر احوالیت برپا ہے، اللہُ ے باڑے میں !

مختاری کے لب "سلوانا" جبر عجب تر ٹھہرا ہے
ہیجانِ غیرت برپا ہے، اللہُ کے باڑے میں !

ویسے ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ پوری غزل ہی سر پر سے گزر گئی!
الف عین سر
راحیل فاروق بھائی
محمد وارث بھائی
اور دیگر احباب
 
1۔ کیا یہاں چوتھے شعر کے مصرع ثانی میں قوافی درست ہیں ؟
یوں ہر گلی کنارہ کش و چشم پوش ہے
جیسے ہمارا گھر سے نکلنا گناہ ہو
منبر میں ایسا لحن ہے ایسا سروش ہے
جیسے ہمارا نامہء رندی سیاہ ہو
یوں دن گزر رہےہیں کہ فردا نہ دوش ہے
اے اعتبار وقت معین نگاہ ہو
اب تک قتیل ناوک یاراں میں ہوش ہے
اے دوستوں کی مجلس شوریٰ صلاح ہو
مصطفٰی زیدی
اختلافِ روی قافیہ کے قبیح ترین عیوب میں سے ایک ہے۔ اسے اکفا کہا جاتا ہے۔ روایت اور طبعِ سلیم اسے کسی صورت گوارا نہیں کرتے مگر جدت پسندوں کا اصل میں ان دونوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔
2۔ جون ایلیا کے ان اشعار کا مطلب ہی سمجھ نہیں آیا۔
بے احوالی کی حالت ہے شاید یا شاید کہ نہیں
پُر احوالیت برپا ہے، اللہُ ے باڑے میں !

مختاری کے لب "سلوانا" جبر عجب تر ٹھہرا ہے
ہیجانِ غیرت برپا ہے، اللہُ کے باڑے میں !
جونؔ کے کمالات کا انکار دشوار نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ مگر وہ بہت زیادہ پڑھے لکھے تھے، آدھے سے زائد پاگل تھے اور پھر بلا کے خودپرست تھے۔ اس لیے واہی تباہی بکنا اکثر جگہوں پر موصوف نے نہ صرف اپنا حق سمجھا ہے بلکہ اسے بجائے خود کمال خیال کیا ہے۔
یہ اشعار میرے لیے بھی ان کے بہت سے اور اشعار کی طرح ناقابلِ فہم ہیں۔ بلکہ الٹا میری درخواست اہلِ محفل سے ہو گی کہ ان کے ایک مشہور شعر کا مفہوم ناچیز پر واضح فرمائیں جس پر میں نے ہر جونؔ پرست کو بلا تفریقِ رنگ و نسل و عقل وغیرہ سر دھنتے دیکھا ہے۔
حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی​
 
اختلافِ روی قافیہ کے قبیح ترین عیوب میں سے ایک ہے۔ اسے اکفا کہا جاتا ہے۔ روایت اور طبعِ سلیم اسے کسی صورت گوارا نہیں کرتے مگر جدت پسندوں کا اصل میں ان دونوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔

جونؔ کے کمالات کا انکار دشوار نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ مگر وہ بہت زیادہ پڑھے لکھے تھے، آدھے سے زائد پاگل تھے اور پھر بلا کے خودپرست تھے۔ اس لیے واہی تباہی بکنا اکثر جگہوں پر موصوف نے نہ صرف اپنا حق سمجھا ہے بلکہ اسے بجائے خود کمال خیال کیا ہے۔
یہ اشعار میرے لیے بھی ان کے بہت سے اور اشعار کی طرح ناقابلِ فہم ہیں۔ بلکہ الٹا میری درخواست اہلِ محفل سے ہو گی کہ ان کے ایک مشہور شعر کا مفہوم ناچیز پر واضح فرمائیں جس پر میں نے ہر جونؔ پرست کو بلا تفریقِ رنگ و نسل و عقل وغیرہ سر دھنتے دیکھا ہے۔
حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی​
سچ مانئے راحیل بھائی میں بھی اس بات متفق ہوں۔
اور ہاں جون واقعی بہترین شاعر اور بلا کے خود پرست تھے۔:p
 

La Alma

لائبریرین
جون ایلیا کے ان اشعار کا مطلب ہی سمجھ نہیں آیا۔
بے احوالی کی حالت ہے شاید یا شاید کہ نہیں
پُر احوالیت برپا ہے، اللہُ ے باڑے میں !
خدا کی ایک صفت "صمد" بھی ہے . یہ اس کی بے نیازی اور بے پروائی کی انتہا ہے کہ وہ اس" پر احوالیت" سے بے نیاز ہے اور اس کا شمار شاید بے احوالی میں ہو .
مختاری کے لب "سلوانا" جبر عجب تر ٹھہرا ہے
ہیجانِ غیرت برپا ہے، اللہُ کے باڑے میں !
قادرِ مطلق اور مختارِ کل ہونے کے باوجود زمانے میں روا ظلم و بربریت اورنا انصافی پر کیا خدا کی" خاموشی " معنی خیز نہیں. مجھے تو اس شعر میں نعوذ باللہ طنز جھلکتا محسوس ہو رہا ہے. واللہ اعلم .
 

La Alma

لائبریرین
ان کے ایک مشہور شعر کا مفہوم ناچیز پر واضح فرمائیں جس پر میں نے ہر جونؔ پرست کو بلا تفریقِ رنگ و نسل و عقل وغیرہ سر دھنتے دیکھا ہے۔
حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی​
دوسرا "حال" شاید وجد ، 'حال آنا' کے معنوں میں لیا گیا ہے . یعنی حالتِ وجد یا بے خودی کی کیفیت میں حقیقتِ حال سے بے خبری کی طرف اشارہ ہے . آگے آپ خود سمجھدار ہیں .
 

امان زرگر

محفلین
المعنى في بطن الشاعر . یہ مفاہیم میں نے بحثیت قاری اپنے زاویہِ نظر سے اخذ کیے . دوسرے کسی اور نہج پر بھی سوچ سکتے ہیں .
جون ایلیا کی شخصیت اور ان کے اسلوب کو اگر بنیاد بنایا جائے تو یقیناََ آپ کے اخذ کردہ معانی درست معلوم ہوتے ہیں۔
جون ایلیا کو اقدار شکن، نراجی اور باغی کہا جاتا ہے۔ ان کا حلیہ، طرزِ زندگی، حد سے بڑھی ہوئی شراب نوشی، اور زندگی سے لاابالی رویے بھی اس کی غمازی ہوتی تھی۔ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس طرزِ زندگی کو اپنے فن کی شکل میں ایسے پیش کیا شخص اور شاعر مل گئے اور کہ من تو شدی و تو من شدی والی کیفیت پیدا ہو گئی۔
تم بنو رنگ، تم بنو خوش بُو ہم تو اپنے سخن میں‌ ڈھلتے ہیں
اور اس سخن میں وہ یوں ڈھلے کہ جیسا باغیانہ رویہ انھوں نے دنیا سے اپنایا تھا وہ محبوب سے بھی اختیار کر لیا:
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا؟
 
خدا کی ایک صفت "صمد" بھی ہے . یہ اس کی بے نیازی اور بے پروائی کی انتہا ہے کہ وہ اس" پر احوالیت" سے بے نیاز ہے اور اس کا شمار شاید بے احوالی میں ہو .

قادرِ مطلق اور مختارِ کل ہونے کے باوجود زمانے میں روا ظلم و بربریت اورنا انصافی پر کیا خدا کی" خاموشی " معنی خیز نہیں. مجھے تو اس شعر میں نعوذ باللہ طنز جھلکتا محسوس ہو رہا ہے. واللہ اعلم .
وللہ اعلم۔
ویسے دونوں اشعار میں آپ کی کی گئی تشریح کا کوئی لطیف اشارہ تک موجود نہیں ہے۔
دوسرا "حال" شاید وجد ، 'حال آنا' کے معنوں میں لیا گیا ہے . یعنی حالتِ وجد یا بے خودی کی کیفیت میں حقیقتِ حال سے بے خبری کی طرف اشارہ ہے . آگے آپ خود سمجھدار ہیں .
پھر وہی بات کہ معنی در بطنِ شاعر۔
اس 'وجد' کا بھی کوئی سراغ اس بیان سے تو ملتا نہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ بڑے شاعر سے تو بحث بھی نہیں کر سکتے۔ اوپر سے جانب "جنّت نشین" بھی ہو چکے ہیں۔ ویسے یقین ہے کہ ان کی حیات میں بھی یہ جراءت کسی نے نہیں کی ہوگی !
 
جون ایلیا کی شخصیت اور ان کے اسلوب کو اگر بنیاد بنایا جائے تو یقیناََ آپ کے اخذ کردہ معانی درست معلوم ہوتے ہیں۔
جون ایلیا کو اقدار شکن، نراجی اور باغی کہا جاتا ہے۔ ان کا حلیہ، طرزِ زندگی، حد سے بڑھی ہوئی شراب نوشی، اور زندگی سے لاابالی رویے بھی اس کی غمازی ہوتی تھی۔ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس طرزِ زندگی کو اپنے فن کی شکل میں ایسے پیش کیا شخص اور شاعر مل گئے اور کہ من تو شدی و تو من شدی والی کیفیت پیدا ہو گئی۔
تم بنو رنگ، تم بنو خوش بُو ہم تو اپنے سخن میں‌ ڈھلتے ہیں
اور اس سخن میں وہ یوں ڈھلے کہ جیسا باغیانہ رویہ انھوں نے دنیا سے اپنایا تھا وہ محبوب سے بھی اختیار کر لیا:
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا؟
کافی حد تک متفق ہوں آپ سے۔
شاید کچھ اشعار کے معنی اور شرح کے لئے الفاظ نہیں شخصیت کو کنگھالنا پڑتا ہے !
اور معنی تک رسائی کی شرط پھر بھی پوری نہیں ہوتی !
 

امان زرگر

محفلین
حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی​
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی​

جہاں تک میرا خیال ہے شاعر کی مراد یہ ہے کہ بے خودی اور استغراق کی کیفیت (یعنی موجود کی وہ صفت جو نہ موجود ہے نہ معلوم یعنی وجود اور عدم کی درمیانی کیفیت)
کے سبب جو ذاتی و واقعی تجربہ، حقیقی حالت، درونی کیفیت، وارداتِ قلبی تھیں وہ بھی ختم ہو گئیں
شوق یعنی طلبِ حق میں کچھ نہیں کھویا بس چاپ، چسکا، لت (اب یہ دنیا کا بھی ہو سکتا ہے یا شراب یا عشق وغیرہ) ختم ہو گئی یا طلب حق کا نتیجہ یہ ہوا کہ من چاہی بھی گئی
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
پہلے سوال کا جہاں تک تعلق ہے تو وجہ یہ ہے کہ عربی فارسی کے کچھ ایسے حروف ہیں جو ہم برصغیر کے باسی صحیح طور پر تلفظ نہیں کر پاتے اور ان کی آواز کسی دوسرے حرف سے جا ملتی ہے، مثلا عین ع، اس کو یہاں صحیح مخرج اور تلفظ کے ساتھ وہی ادا کر سکتا ہے جو قاری ہو یا کسی مدرسے کا طالب علم ہو، ورنہ یہ سیدھا الف کی آواز دیتا ہے۔ اسی لیے کچھ جدید شعرا عین اور الف کا امتیاز روا نہیں رکھتے سو ان کو قافیے میں متبادل کے طور پر لے لیتے ہیں یا عین کو الف کی طرح گرا دیتے ہیں، یا عین پر بھی وہی عروضی حکم صادر کر دیتے ہیں جو الف پر لاگو ہوتے ہیں، جیسے افتخار عارف

تم بھی افتخار عارف
بارھویں کھلاڑی ہو

اس میں پہلے مصرعے کی عارف کی عین کا اسقاط کرایا گیا ہے جو کہ سراسر الف سے لازم ہے یعنی عین کو الف سمجھا گیا ہے، کیونکہ ہم تلفظ ایک جیسا کرتے ہیں۔

یہی کچھ مصطفی زیدی نے کیا ہے، ح اور ہ کی آوازیں ہم ایک ہی تلفظ کرتے ہیں، سو صلاح کو گناہ، سیاہ، نگاہ کے ساتھ قافیہ بنا لیا ہے۔ کلاسیکی شاعری میں یہ بڑا عیب تھا، لکھا ہوا پڑھنے میں اب بھی بھدا ہے، لیکن سنتے ہوئے پتا بھی نہیں چلتا :)
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ ان قوافی کو صوتی قوافی کہتے ہیں جو مصطفیٰ زیادی نے استعمال کیے ہیں۔
اگر جون صاحب برائے اصلاح یہ اشعار میری خدمت میں پیش کرتے تو ان سے بھی یہی کہتا کہ میری عقل ناقص میں سما نہیں سکے۔’غزل بدر‘ کرو۔
 
پہلے سوال کا جہاں تک تعلق ہے تو وجہ یہ ہے کہ عربی فارسی کے کچھ ایسے حروف ہیں جو ہم برصغیر کے باسی صحیح طور پر تلفظ نہیں کر پاتے اور ان کی آواز کسی دوسرے حرف سے جا ملتی ہے، مثلا عین ع، اس کو یہاں صحیح مخرج اور تلفظ کے ساتھ وہی ادا کر سکتا ہے جو قاری ہو یا کسی مدرسے کا طالب علم ہو، ورنہ یہ سیدھا الف کی آواز دیتا ہے۔ اسی لیے کچھ جدید شعرا عین اور الف کا امتیاز روا نہیں رکھتے سو ان کو قافیے میں متبادل کے طور پر لے لیتے ہیں یا عین کو الف کی طرح گرا دیتے ہیں، یا عین پر بھی وہی عروضی حکم صادر کر دیتے ہیں جو الف پر لاگو ہوتے ہیں، جیسے افتخار عارف

تم بھی افتخار عارف
بارھویں کھلاڑی ہو

اس میں پہلے مصرعے کی عارف کی عین کا اسقاط کرایا گیا ہے جو کہ سراسر الف سے لازم ہے یعنی عین کو الف سمجھا گیا ہے، کیونکہ ہم تلفظ ایک جیسا کرتے ہیں۔

یہی کچھ مصطفی زیدی نے کیا ہے، ح اور ہ کی آوازیں ہم ایک ہی تلفظ کرتے ہیں، سو صلاح کو گناہ، سیاہ، نگاہ کے ساتھ قافیہ بنا لیا ہے۔ کلاسیکی شاعری میں یہ بڑا عیب تھا، لکھا ہوا پڑھنے میں اب بھی بھدا ہے، لیکن سنتے ہوئے پتا بھی نہیں چلتا :)
درست فرمایا آپ نے ۔
صد فی صد متفق ہوں۔
 
مزید یہ کہ ان قوافی کو صوتی قوافی کہتے ہیں جو مصطفیٰ زیادی نے استعمال کیے ہیں۔
اگر جون صاحب برائے اصلاح یہ اشعار میری خدمت میں پیش کرتے تو ان سے بھی یہی کہتا کہ میری عقل ناقص میں سما نہیں سکے۔’غزل بدر‘ کرو۔
اب کیا کہوں سر !!:D
 
Top