محمدظہیر
محفلین
میں نے انگریزی میں ایک آرٹیکل لکھا تھا، اس کا لب لباب اردو میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں.
علوم دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک کو tacit علم کہا جاتا ہے دوسرے کو explicit. ٹیسِٹ علم وہ ہے جو آسانی سے سمجھا نہیں جا سکتا کیوں کہ یہ ذہنوں میں ہوتا ہے، explicit علم وہ ہوتا ہے جو آسانی سے محفوظ کیا جا سکتا ہے اور اسے الفاظ کی شکل دینا اتنا مشکل کام نہیں ہے.
بچہ جب نصابی کتاب ہاتھ میں لیتا ہے تو اس کے سامنے ٹیسِٹ علم کو کتابی شکل دے کر ایکسپلسٹ بنا گیا علم ہوتا ہے. اس لیے اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کو spoon feeding نہ کرائیں بلکہ کتابیں سمجھنے میں مدد کریں.
اکثر دیکھا گیا ہے کہ اساتذہ کتاب سے واقف کرا کر کتاب پڑھنے پر زور دینے کے بجائے کتابمیں موجود کانسپٹ سمجھانے پر توجہ دیتے ہیں، نتیجتاً طالب علم کتابوں میں موجود علم سے براہ راست فائدہ نہیں اٹھا سکتا.
انسٹرکٹر یا ٹیچر کا پہلے خود کتاب سمجھنا، پھر اسے اپنے طالب علموں تک پہنچانا ایک طرح سے کافی دشوار کن مرحلہ ہوتا ہے جس میں مقصد علم یا وہ کانسپٹ جو سمجھانا مقصود ہو اس کے ڈائلیوٹ ہونے کے خدشات بہت ہوتے ہیں. کیوں کہ پیلے ہی ٹیسِٹ علم، کتاب میں ایکسپلسٹ کی شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے اب اسے دوبارہ سمجھ کر طالب علموں کو سمجھانا ہضم کیا ہوا کھانا اپنے اسٹوڈنٹس کو ہضم کروانے کے مترادف ہے.
انسٹرکٹر کو اس لیے چاہیے کہ پہلے طالب علموں کو کتاب پڑھنے کا طریقہ سکھائیں تاکہ وہ خود سے سمجھنے کی کوشش کریں. اس کے کئی فوائد ہیں. ایک تو طالب علم براہ راست کتاب سے بغیر کسی اور میڈیم کے علم حاصل کرتا ہے جس سے original thoughts کے قریب قریب ہوتا ہے. دوسرا فائدہ یہ ہے کہ طالب علم اسی کتاب کے مصنف کی دیگر کتابوں کو کنکٹ کر کے پڑھ سکتا ہے اور سمجھنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی. تیسرا فائدہ یہ ہے کہ کتاب پڑھنا سمجھا کر استاد، طالب علم کو خود مختار بنا دیتا ہے. وہ کسی ذریعے کا محتاج نہیں ہوتا. چوتھا فائدہ یہ ہے کہ طالب علم دوسرے کانسپٹ بھی اسی طرح سمجھنے لگتا ہے اور ٹیسِٹ علم، جو کہ مصنف کے اصل خیالات ہوتے ہیں اس کو پا لیتا ہے.
جدید تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب بچہ مشکل کانسپٹ کو خود سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے ذہن کے نیوٹرل پاتھ وے کھل جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زیادہ ہشیار( انٹیلیجنٹ ) ہوتا ہے.
علوم دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک کو tacit علم کہا جاتا ہے دوسرے کو explicit. ٹیسِٹ علم وہ ہے جو آسانی سے سمجھا نہیں جا سکتا کیوں کہ یہ ذہنوں میں ہوتا ہے، explicit علم وہ ہوتا ہے جو آسانی سے محفوظ کیا جا سکتا ہے اور اسے الفاظ کی شکل دینا اتنا مشکل کام نہیں ہے.
بچہ جب نصابی کتاب ہاتھ میں لیتا ہے تو اس کے سامنے ٹیسِٹ علم کو کتابی شکل دے کر ایکسپلسٹ بنا گیا علم ہوتا ہے. اس لیے اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کو spoon feeding نہ کرائیں بلکہ کتابیں سمجھنے میں مدد کریں.
اکثر دیکھا گیا ہے کہ اساتذہ کتاب سے واقف کرا کر کتاب پڑھنے پر زور دینے کے بجائے کتابمیں موجود کانسپٹ سمجھانے پر توجہ دیتے ہیں، نتیجتاً طالب علم کتابوں میں موجود علم سے براہ راست فائدہ نہیں اٹھا سکتا.
انسٹرکٹر یا ٹیچر کا پہلے خود کتاب سمجھنا، پھر اسے اپنے طالب علموں تک پہنچانا ایک طرح سے کافی دشوار کن مرحلہ ہوتا ہے جس میں مقصد علم یا وہ کانسپٹ جو سمجھانا مقصود ہو اس کے ڈائلیوٹ ہونے کے خدشات بہت ہوتے ہیں. کیوں کہ پیلے ہی ٹیسِٹ علم، کتاب میں ایکسپلسٹ کی شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے اب اسے دوبارہ سمجھ کر طالب علموں کو سمجھانا ہضم کیا ہوا کھانا اپنے اسٹوڈنٹس کو ہضم کروانے کے مترادف ہے.
انسٹرکٹر کو اس لیے چاہیے کہ پہلے طالب علموں کو کتاب پڑھنے کا طریقہ سکھائیں تاکہ وہ خود سے سمجھنے کی کوشش کریں. اس کے کئی فوائد ہیں. ایک تو طالب علم براہ راست کتاب سے بغیر کسی اور میڈیم کے علم حاصل کرتا ہے جس سے original thoughts کے قریب قریب ہوتا ہے. دوسرا فائدہ یہ ہے کہ طالب علم اسی کتاب کے مصنف کی دیگر کتابوں کو کنکٹ کر کے پڑھ سکتا ہے اور سمجھنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی. تیسرا فائدہ یہ ہے کہ کتاب پڑھنا سمجھا کر استاد، طالب علم کو خود مختار بنا دیتا ہے. وہ کسی ذریعے کا محتاج نہیں ہوتا. چوتھا فائدہ یہ ہے کہ طالب علم دوسرے کانسپٹ بھی اسی طرح سمجھنے لگتا ہے اور ٹیسِٹ علم، جو کہ مصنف کے اصل خیالات ہوتے ہیں اس کو پا لیتا ہے.
جدید تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب بچہ مشکل کانسپٹ کو خود سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے ذہن کے نیوٹرل پاتھ وے کھل جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زیادہ ہشیار( انٹیلیجنٹ ) ہوتا ہے.