اول
زیر نظر شمارے میں عالم نقوی صاحب کا مضمون "ادبی منافقت" شائع ہوا ہے جسے منسلک کردہ فائل میں بطور خاص شامل کیا گیا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے فیس بک پر کل فرمایا کہ یہ مضمون انہیں قطعی پسند نہیں آیا ہے۔
یہ پسند ناپسند کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ دیکھا جائے تو ساری دنیا ہی اسی پر چل رہی ہے۔ ایک چیز مجھے پسند آتی ہے تو کوئی اسے تنقید کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بہرحال، فیصلہ آپ قارئین کا۔
"ادبی منافقت" نقوی صاحب نے خاصی تحقیق کے بعد لکھا ہے، سطحی مطالعہ اس قسم کی تحریروں کو جنم نہیں دیتا۔ ایک لکھنے والے کی نظر چہار سو رہتی ہے۔
گلبن میں اس مرتبہ قارئین کے خطوط بھی تمام کے تمام دلچسپ ہیں۔ محبوب راہی کی خودنوشت کی ایک قسظ پڑھیے، یہ خودنوشت جلد ہی ہند سے شائع ہونے والی ہے۔ "میری ساٹھ کوسی پریکرما" نامی تحریر دو گھنٹوں کا سفرنامہ ہے۔ یا خدا! یہ سفرنامے بھی گھنٹوں کے حساب سے لکھے جانے لگے ہیں، یہ راقم کا اولین خیال تھا لیکن مطالعے کے بعد احساس ہوا کہ اس ماحول میں اس قسم کی تحریروں کی ایک خاص افادیت ہے۔
آخر میں ذکر رام پور کے ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کے ایک افسانے "حرافہ" کا جسے منسلک کردہ فائل میں خصوصی طور پر شامل کیا گیا ہے۔