دو نمبری جسارت :)

دل کی قندیل بجھی جائے ہے دھیرے دھیرے
اشک آنکھوں سے چھلک پائے ہے دھیرے دھیرے

فصل کاٹی ہے ببولوں کی جو من کے اندر
فصل یہ آپ بڑھی آئے ہے دھیرے دھیرے

"یہ محبت نہ کسی کام کا چھوڑے ہے اب"
سائیں بس نغمہ یہی گائے ہے دھیرے دھیرے

عشقِ حق کے سوا جس سُو بھی تُو بھٹکا پِھرے ہے
ایک دِن آپ تُو پچھتائے ہے دھیرے دھیرے
 

نایاب

لائبریرین
ناپنا تولنا استادوں کے کام ۔
ہمیں تو غرض صرف خیال سے ۔۔۔۔
اور کیا ہی خوب کہا محترم بٹیا نے ۔۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
بہت دعائیں
عشقِ حق کے سوا جس سُو بھی تُو بھٹکا پِھرے ہے
ایک دِن آپ تُو پچھتائے ہے دھیرے دھیرے
 
یہاں سے ''تو'' نکال دیں ۔۔بحر میں آجائے گا مصرعہ
مصرع تو وزن میں ہے لیکن ایک دن آپ تو پچھتائے ہے کا " ہے" غلط ہے۔ ہونا تو " گا" چاہیے۔ ردیف نبھانے کیلیے زبردستی ہے لگا دیا گیا ہے۔ اس غزل میں ردیف میں "ہے " کی بجائے" گا" ہوتا تو قدرے بہتر تھا
 
مصرع تو وزن میں ہے لیکن ایک دن آپ تو پچھتائے ہے کا " ہے" غلط ہے۔ ہونا تو " گا" چاہیے۔ ردیف نبھانے کیلیے زبردستی ہے لگا دیا گیا ہے۔ اس غزل میں ردیف میں "ہے " کی بجائے" گا" ہوتا تو قدرے بہتر تھا
لیکن سر باقی مصرعوں میں "گا" فٹ نہیں آ رہا
 
لیکن سر باقی مصرعوں میں "گا" فٹ نہیں آ رہا
مریم صاحبہ ایک مصرع کیلیے باقی مصروں اور باقی کیلیے ایک مصرع کو قربان گھاٹ پر چڑھانے کے چکر میں کیوں پڑیں۔ ان قوافی کے ساتھ آپکا ردیف گا کے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔ میری رائے ہے کہ آپ دوسرے اشعار کو بھی گا کے ردیف کے مطابق ہی ڈھالیں۔ آئے جائے گائے فعل مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، ان ساتھ گا ہی درست ہوتا ہے۔ باقی زبردستی کی بات ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ جوں جوں لکھتی رہیں گی آپ کی خود اعتمادی بڑھتی جائے گی۔
 
آخری تدوین:
Top