بدنام پاگل
محفلین
دو پل کی خوشی
دو پل کی خوشی۔۔ جیسے ہی یہ جملہ کانوں کو سنائی پڑتا ہے دل میں بے اختیار یہ خیال آتا ہے کہ یہ کیسی خوشی ہے جو صرف دو پل رہتی ہے کہیں ان دو پلوں کے ساتھ خوشی کی پرانی دشمنی تو نہیں جس کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ رہنا گوارا نہیں کرتی ۔
۔شاید !
رمضان شروع ہوتے ہی بچپن میں عید کو لے کر سہانے سپنے دل میں اپنی جگہ ڈھونڈنے کو بیتاب ہوجاتے تھے اور ہم حاتم طائی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ضرورت سے زیادہ جگہ اس کے لئے مہیا کر دیتے تھے
سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی تھی کہ عید آئے گی اور ہمیں سال بھر کی کمائی یعنی عیدی ملے گی جسے ہم اپنے طور پر بلا روک ٹوک خرچ کر سکیں گے
عید رات کو نیند آنکھوں سے بے وفائی کر جاتی تھی اور ہم اس عاشق کی طرح بستر پر کروٹیں بدل رہے ہوتے تھے جس کی عنقریب اپنی معشوقہ سے شادی ہونے والی ہو
کروٹیں بدلتے بدلتے کب نیند اپنی اغوش میں لیتی تھی احساس ہی نہیں ہوتا تھا
اور وہ لڑکا جو سال بھر صرف ڈانٹ پھٹکار پر اکتفا نہ کرتے ہوئے باقاعدہ ڈنڈے کھا کر آنکھوں کو کھولنے کی زحمت کرتا تھا اس وقت کسی کے پاؤں کی آہٹ پاتے ہی انکھیں کھول کر پوری طرح بیدار ہوجاتا تھا اور لگتا ہی نہیں تھا کہ رات میں یہ نیند سے لطف اندوز بھی ہوا ہے
بہر حال جیسے تیسے فجر ادا کرتے اور نہا دھو کر بالکل تیار ہوجاتے اس کے بعد اپنے بڑوں کے سامنے اس طرح جا کر کھڑے ہو جاتے جیسے وہ برسوں سے ہمارے قرض دار ہوں عیدی وصول کرکے سب کے ساتھ عید کی نماز ادا کرنے چلے جاتے اور جاتے ہوئے جیب میں اتنی دفعہ ہاتھ ڈالتے کہ جیسے عید جیب ہاتھ ڈالنے کیلیے ہی وجود میں آئی ہو
نماز ادا کرکے گھر کا راستہ اختیار کرنے کے بجئے اس میلہ کا رخ کرتے جہاں ہماری تسکیں کے سارے سامان موجود ہوتے تھے اور ہم کچھ لیتے اور کچھ صرف دیکھ کر چھوڑ دیتے کہ اس کو دوسرے چکر میں لے لیں گے
مگر دل اس وقت کلیجی ہوجاتا تھا جب گھر میں داخل ہوتے ہی امی کسی تھانے کی داروغہ کی طرح ہمارے پیسہ کو سرکاری دولت قرار دے کر اس پہ اہنی مہر لگا کر ذاتی بینک یعنی اپنے لاکر میں رکھ دیتی اور ہماری شکل بالکل اس فقیر کی طرح ہو جاتی تھی جس کی برسوں کی جمع کی ہوئی پونجی کونذر آتش کردیا گیا ہو ۔
شاید دوپل کی خوشی سے مراد اسی طرح کی خوشی ہوتی ہے ۔
اسی طرح ایک اور ادھوری خوشی کا احساس ہے جسے دو پل کی خوشی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہوتا کچھ یوں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ صبح کا وقت تھا آسمان اپنے مصنوعی پردے یعنی بادل کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا اور بارش کا پانی پورے آب و تاب سے زمین کو سیراب کر رہا تھا
بارش کا ہونا ہی تھا کہ دل میں خوشنما خیالات نے جنم لینا شروع کردیا تھا کہ اتنے دنوں بعد آخر اللہ نے ہماری سن ہی لی اور بارش کی شکل میں ہمیں ایک مسیحا عطا کردیا جس کی عنایت سے اب ہمیں نصف ناپسند مدرسہ کا راستہ نہیں اختیار کرنا پڑیگا ۔ ہونٹوں پر بھی چائے کی جگہ دعائیں رقص کر رہی تھیں جیسے جیسے وقت قریب آرہا تھا دل کی حرکتوں میں کسی بے قابو انجن کی طرح اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور صبح کا ناشتہ بھی اس خیال سے ترک کرنا پڑا کہ خدانخواستہ اس وقت اللہ کو ہمارا دعا چھوڑ کر پیٹ کی آگ بجھانا پسند نہ آئے اور بارش ہمارے لئے مدرسہ کا راستہ ہموار کر دے مگر تبھی آسمان اپنے چہرہ پر سورج لیے نمودار ہوتا ہے اور بادل مجبور ہوکر زمیں کو سیراب کرنا بند کردیتا ہے
اور یہ ٹھیک مدرسہ کی طرف روانگی کا وقت تھا
دو پل کی خوشی۔۔ جیسے ہی یہ جملہ کانوں کو سنائی پڑتا ہے دل میں بے اختیار یہ خیال آتا ہے کہ یہ کیسی خوشی ہے جو صرف دو پل رہتی ہے کہیں ان دو پلوں کے ساتھ خوشی کی پرانی دشمنی تو نہیں جس کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ رہنا گوارا نہیں کرتی ۔
۔شاید !
رمضان شروع ہوتے ہی بچپن میں عید کو لے کر سہانے سپنے دل میں اپنی جگہ ڈھونڈنے کو بیتاب ہوجاتے تھے اور ہم حاتم طائی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ضرورت سے زیادہ جگہ اس کے لئے مہیا کر دیتے تھے
سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی تھی کہ عید آئے گی اور ہمیں سال بھر کی کمائی یعنی عیدی ملے گی جسے ہم اپنے طور پر بلا روک ٹوک خرچ کر سکیں گے
عید رات کو نیند آنکھوں سے بے وفائی کر جاتی تھی اور ہم اس عاشق کی طرح بستر پر کروٹیں بدل رہے ہوتے تھے جس کی عنقریب اپنی معشوقہ سے شادی ہونے والی ہو
کروٹیں بدلتے بدلتے کب نیند اپنی اغوش میں لیتی تھی احساس ہی نہیں ہوتا تھا
اور وہ لڑکا جو سال بھر صرف ڈانٹ پھٹکار پر اکتفا نہ کرتے ہوئے باقاعدہ ڈنڈے کھا کر آنکھوں کو کھولنے کی زحمت کرتا تھا اس وقت کسی کے پاؤں کی آہٹ پاتے ہی انکھیں کھول کر پوری طرح بیدار ہوجاتا تھا اور لگتا ہی نہیں تھا کہ رات میں یہ نیند سے لطف اندوز بھی ہوا ہے
بہر حال جیسے تیسے فجر ادا کرتے اور نہا دھو کر بالکل تیار ہوجاتے اس کے بعد اپنے بڑوں کے سامنے اس طرح جا کر کھڑے ہو جاتے جیسے وہ برسوں سے ہمارے قرض دار ہوں عیدی وصول کرکے سب کے ساتھ عید کی نماز ادا کرنے چلے جاتے اور جاتے ہوئے جیب میں اتنی دفعہ ہاتھ ڈالتے کہ جیسے عید جیب ہاتھ ڈالنے کیلیے ہی وجود میں آئی ہو
نماز ادا کرکے گھر کا راستہ اختیار کرنے کے بجئے اس میلہ کا رخ کرتے جہاں ہماری تسکیں کے سارے سامان موجود ہوتے تھے اور ہم کچھ لیتے اور کچھ صرف دیکھ کر چھوڑ دیتے کہ اس کو دوسرے چکر میں لے لیں گے
مگر دل اس وقت کلیجی ہوجاتا تھا جب گھر میں داخل ہوتے ہی امی کسی تھانے کی داروغہ کی طرح ہمارے پیسہ کو سرکاری دولت قرار دے کر اس پہ اہنی مہر لگا کر ذاتی بینک یعنی اپنے لاکر میں رکھ دیتی اور ہماری شکل بالکل اس فقیر کی طرح ہو جاتی تھی جس کی برسوں کی جمع کی ہوئی پونجی کونذر آتش کردیا گیا ہو ۔
شاید دوپل کی خوشی سے مراد اسی طرح کی خوشی ہوتی ہے ۔
اسی طرح ایک اور ادھوری خوشی کا احساس ہے جسے دو پل کی خوشی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہوتا کچھ یوں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ صبح کا وقت تھا آسمان اپنے مصنوعی پردے یعنی بادل کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا اور بارش کا پانی پورے آب و تاب سے زمین کو سیراب کر رہا تھا
بارش کا ہونا ہی تھا کہ دل میں خوشنما خیالات نے جنم لینا شروع کردیا تھا کہ اتنے دنوں بعد آخر اللہ نے ہماری سن ہی لی اور بارش کی شکل میں ہمیں ایک مسیحا عطا کردیا جس کی عنایت سے اب ہمیں نصف ناپسند مدرسہ کا راستہ نہیں اختیار کرنا پڑیگا ۔ ہونٹوں پر بھی چائے کی جگہ دعائیں رقص کر رہی تھیں جیسے جیسے وقت قریب آرہا تھا دل کی حرکتوں میں کسی بے قابو انجن کی طرح اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور صبح کا ناشتہ بھی اس خیال سے ترک کرنا پڑا کہ خدانخواستہ اس وقت اللہ کو ہمارا دعا چھوڑ کر پیٹ کی آگ بجھانا پسند نہ آئے اور بارش ہمارے لئے مدرسہ کا راستہ ہموار کر دے مگر تبھی آسمان اپنے چہرہ پر سورج لیے نمودار ہوتا ہے اور بادل مجبور ہوکر زمیں کو سیراب کرنا بند کردیتا ہے
اور یہ ٹھیک مدرسہ کی طرف روانگی کا وقت تھا