اور آپ کی ٹائپ کی ہوئی اس غزل میں املا کی اغلاط درست کرنے کے بعد
کسی کے غم میں وقار کھونا، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
یہ اٹھ کے راتوں میں تیرا رونا، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
زمانہ چڑھتے شباب کا ہے مگر زمانہ بہت برا ہے
یہ جاگنا شب کو دن میں سونا، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
جو دل میں آیا تو خوب کھیلا، نظر سے اترا تو توڑ ڈالا
کسی کا دل بھی ہے کیا کھلونا، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
بھنور میں کشتی کو چھوڑ دیتے تو آپ پر بات بھی نہ آتی
یہ مجھ کو ساحل پہ لا ڈبونا، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
کہا جو میں نے "ڈرو خدا سے اگر خدائی کا ڈر نہیں ہے"
تو ہنس کے بولے کہ "چپ رہو نا، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا"
میں ان سے اقرار چاہتا تھا، وہ مسکرا کر ادا سے بولے
"خدارا جلدی سے کچھ کہو نا، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا"
کسی کو شادابؔ کیا غرض ہے جو ساتھ دے دردِ عاشقی کا
سُنا رہے ہو یہ کس کا رونا؟ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا