سید شہزاد ناصر
محفلین
اردو محفل پر انیس الرحمن کا یہ دھاگہ دیکھاکہاوتوں کی کہانیاں (رؤف پاریکھ) تو مجھے بھی تحریک ہوئی کہ اس موضوع پر کچھ شریک کروں
سو کچھ حاضر خدمت ہے
دکنی محاورات ‘کہاوتیں اور ضرب الامثال ۔ از۔ ڈاکٹرعطا اللہ خان انڈیا
(نوٹ ۔ ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے۔وہ اورینٹل اردو پی جی کالج اینڈ ریسرچ سنٹر حیدرآباد کے پرنسپل رہے ہیں۔ملازمت سے سبکدوشی کے بعد شکاگو امریکہ میں مقیم ہیں۔کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں۔انہوں نے ایک کتاب دکنی محاورے بھی ترتیب دی ہے جو زیر طباعت ہے)
دکن کی قدیم ترین دراوڑی زبانیں تلگو ، کنڑی ، تمل ، اور شمالی ہند کی آرین زبانیں مراٹھی ، برج بھاشا ، ہندی ، سنسکرت کے علاوہ حاکموں کی زبان فارسی عربی ، عبرانی ، پشتو ، ترکی ، ان تمام زبانوں کی آمیزش سے سے ایک نئی زبان دکنی وجود میں آئی جب کوئی زبان وجود میں آتی ہے اس میں ضرب الامثال کہاوتیں ، محاورات کا وجود میں آنا فطری عمل ہے۔ دو لفظوں کا وہ جملہ جو مصدر سے مل کر اپنے حقیقی معنی سے ہٹ کر مجازی معنی میں بولا جائے محاورہ کہلاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سو سال مستعمل ہونے کے بعد ایک قول محاورہ بن جاتا ہے۔ اس طرح دکنی کے سینکڑوں محاورات آج بھی سینہ بہ سینہ بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔
منہ میں دانتریاں نئیں پیٹ میں انتڑیاں نئیں چلا شادی کرنے
یہ محاورہ بھی اس بوڑھے شخص پر صادق آتا ہے جس کے منہ میں دانت نہیں اور پیٹ میں آنت نہیں اور کہتا ہے میری شادی کرو۔
چلتا سو منہ چکی کا پاٹ
دکنی کا محاورہ ہے اور اس عورت پر صادق آتا ہے جس کا منہ ہمشہ چلتا رہتا ہے یعنی کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہے۔ جس طرح چکی میں اناج پستا رہتا ہے اس طرح منہ چلتا رہتا ہے۔
بڑی ماں کو بلاؤ ہنڈی میں ڈوئی ہلاؤ
یہ محاورہ اس طرح ہے کہ پکوان کی تیاری میں خواتین تمام تیاری کر دیتی ہیں یعنی ترکاری بنانے سے لیکر مسالے وغیرہ پیسنا سب کچھ ہو جاتا ہے۔ اتنے میں کسی نے کہا بڑی ماں کو بلواؤ آکر سالن بنائیں گی۔ بڑی ماں آکر ہنڈی میں ڈوئی یعنی لکڑی کا چمچہ ہلاتی ہیں جب سالن پک کر تیار ہوجاتا ہے تو بڑی ماں کہتی ہیں میں نے کیا مزے کا سالن بنایا ہے اس کے لئے یہ محاورہ بنا۔
دمڑی کی آمدنی نئیں گھڑی بھر کی فرصت نئیں
دکنی کا یہ محاورہ اس شخص پر صادق آتا ہے جو ہمشہ مصروف رہتا ہے کبھی کسی نے کچھ کام کے لئے کہا تو کہتا ہے مجھے فرصت نہیں ہے۔ اس شخص کو دمڑی کی آمدنی نہیں ہے ( دمڑی قدیم زمانے کا سکہ ہے )
کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی
اس محاورے سے ایک ایسی عورت کی مثال دی جاتی ہے جو کام کاج کچھ نہیں کرتی دن بھر کھاتی رہتی ہے۔
بیٹی گوارے میں جہز پٹارے میں
دکنی کا مشہور محاورہ ہے گھر میں جب لڑکی تولد ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی لڑکی کی شادی کا جہز صندوق ( پٹارہ ) میں جمع کرنا چاہئے تاکہ بعد میں فکر نہ رہے۔
اتاولی چھوری کا دوپہر کا جلوہ
قدیم زمانے میں صبح کی شادی ہوتی تھی اور شام میں جلوہ دیا جاتا اور رخصتی ہوتی تھی لیکن یہ محاورہ اس دلہن پر صادق آتا ہے جو اس قدر جلدی کرتی ہے اپنے دلہے سے ملنے کی کہ وہ کہتی ہے دوپہر کا جلوہ کر دیں تاکہ میں سسرال جا سکوں۔
آدمی میں بس کو دیکھو سونے کو گِھس کو دیکھو
دکنی کی اس ضرب المثل میں اُس انسان کی مثال دی جارہی ہے جو دیکھنے میں بہت اچھا ہے بات چیت بہت خوب صورت انداز میں کرتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ رہ کر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر خود غرض اور کم ظرف ہے ۔
اس کی مثال اُس چمکتی چیزکی طرح ہے جو دور سے دیکھنے میں سونا معلوم ہوتی ہے لیکن جب اس چیز کو گھس کردیکھا جاتا ہے تو وہ پیتل رہتا ہے ۔
آڑی کی بلا باڑی پو ۔۔۔ باڑی کی بلا میلی ساڑی والی پو
دکنی کے اس محاورے میں چالاک عورت گھر کے کسی کام میں کچھ خرابی کردیتی ہے ۔ اور اپنی غلطی دوسروں پر ڈالنا چاہتی ہے ۔ اپنے کام کی خرابی ماننے تیار نہیں ہوتی۔ اس کام میں جو دوسری غریب عورت جس کی ساڑی میلی ہوتی ہے ۔اُس کی طرف اشارہ کرکے کہتی ہے یہ کام خراب میں نہیں کی بلکہ وہ میلی ساڑی والی عورت نے کیا ہے ۔
آسمان پو تھو کے تو اپن پوچ گرتا
دکنی کے اس محاورے میں اُس بے وقوف کی طرف اشارہ ہے کہ جوغصہ میں آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور آسمان کی طرف منھ اُٹھاکر تھو کتا ہے ۔ اس بے وقوف کو یہ نہیں معلوم کہ یہ تھوک خود اُس کے منھ پر گرے گا۔
آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے
دکنی کے اس محاورے میں اُس لا لچی شخص کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دنیا حاصل کرلیتا ہے پھر بھی اس کی لالچ پوری نہیں ہوتی ۔ ہر وہ چیز حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے جو اس کی پہنچ سے کافی دور ہے۔ بے وقوفی سے آسمان کے تارے حاصل کرنے کے لئے بلندی پر چڑھ جاتا ہے تو اس کی ماں کہتی ہے آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے۔
آگے کنواں پیچھے کھائی ۔۔۔ جان مشکل میں آئی
اس محاورے میں اُس چور کی طرف اشارہ ہے جو چور ی کر کے فرار ہونا چاہتا ہے اُس کو آگے کنواں دکھائی دیتا ہے اور پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہے تو کھائی یعنی گڑھا نظر آتا ہے یعنی فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا‘ ان حالات میں کہا جاتا ہے کہ آگے کنواں پیچھے کھائی ۔ جان مشکل میں آئی۔
آفت کی پوڑیہ
اس محاورے میں اُس لڑکی کی طرف اشارہ ہے جو اپنی کم عمری کے باوجود چالاک اور مکار اس قدر ہے کہ قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے اور ہر کسی کو اپنے جال میں آسانی سے پھانس لیتی ہے ۔ بڑی بوڑھی خواتین ایسی لڑکی کو آفت کی پوڑیہ کہتے ہیں۔
ابھی کچھ نئیں ہوا تیل دیکھو تیل کی دھاردیکھو
دکنی کے اس محاورے میں قدیم زمانے میں ساس کا کردار بہت اہم رہتا تھا وہ اپنے گھر کی مختار کل ہواکرتی تھی۔ ایک ساس اپنے بیٹے کی شادی کر کے بہو گھر لاتی ہے ۔ پانچ جمعگیوں کے بعد بہو کو گھر کا کام کرنے کے لئے باورچی خانے میں بلاتی ہے ۔نھی نویلی دلہن گھبراتے گھبراتے کھڑائی میں تیل انڈیلتی ہے اس دوران کچھ تیل باہر گرجاتا ہےچوں کہ ساس کا کام بہو کی نگرانی کرنا ہوتا ہے وہ کہتی ہے تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔
اتاولی چھوری کو دوپہر کا جلوا
قدیم زمانے میں ایک گاوں کے لڑکے سے دوسرے گاوں کی لڑکی کی شادی ہوتی تودلہن کے گاوں میں صبح صادق کے بعد عقد کر دیا جاتاتھا تاکہ رشتہ داروں کو اپنے اپنے گاوں جانے میں سہولت ہو۔ شام یعنی مغرب کے بعد جلوے کی رسم ادا کر کے دلہن کو رخصت کیا جاتا تھا۔ یہاں ایک ایسی لڑکی کی شادی ہوئی جو اپنے شوہر یا دلہے سے جلد ملنا چاہتی تھی ۔ وہ دلہن اپنی ماں سے کہتی ہے جلوہ دوپہر میں ڈال دو ۔ اس پر گاوں کی بزرگ خواتین سخت نالا ں ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دوپہر کا جلوہ نہیں ڈال سکتے۔ یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے کہ اتاولی چھوری کو دوپہر کا جلوا۔
اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا شادی سے قبل تک والدین کا فرما ں بردار رہتا ہے ۔ شادی کے بعد وہ اپنی بیوی کی طرفداری کرنے لگتا ہے یا نافرمان ہوجاتا ہے ۔ ان حالات میں ماں کہتی ہے ۔ اپنا بیٹا ہی اچھا نہیں ہے بہو کا کچھ قصور نہیں ۔ اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا
اپنی گھائی سب پو لائی
ایک چالاک عورت تھی وہ کام ٹھیک سے نہیں کرتی تھی اور کام میں کچھ نہ کچھ غلطی کربیٹھتی تھی اور اس کاالزام دوسروں کے سر باندھتی تھی اور اپنے اوپر اس غلطی کو آنے نہیں دیتی تھی اپنی خرابی دوسرے کے سر کرنا اس کاکام تھا ۔ایسی عورتوں کے لیے کہا جتا ہے کہ اپنی گھائی سب پو لائی ۔
اُٹھ رے مردے عود لے چاروں کو نے کو دلے
اس میں ایک ظالم شوہر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بیوی پر بہت زیادتی کرتا تھا اس کا انتقال ہوگیا تو اس نے سکون کا سانس لیا مگر روسومات کرنا ضروری تھا۔ فاتحہ خوانی کے موقع پر شوہرکی قبر پر آتی ہے اور فاتحہ دینے کے بعد شوہر سے یہ کہاوت طنز یہ کہتی ہے ۔
اجاڑ صورت پو بھینڈیوں کی کڑی
ایک تیزطرار ساس اپنی بہو سے پو چھتی ہے کیا سالن پکائی بہو؟۔بہو خوشی خوشی کہتی ہے کہ بھینڈیوں کی کڑی ۔ ۔ ۔ چوں کہ بہو کے ہر کام مں کیڑے نکالنا ساس کا کام ہوتا ہے اس لیے ساس کہتی ہے اجاڑ صورت پو بھینڈیوں کی کڑی بنائی ۔
اُجلے کو دیکھ کو اچھل گیا پُٹّا۔ پیلے کو دیکھ کو پھسل گیاپُٹّا
اولاد کی پرورش ماں باپ بہت لاڈپیار سے کرتے ہیں اور جب اس لڑکے کی شادی ہوتی ہے وہ اپنی بیوی کی طرف ہوجاتا ہے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا ا ن حالات میں ماں بیٹے سے کہتی ہے اُجلے کو(گوری رنگت) دیکھکر اچھل گیاپُٹّا ‘پیلے (سونے کازیور)کو دیکھکر پھسل گیا پُٹّا ۔
اچھے کو دیکھ سکتے نئیں۔ برے کو د ے سکتے نئیں
یہ ایک عام بات ہے کہ جو شخص کھاتا پیتا خوش حال ہے اس کو دنیا والے دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ حسد اور جلن سے اُس میں کچھ نہ کچھ خرا بی تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ دوسری طرف کوئی غریب ہے تو اُسکو کچھ دے بھی نہیں سکتے اور اس کی مدد نہیں کرنا چاہتے ۔
اچھی اچھی کئے تو دم پو نمدہ بن ری
ساس بہو سے کہتی ہے کہ شادی کے بعد شروع شروع بہو اچھی معلوم ہوتی ہے جیسے جیسے دن گزر تے ہیں بہو میں برائیاں نظر آتی ہیں ۔ اس کہاوت میں دم پو نمدہ بننے کی مثال دی گئی ہے۔ گھوڑے کو قابو میں رکھنے کے لئے لگام کا استعما ل کیا جاتا ہے لگام کس کر باندھنے کے لئے گھوڑے کی دم کے نیچے سے لگام کی رسی باندھی جاتی ہے اس رسی سے گھوڑے کو زخم نہیں ہونے کے لئے نرم قسم کا نمدہ یا چمڑہ بنا جاتا ہے اس کی مثال ساس بہو کو دیکر اپنی دل کی بھڑاس نکالتی ہے ۔
ادھمڑی چال چلو نکو ۔ منھ کہ بل گرو نکو
ماں باپ اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہیں کہ جلدی جلدی چل کر بڑے آدمی بننے کی کوشش نہیں کرنا چاہئیے یعنی جلد بازی میں جو کام کیا جاتا ہے اس میں نقصان ہی ہوتا ہے ۔ سوچ سمجھ کر ہی چلنا چاہئیے ۔ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے ۔ جلد بازی سے انسان منھ کے بل گرتاہے اور اپنے دانت تڑوا بیٹھتا ہے۔
ادرک سڑا سو بنیا پھر ے سری کا نکو پھر
بنیا ‘ تجارت پیشہ شخص کوکہتے ہیں ۔ بنیا بہت سو چ سمجھ کر کاروبار کر تا ہے ۔ اتفاق سے وہ ادرک زمین میں بو تا ہے اور ادرک کے پودینکل آتے ہیں اب اس ادرک کو زمین سے نکالنے والا ہی تھا کہ اچانک بارش تیز ہوجاتی ہے اور تمام ادرک کے پودے اسی پانی میں ڈوب جاتے ہے اور سڑ جاتے ہیں۔ ا س حالت میں بنیا گھر سے کھیت کی طرف آتا ہے اور کھیت سے گھر کی طرف جاتا ہے ا س کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ اب کیا کیا جاے ۔اسی موقع پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے ۔
اکماں کی ساڑی بکم ماں کی چولی ۔ بھر ے دربار میں جا کو کھولی
ایک غریب دیہاتی عورت کو گاوں کے بڑے پیسے والے کے گھر سے شادی کی دعوت آتی ہے ۔اس غریب کے پاس شادی میں پہننے کے لائق کوئی کپڑا نہیں تھا۔ اُس کے پڑوسن میں اکماں نام کی عورت سے ساڑی مانگ کر پہنتی ہے اور دوسری پڑوسی بکم ماں سے چولی مانگ کر پہنتی ہے ۔ اور یہ تینوں خواتین شادی میں جاتی ہیں ۔ وہاں دیگر خواتین بھی آتی ہیں اتفاق سے وہ ساڑی چولی کو پہچان لیتے ہیں اور طنز سے اس کی ساڑی اور چولی کی بہت تعریف کرتے ہیں ۔ غریب عورت اس طنز کو برداشت نہیں کرتی اور جھٹ خف4166وتی ہے ۔ وہ بھری محفل میں ساڑی اور چولی اتار کر دیتی ہے اور کہتی ہے یہ دونوں اکماں اور بکماں کے ہیں میرا کچھ بھی نہیں ہے ۔اسے اپنے برہنہ ہونے کی کچھ فکر نہیں ہوتی ۔
الیف بے ٹو ں ٹوں استاد کو پیٹوں
ایک گاوں میں ایک توتلی لڑکی تھی وہ پڑھائی میں بھی چور تھی ۔ استاد اُس کو دو لفظ الیف اور ب یاد کرکے آنے کو کہتا ہے ۔وہ لڑکی حرف ٹوں ٹوں ہی کہتی تھی ۔ استاد اُس لڑکی کو چھڑی سے مارتا ہے وہ اس پر ناراض ہو کر استاد کو کہتی ہے الیف ،ب ٹوں ٹوں استاد کو پیٹوں کہتے ہوئے۔ بھاگ کھڑی ہوتی ہے
۔ بارہ گھاٹ کا پانی پی کو آئی تُو
قدیم زمانے میں ہر گاوں میں ایک ہی گھاٹ ہوتا تھا جس کا پانی پیا جاتا تھا‘ لیکن کسی کی بہو بہت زیادہ ہوشیارتھی وہ ساس کی ہر بات کا جواب دیتی تھی تو ساس بہو سے کہتی ہے توُ تو بارہ گھاٹ کا پانی پی کر آئی ہے ۔
۔ بارہ سال کے بعد گھوڑکے بھی قسمت جاگتے
گھوڑ کچرے کے انبار کو کہتے ہیں۔ اس کہاوت میں اُس مقام کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں کچرا پھینکا جاتا ہے وہاں بارہ سال بعد کو ئی نہ کوئی گھر بنا لیتا ہے میری قسمت ایسی ہے کہ بارہ سال بھی گذر گئے لیکن کوئی ترقی نہیں ہوئی اور میری قسمت نہیں جاگی۔
۔ باندی جگ کے پاوں دھوتی مگر اپنے نہیں دھوتی
یہ بات مشہور ہے کہ گھر میں جو کام کرنے والی بائی ہوتی ہے وہ اپنی بی بییوں کے پاوں دھوتی رہتی ہے مگرخود اپنے پیر نہیں دھوتی اس لیے کہ وہ جب بھی منھ ہاتھ دھونے کے لیے بیٹھتی ہے تو کوئی نہ کوئی بی بی اسے کام کے لیے بلاتی ہے وہ جلدی جلدی منھ دھو کر پیر دھو ے بغیر بی بی کے پاس چلی جاتی ہے۔اُس لڑکی کو اپنے پیر دھونے کی فرصت ہی نہیں ہوتی ۔
۔ باوا مریں گے تو بیلاں بٹینگے
اس محاورے میں گاوں کی زندگی اور وہاں کے ماحول کی عکاسی کی گئی ہے ۔ گاوں میں لوگ عموماًکھیتی باڑی کرتے ہیں۔ زمین اور بیل کسان کا اثاثہ ہوتا ہے۔ گھر کا بڑا یعنی باپ تمام کاروبار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے ۔ کسان کے ایک لڑکے کی شادی کی جاتی ہے اور گھر میں نااتفاقی شروع ہوجاتی ہے بڑا لڑکا اپنی بیوی کے ساتھ گھر سیالگ ہو جاتا ہے پھر واپس آکر ماں سے کہتا ہے میرے حصہ کہ بیل دومجھے کھیت میں ہل چلاناہے ۔ اس بات پر ماں کہتی ہے کہ باوا مریں گے تو بیلاں بٹینگے جب تک کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔
۔ بچہ نا کچہ جی کو رکھو اچھا
اس محاورے میں ایک عورت دوسری عورت پر طنز کرتی ہے کہ تم کو بچہ ہے نا کچھ اور کام ہے اس لیے اپنی صحت اچھی رکھو کیونکہ تم اگر بیمار ہوجاوگی تو تمھاری خدمت کون کرے گا۔
۔ بڑی تو رائی بڑے کدو کو ڈرائی
یہ با ت مشہور ہے کہ جس کھیت میں تورائی کی بیل ڈالی جاتی ہے وہاں کدو کی بیل پروان نہیں چڑھتی اوروہاں کے کدو زیادہ بڑے نہیں ہوتے بالکل چھوٹے ہی رہ کر ختم ہوجاتے ہیں لیکن تورائی برابر پیدا ہوتی ہے۔سخت مزاج اور کھردرے لہجے والوں کے سامنے نرم و ملائم لہجے کے لوگ کبھی جیت نہیں پاتے۔ اس وجہہ سے یہ کہاوت مشہور ہے ۔
۔ بھوک لگی تو بھونک لیو انڈ ا لیکو سیک لیو
اس محاورے میں بھوکی عورت سے کہا جارہا ہے خوب چلا و اس قدر چلاو کے حلق میں آواز بیٹھ جائے اور جب درد ہونے لگے تو انڈا لے کر سیک لیو تمھارا حلق کا درد کم ہوجائے گا۔
۔ بھوکتا کتا کاٹتا نئیں کاٹتا کتا بھوکتا نئیں
دکنی کی یہ ضرب المثال بہت مشہور ہے اور آج بھی مستعمل ہے ۔ جیسے بھونکتا کتا کاٹتا نہیں اور جو کاٹتا ہے وہ بھونکتا نہیں ۔ کتے سے مثال دیکر اس انسان کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جو صرف دھمکیاں دیتا رہتا ہے مگر عمل نہیں کرتا اور جو خاموش مزاج ہوتا ہے وہ دھمکی نہیں دیتا مگر کام کرکے دکھاتا ہے۔
۔ بھیک کی چندی پو اترانا نئیں
اس محاورے میں اس عورت کی مثال دی جارہی ہے جو کسی کے خیرات میں کپڑے حاصل کرتی ہے او ر کسی دعوت میں جاتی ہے وہاں وہی کپڑے پہن کر اس عورت کے سامنے جاتی جس نے یہ کپڑے اسے دیے ہیں اور اس کو پہچاننے سے انکار کرتی ہے تو وہ خیرات کرنے والی عورت کہتی ہے کہ بھیک کی چندی پو اترانا نئیں۔
۔ بے حیا بولے تو ایم ایا بولیا
دکن میں مسلمانوں کے ساتھ تلگو عوام بھی مل جل کر رہتے ہیں۔ اس تلگو ملازم سے صاحب خانہ نے ا دبی زبان میں اس کو بے حیا کہہ کر بلایا تو وہ تلگو ملازم انتہائی ادب سے ایم ایّا (کیا بات ہے حضور)کہتا ہے
پانچ انگلیاں گھی میں سر کڑئی میں
عموماً اس وقت کہاجاتا ہے جب کوئی شخص بڑے آرام سے زندگی گزاررہا ہو کہ تمہاری پانچ انگلیاں گھی میں ہے یعنی روزآنہ تم گھی کے ساتھ کھانا کھا رہی ہو اور تمہارا سر کڑھی میں ہے یعنی کھانے اور پینے کی تم کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔عموما کسی دولت مند گھرانے میں رشتہ طئے ہونے پر بھی یہ کہاجاتا ہے۔
۔ پتلے گو پو پتھر نئیں مارنا چھینٹے اپن پوچ اچھلتیں
اس محاورے میں گندگی سے دور رہنا یا برے آدمی کی صحبت سیفاصلہ رکھنے کی طرف اشارہ ہے ۔ غلیظ فطرت کا انسان ہمیشہ شریف انسان کو تکلیف پہنچا تا ہے ۔ آپ سے اچھی بات کرے گا وہ اس کا غلط مطلب نکالے گا ۔ اور آپ کو تکلیف پہنچانے کی بات کرے گا۔اگر اس سے بحث و مباحثہ کیا جاے تو ہماری عزت ہی داو پر لگ جاے گی۔
۔ پتھر پگل جائے گا پر انو نئیں پِگلیں گے
ایک عورت اپنے شوہر کا گلہ کرتی ہے کہ وہ ایسا سخت مزاج ہے کہ پتھر کے سامنے اگر روئے تو وہ بھی پگل جائیگا مگر میرا شوہر نہیں پگلے گا۔
۔ پرائی کی کیا پڑی تو اپنی نبڑ
اس کہاوت میں ایک لفظ نبڑ آیا ہے جو آج کل کوئی استعمال نہیں کرتا ۔نبڑ کے لغوی معنی نمٹانا یا کام کرنا کے ہیں ۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے کام پر ہی نظر رکھتے ہیں۔ اس وجہہ سے ایک عورت دوسری عورت سے کہتی ہے دوسروں کے کام پر نظر نہ رکھ ‘ تو اپنا کام برابر کر ‘تاکہ دوسرے تجھے کوئی نام نہ رکھے۔
۔ پڑے پارس بیچے تیل
اس محاورے میں بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں ۔ قدیم زمانے میں تیل بنا نے کا طریقہ یہ تھا کہ تیل کے بیج لکڑی کے گھانے میں ڈالکر بیل کے ذریعہ پیسا جاتا تھا اس بیل کے گلے کی لکڑی سنبھالنے کے لئے ایک وزن پتھر رکھا جاتا تھا۔ تیل بنا نے والے دیہاتی آدمی کم عقل ہوتے تھے ۔انھیں نہیں معلوم کہ یہ پتھر جو رکھا گیا ہے کوئی معمولی پتھر نہیں ہے بلکہ پارس کا پتھر ہے جس کہ ذریعہ سے لو ہے کو پتھر پر گھسنے سے لوہا سونا ہوجاتا ہے ۔ اس طرح یہ محاورہ بنا پارس کا پتھر رکھ کر بھی تو تیل بیچ رہا ہے کیا بے وقوف انسان ہے ۔
۔ پڑھا نہ لکھا نام رکھا محمد فاضل
اس شخص کی طرف اشارہ ہے بلکہ طنز کیا جار ہا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہے جاہل ہے مگر اس کا نام محمد فاضل ہیں فاضل کے معنی علم جاننے والے کے ہیں۔
۔ پوریوں کی خوشی میں جورو کو اماں بولیا
شوہر کام پر جانے کے بعد گھر میں بیوی پوریاں پکاتی ہے شام کو جب اس کا شوہر گھر واپس آکر دیکھتا ہے اس کی بیوی پوریاں پکائی ہے وہ خوشی میں کہتا ہے کیا پکائی گے ماں پوریاں ! بعض انسان خوشیاں بھی سنبھال نہیں پاتے اور اپنے میں نہیں رہتے ۔
۔ پھگٹ کے مال پو دیدے لال
دکنی کے اس محاورے میں بعض لوگوں کی فطرت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دوسروں کے مال و متاع پر نظر رکھتے ہیں جو اسلام میں سخت منع ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جس کو جو دیا ہے اسی میں خوش ہونا چاہئیے مگرانسان بڑا لالچی ہوتا ہے مفت کے مال پر بھی اس کی نظر رہتی ہے۔
۔ پکے تلک ٹھیرے تھجے تلک نئیں ٹھیرے
بیوی اپنے شوہر سے کہتی ہے کھانا پکادیا ہے تھج رہا ہے ذرا دیر ہوگی لیکن شوہر کھانے کی جلدی کررہا ہے وہ کھانا پکنے تک انتظار کرتا ہے مگر تھجنے تک انتظار نہیں کرتا یہاں تھجنا کے معنی دم ہونے کے ہیں۔ان جلدباز لوگوں پر طنز ہے جو محنت تو کرتے ہیں اور منزل بھی قریب ہوتی ہے مگر ان کے صبر کا پیمانہ ٹوٹ جاتا ہے۔
۔ پیسہ والوں کی دوستی بندر کی دوستی برابر
یہاں سر مایہ داروں کی دوستی سے دور رہنے کی طرف اشارہ ہے کیوں کہ وہ اپنے پیسے پر مغرور ہو کر اپنی بات منوانا چاہتے ہیں ۔ سامنے والے کی قدر اور اہمیت نہیں رکھتے۔ دولت مندلوگ اپنی مر ضی کے ، خلاف بات سننا نہیں چاہتے ۔ غریب کی عزت نہیں کرتے اپنی دولت میں بندر بنے ہوئے ہوتے ہیں یعنی کبھی بھی آپ کو نوچ سکتے ہیں۔
سو کچھ حاضر خدمت ہے
دکنی محاورات ‘کہاوتیں اور ضرب الامثال ۔ از۔ ڈاکٹرعطا اللہ خان انڈیا
(نوٹ ۔ ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے۔وہ اورینٹل اردو پی جی کالج اینڈ ریسرچ سنٹر حیدرآباد کے پرنسپل رہے ہیں۔ملازمت سے سبکدوشی کے بعد شکاگو امریکہ میں مقیم ہیں۔کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں۔انہوں نے ایک کتاب دکنی محاورے بھی ترتیب دی ہے جو زیر طباعت ہے)
دکن کی قدیم ترین دراوڑی زبانیں تلگو ، کنڑی ، تمل ، اور شمالی ہند کی آرین زبانیں مراٹھی ، برج بھاشا ، ہندی ، سنسکرت کے علاوہ حاکموں کی زبان فارسی عربی ، عبرانی ، پشتو ، ترکی ، ان تمام زبانوں کی آمیزش سے سے ایک نئی زبان دکنی وجود میں آئی جب کوئی زبان وجود میں آتی ہے اس میں ضرب الامثال کہاوتیں ، محاورات کا وجود میں آنا فطری عمل ہے۔ دو لفظوں کا وہ جملہ جو مصدر سے مل کر اپنے حقیقی معنی سے ہٹ کر مجازی معنی میں بولا جائے محاورہ کہلاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سو سال مستعمل ہونے کے بعد ایک قول محاورہ بن جاتا ہے۔ اس طرح دکنی کے سینکڑوں محاورات آج بھی سینہ بہ سینہ بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔
منہ میں دانتریاں نئیں پیٹ میں انتڑیاں نئیں چلا شادی کرنے
یہ محاورہ بھی اس بوڑھے شخص پر صادق آتا ہے جس کے منہ میں دانت نہیں اور پیٹ میں آنت نہیں اور کہتا ہے میری شادی کرو۔
چلتا سو منہ چکی کا پاٹ
دکنی کا محاورہ ہے اور اس عورت پر صادق آتا ہے جس کا منہ ہمشہ چلتا رہتا ہے یعنی کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہے۔ جس طرح چکی میں اناج پستا رہتا ہے اس طرح منہ چلتا رہتا ہے۔
بڑی ماں کو بلاؤ ہنڈی میں ڈوئی ہلاؤ
یہ محاورہ اس طرح ہے کہ پکوان کی تیاری میں خواتین تمام تیاری کر دیتی ہیں یعنی ترکاری بنانے سے لیکر مسالے وغیرہ پیسنا سب کچھ ہو جاتا ہے۔ اتنے میں کسی نے کہا بڑی ماں کو بلواؤ آکر سالن بنائیں گی۔ بڑی ماں آکر ہنڈی میں ڈوئی یعنی لکڑی کا چمچہ ہلاتی ہیں جب سالن پک کر تیار ہوجاتا ہے تو بڑی ماں کہتی ہیں میں نے کیا مزے کا سالن بنایا ہے اس کے لئے یہ محاورہ بنا۔
دمڑی کی آمدنی نئیں گھڑی بھر کی فرصت نئیں
دکنی کا یہ محاورہ اس شخص پر صادق آتا ہے جو ہمشہ مصروف رہتا ہے کبھی کسی نے کچھ کام کے لئے کہا تو کہتا ہے مجھے فرصت نہیں ہے۔ اس شخص کو دمڑی کی آمدنی نہیں ہے ( دمڑی قدیم زمانے کا سکہ ہے )
کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی
اس محاورے سے ایک ایسی عورت کی مثال دی جاتی ہے جو کام کاج کچھ نہیں کرتی دن بھر کھاتی رہتی ہے۔
بیٹی گوارے میں جہز پٹارے میں
دکنی کا مشہور محاورہ ہے گھر میں جب لڑکی تولد ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی لڑکی کی شادی کا جہز صندوق ( پٹارہ ) میں جمع کرنا چاہئے تاکہ بعد میں فکر نہ رہے۔
اتاولی چھوری کا دوپہر کا جلوہ
قدیم زمانے میں صبح کی شادی ہوتی تھی اور شام میں جلوہ دیا جاتا اور رخصتی ہوتی تھی لیکن یہ محاورہ اس دلہن پر صادق آتا ہے جو اس قدر جلدی کرتی ہے اپنے دلہے سے ملنے کی کہ وہ کہتی ہے دوپہر کا جلوہ کر دیں تاکہ میں سسرال جا سکوں۔
آدھی روٹی چھوڑ کو ساری کو گئے ساری بھی گئی آدھی بھی گئی
دکنی کے اس محاورے میں اُس لالچی انسان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ سکون سے آدھی روٹی تو کھارہا تھا لیکن لالچ میں آکراس نے اچھی خاصی ملازمت کو چھوڑ کر دوسری ملازمت کرنے لگتا ہے وہاں کچھ تنخواہ زیادہ ملتی ہے ۔ دوسری ملازمت بھی اس وجہہ سے چھوڑ تا ہے کہ وہاں حد زیادہ تکالیف ہیں۔ اس طرح اس کی دوسری ملازمت بھی جاتی رہی اور پہلی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔
دکنی کے اس محاورے میں اُس لالچی انسان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ سکون سے آدھی روٹی تو کھارہا تھا لیکن لالچ میں آکراس نے اچھی خاصی ملازمت کو چھوڑ کر دوسری ملازمت کرنے لگتا ہے وہاں کچھ تنخواہ زیادہ ملتی ہے ۔ دوسری ملازمت بھی اس وجہہ سے چھوڑ تا ہے کہ وہاں حد زیادہ تکالیف ہیں۔ اس طرح اس کی دوسری ملازمت بھی جاتی رہی اور پہلی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔
آدمی میں بس کو دیکھو سونے کو گِھس کو دیکھو
دکنی کی اس ضرب المثل میں اُس انسان کی مثال دی جارہی ہے جو دیکھنے میں بہت اچھا ہے بات چیت بہت خوب صورت انداز میں کرتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ رہ کر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر خود غرض اور کم ظرف ہے ۔
اس کی مثال اُس چمکتی چیزکی طرح ہے جو دور سے دیکھنے میں سونا معلوم ہوتی ہے لیکن جب اس چیز کو گھس کردیکھا جاتا ہے تو وہ پیتل رہتا ہے ۔
آڑی کی بلا باڑی پو ۔۔۔ باڑی کی بلا میلی ساڑی والی پو
دکنی کے اس محاورے میں چالاک عورت گھر کے کسی کام میں کچھ خرابی کردیتی ہے ۔ اور اپنی غلطی دوسروں پر ڈالنا چاہتی ہے ۔ اپنے کام کی خرابی ماننے تیار نہیں ہوتی۔ اس کام میں جو دوسری غریب عورت جس کی ساڑی میلی ہوتی ہے ۔اُس کی طرف اشارہ کرکے کہتی ہے یہ کام خراب میں نہیں کی بلکہ وہ میلی ساڑی والی عورت نے کیا ہے ۔
آسمان پو تھو کے تو اپن پوچ گرتا
دکنی کے اس محاورے میں اُس بے وقوف کی طرف اشارہ ہے کہ جوغصہ میں آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور آسمان کی طرف منھ اُٹھاکر تھو کتا ہے ۔ اس بے وقوف کو یہ نہیں معلوم کہ یہ تھوک خود اُس کے منھ پر گرے گا۔
آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے
دکنی کے اس محاورے میں اُس لا لچی شخص کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دنیا حاصل کرلیتا ہے پھر بھی اس کی لالچ پوری نہیں ہوتی ۔ ہر وہ چیز حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے جو اس کی پہنچ سے کافی دور ہے۔ بے وقوفی سے آسمان کے تارے حاصل کرنے کے لئے بلندی پر چڑھ جاتا ہے تو اس کی ماں کہتی ہے آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے۔
آگے کنواں پیچھے کھائی ۔۔۔ جان مشکل میں آئی
اس محاورے میں اُس چور کی طرف اشارہ ہے جو چور ی کر کے فرار ہونا چاہتا ہے اُس کو آگے کنواں دکھائی دیتا ہے اور پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہے تو کھائی یعنی گڑھا نظر آتا ہے یعنی فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا‘ ان حالات میں کہا جاتا ہے کہ آگے کنواں پیچھے کھائی ۔ جان مشکل میں آئی۔
آفت کی پوڑیہ
اس محاورے میں اُس لڑکی کی طرف اشارہ ہے جو اپنی کم عمری کے باوجود چالاک اور مکار اس قدر ہے کہ قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے اور ہر کسی کو اپنے جال میں آسانی سے پھانس لیتی ہے ۔ بڑی بوڑھی خواتین ایسی لڑکی کو آفت کی پوڑیہ کہتے ہیں۔
ابھی کچھ نئیں ہوا تیل دیکھو تیل کی دھاردیکھو
دکنی کے اس محاورے میں قدیم زمانے میں ساس کا کردار بہت اہم رہتا تھا وہ اپنے گھر کی مختار کل ہواکرتی تھی۔ ایک ساس اپنے بیٹے کی شادی کر کے بہو گھر لاتی ہے ۔ پانچ جمعگیوں کے بعد بہو کو گھر کا کام کرنے کے لئے باورچی خانے میں بلاتی ہے ۔نھی نویلی دلہن گھبراتے گھبراتے کھڑائی میں تیل انڈیلتی ہے اس دوران کچھ تیل باہر گرجاتا ہےچوں کہ ساس کا کام بہو کی نگرانی کرنا ہوتا ہے وہ کہتی ہے تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔
اتاولی چھوری کو دوپہر کا جلوا
قدیم زمانے میں ایک گاوں کے لڑکے سے دوسرے گاوں کی لڑکی کی شادی ہوتی تودلہن کے گاوں میں صبح صادق کے بعد عقد کر دیا جاتاتھا تاکہ رشتہ داروں کو اپنے اپنے گاوں جانے میں سہولت ہو۔ شام یعنی مغرب کے بعد جلوے کی رسم ادا کر کے دلہن کو رخصت کیا جاتا تھا۔ یہاں ایک ایسی لڑکی کی شادی ہوئی جو اپنے شوہر یا دلہے سے جلد ملنا چاہتی تھی ۔ وہ دلہن اپنی ماں سے کہتی ہے جلوہ دوپہر میں ڈال دو ۔ اس پر گاوں کی بزرگ خواتین سخت نالا ں ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دوپہر کا جلوہ نہیں ڈال سکتے۔ یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے کہ اتاولی چھوری کو دوپہر کا جلوا۔
اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا شادی سے قبل تک والدین کا فرما ں بردار رہتا ہے ۔ شادی کے بعد وہ اپنی بیوی کی طرفداری کرنے لگتا ہے یا نافرمان ہوجاتا ہے ۔ ان حالات میں ماں کہتی ہے ۔ اپنا بیٹا ہی اچھا نہیں ہے بہو کا کچھ قصور نہیں ۔ اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا
اپنی گھائی سب پو لائی
ایک چالاک عورت تھی وہ کام ٹھیک سے نہیں کرتی تھی اور کام میں کچھ نہ کچھ غلطی کربیٹھتی تھی اور اس کاالزام دوسروں کے سر باندھتی تھی اور اپنے اوپر اس غلطی کو آنے نہیں دیتی تھی اپنی خرابی دوسرے کے سر کرنا اس کاکام تھا ۔ایسی عورتوں کے لیے کہا جتا ہے کہ اپنی گھائی سب پو لائی ۔
اُٹھ رے مردے عود لے چاروں کو نے کو دلے
اس میں ایک ظالم شوہر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بیوی پر بہت زیادتی کرتا تھا اس کا انتقال ہوگیا تو اس نے سکون کا سانس لیا مگر روسومات کرنا ضروری تھا۔ فاتحہ خوانی کے موقع پر شوہرکی قبر پر آتی ہے اور فاتحہ دینے کے بعد شوہر سے یہ کہاوت طنز یہ کہتی ہے ۔
اجاڑ صورت پو بھینڈیوں کی کڑی
ایک تیزطرار ساس اپنی بہو سے پو چھتی ہے کیا سالن پکائی بہو؟۔بہو خوشی خوشی کہتی ہے کہ بھینڈیوں کی کڑی ۔ ۔ ۔ چوں کہ بہو کے ہر کام مں کیڑے نکالنا ساس کا کام ہوتا ہے اس لیے ساس کہتی ہے اجاڑ صورت پو بھینڈیوں کی کڑی بنائی ۔
اُجلے کو دیکھ کو اچھل گیا پُٹّا۔ پیلے کو دیکھ کو پھسل گیاپُٹّا
اولاد کی پرورش ماں باپ بہت لاڈپیار سے کرتے ہیں اور جب اس لڑکے کی شادی ہوتی ہے وہ اپنی بیوی کی طرف ہوجاتا ہے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا ا ن حالات میں ماں بیٹے سے کہتی ہے اُجلے کو(گوری رنگت) دیکھکر اچھل گیاپُٹّا ‘پیلے (سونے کازیور)کو دیکھکر پھسل گیا پُٹّا ۔
اچھے کو دیکھ سکتے نئیں۔ برے کو د ے سکتے نئیں
یہ ایک عام بات ہے کہ جو شخص کھاتا پیتا خوش حال ہے اس کو دنیا والے دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ حسد اور جلن سے اُس میں کچھ نہ کچھ خرا بی تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ دوسری طرف کوئی غریب ہے تو اُسکو کچھ دے بھی نہیں سکتے اور اس کی مدد نہیں کرنا چاہتے ۔
اچھی اچھی کئے تو دم پو نمدہ بن ری
ساس بہو سے کہتی ہے کہ شادی کے بعد شروع شروع بہو اچھی معلوم ہوتی ہے جیسے جیسے دن گزر تے ہیں بہو میں برائیاں نظر آتی ہیں ۔ اس کہاوت میں دم پو نمدہ بننے کی مثال دی گئی ہے۔ گھوڑے کو قابو میں رکھنے کے لئے لگام کا استعما ل کیا جاتا ہے لگام کس کر باندھنے کے لئے گھوڑے کی دم کے نیچے سے لگام کی رسی باندھی جاتی ہے اس رسی سے گھوڑے کو زخم نہیں ہونے کے لئے نرم قسم کا نمدہ یا چمڑہ بنا جاتا ہے اس کی مثال ساس بہو کو دیکر اپنی دل کی بھڑاس نکالتی ہے ۔
ادھمڑی چال چلو نکو ۔ منھ کہ بل گرو نکو
ماں باپ اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہیں کہ جلدی جلدی چل کر بڑے آدمی بننے کی کوشش نہیں کرنا چاہئیے یعنی جلد بازی میں جو کام کیا جاتا ہے اس میں نقصان ہی ہوتا ہے ۔ سوچ سمجھ کر ہی چلنا چاہئیے ۔ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے ۔ جلد بازی سے انسان منھ کے بل گرتاہے اور اپنے دانت تڑوا بیٹھتا ہے۔
ادرک سڑا سو بنیا پھر ے سری کا نکو پھر
بنیا ‘ تجارت پیشہ شخص کوکہتے ہیں ۔ بنیا بہت سو چ سمجھ کر کاروبار کر تا ہے ۔ اتفاق سے وہ ادرک زمین میں بو تا ہے اور ادرک کے پودینکل آتے ہیں اب اس ادرک کو زمین سے نکالنے والا ہی تھا کہ اچانک بارش تیز ہوجاتی ہے اور تمام ادرک کے پودے اسی پانی میں ڈوب جاتے ہے اور سڑ جاتے ہیں۔ ا س حالت میں بنیا گھر سے کھیت کی طرف آتا ہے اور کھیت سے گھر کی طرف جاتا ہے ا س کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ اب کیا کیا جاے ۔اسی موقع پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے ۔
اکماں کی ساڑی بکم ماں کی چولی ۔ بھر ے دربار میں جا کو کھولی
ایک غریب دیہاتی عورت کو گاوں کے بڑے پیسے والے کے گھر سے شادی کی دعوت آتی ہے ۔اس غریب کے پاس شادی میں پہننے کے لائق کوئی کپڑا نہیں تھا۔ اُس کے پڑوسن میں اکماں نام کی عورت سے ساڑی مانگ کر پہنتی ہے اور دوسری پڑوسی بکم ماں سے چولی مانگ کر پہنتی ہے ۔ اور یہ تینوں خواتین شادی میں جاتی ہیں ۔ وہاں دیگر خواتین بھی آتی ہیں اتفاق سے وہ ساڑی چولی کو پہچان لیتے ہیں اور طنز سے اس کی ساڑی اور چولی کی بہت تعریف کرتے ہیں ۔ غریب عورت اس طنز کو برداشت نہیں کرتی اور جھٹ خف4166وتی ہے ۔ وہ بھری محفل میں ساڑی اور چولی اتار کر دیتی ہے اور کہتی ہے یہ دونوں اکماں اور بکماں کے ہیں میرا کچھ بھی نہیں ہے ۔اسے اپنے برہنہ ہونے کی کچھ فکر نہیں ہوتی ۔
الیف بے ٹو ں ٹوں استاد کو پیٹوں
ایک گاوں میں ایک توتلی لڑکی تھی وہ پڑھائی میں بھی چور تھی ۔ استاد اُس کو دو لفظ الیف اور ب یاد کرکے آنے کو کہتا ہے ۔وہ لڑکی حرف ٹوں ٹوں ہی کہتی تھی ۔ استاد اُس لڑکی کو چھڑی سے مارتا ہے وہ اس پر ناراض ہو کر استاد کو کہتی ہے الیف ،ب ٹوں ٹوں استاد کو پیٹوں کہتے ہوئے۔ بھاگ کھڑی ہوتی ہے
۔ بارہ گھاٹ کا پانی پی کو آئی تُو
قدیم زمانے میں ہر گاوں میں ایک ہی گھاٹ ہوتا تھا جس کا پانی پیا جاتا تھا‘ لیکن کسی کی بہو بہت زیادہ ہوشیارتھی وہ ساس کی ہر بات کا جواب دیتی تھی تو ساس بہو سے کہتی ہے توُ تو بارہ گھاٹ کا پانی پی کر آئی ہے ۔
۔ بارہ سال کے بعد گھوڑکے بھی قسمت جاگتے
گھوڑ کچرے کے انبار کو کہتے ہیں۔ اس کہاوت میں اُس مقام کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں کچرا پھینکا جاتا ہے وہاں بارہ سال بعد کو ئی نہ کوئی گھر بنا لیتا ہے میری قسمت ایسی ہے کہ بارہ سال بھی گذر گئے لیکن کوئی ترقی نہیں ہوئی اور میری قسمت نہیں جاگی۔
۔ باندی جگ کے پاوں دھوتی مگر اپنے نہیں دھوتی
یہ بات مشہور ہے کہ گھر میں جو کام کرنے والی بائی ہوتی ہے وہ اپنی بی بییوں کے پاوں دھوتی رہتی ہے مگرخود اپنے پیر نہیں دھوتی اس لیے کہ وہ جب بھی منھ ہاتھ دھونے کے لیے بیٹھتی ہے تو کوئی نہ کوئی بی بی اسے کام کے لیے بلاتی ہے وہ جلدی جلدی منھ دھو کر پیر دھو ے بغیر بی بی کے پاس چلی جاتی ہے۔اُس لڑکی کو اپنے پیر دھونے کی فرصت ہی نہیں ہوتی ۔
۔ باوا مریں گے تو بیلاں بٹینگے
اس محاورے میں گاوں کی زندگی اور وہاں کے ماحول کی عکاسی کی گئی ہے ۔ گاوں میں لوگ عموماًکھیتی باڑی کرتے ہیں۔ زمین اور بیل کسان کا اثاثہ ہوتا ہے۔ گھر کا بڑا یعنی باپ تمام کاروبار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے ۔ کسان کے ایک لڑکے کی شادی کی جاتی ہے اور گھر میں نااتفاقی شروع ہوجاتی ہے بڑا لڑکا اپنی بیوی کے ساتھ گھر سیالگ ہو جاتا ہے پھر واپس آکر ماں سے کہتا ہے میرے حصہ کہ بیل دومجھے کھیت میں ہل چلاناہے ۔ اس بات پر ماں کہتی ہے کہ باوا مریں گے تو بیلاں بٹینگے جب تک کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔
۔ بچہ نا کچہ جی کو رکھو اچھا
اس محاورے میں ایک عورت دوسری عورت پر طنز کرتی ہے کہ تم کو بچہ ہے نا کچھ اور کام ہے اس لیے اپنی صحت اچھی رکھو کیونکہ تم اگر بیمار ہوجاوگی تو تمھاری خدمت کون کرے گا۔
۔ بڑی تو رائی بڑے کدو کو ڈرائی
یہ با ت مشہور ہے کہ جس کھیت میں تورائی کی بیل ڈالی جاتی ہے وہاں کدو کی بیل پروان نہیں چڑھتی اوروہاں کے کدو زیادہ بڑے نہیں ہوتے بالکل چھوٹے ہی رہ کر ختم ہوجاتے ہیں لیکن تورائی برابر پیدا ہوتی ہے۔سخت مزاج اور کھردرے لہجے والوں کے سامنے نرم و ملائم لہجے کے لوگ کبھی جیت نہیں پاتے۔ اس وجہہ سے یہ کہاوت مشہور ہے ۔
۔ بھوک لگی تو بھونک لیو انڈ ا لیکو سیک لیو
اس محاورے میں بھوکی عورت سے کہا جارہا ہے خوب چلا و اس قدر چلاو کے حلق میں آواز بیٹھ جائے اور جب درد ہونے لگے تو انڈا لے کر سیک لیو تمھارا حلق کا درد کم ہوجائے گا۔
۔ بھوکتا کتا کاٹتا نئیں کاٹتا کتا بھوکتا نئیں
دکنی کی یہ ضرب المثال بہت مشہور ہے اور آج بھی مستعمل ہے ۔ جیسے بھونکتا کتا کاٹتا نہیں اور جو کاٹتا ہے وہ بھونکتا نہیں ۔ کتے سے مثال دیکر اس انسان کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جو صرف دھمکیاں دیتا رہتا ہے مگر عمل نہیں کرتا اور جو خاموش مزاج ہوتا ہے وہ دھمکی نہیں دیتا مگر کام کرکے دکھاتا ہے۔
۔ بھیک کی چندی پو اترانا نئیں
اس محاورے میں اس عورت کی مثال دی جارہی ہے جو کسی کے خیرات میں کپڑے حاصل کرتی ہے او ر کسی دعوت میں جاتی ہے وہاں وہی کپڑے پہن کر اس عورت کے سامنے جاتی جس نے یہ کپڑے اسے دیے ہیں اور اس کو پہچاننے سے انکار کرتی ہے تو وہ خیرات کرنے والی عورت کہتی ہے کہ بھیک کی چندی پو اترانا نئیں۔
۔ بے حیا بولے تو ایم ایا بولیا
دکن میں مسلمانوں کے ساتھ تلگو عوام بھی مل جل کر رہتے ہیں۔ اس تلگو ملازم سے صاحب خانہ نے ا دبی زبان میں اس کو بے حیا کہہ کر بلایا تو وہ تلگو ملازم انتہائی ادب سے ایم ایّا (کیا بات ہے حضور)کہتا ہے
پانچ انگلیاں گھی میں سر کڑئی میں
عموماً اس وقت کہاجاتا ہے جب کوئی شخص بڑے آرام سے زندگی گزاررہا ہو کہ تمہاری پانچ انگلیاں گھی میں ہے یعنی روزآنہ تم گھی کے ساتھ کھانا کھا رہی ہو اور تمہارا سر کڑھی میں ہے یعنی کھانے اور پینے کی تم کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔عموما کسی دولت مند گھرانے میں رشتہ طئے ہونے پر بھی یہ کہاجاتا ہے۔
۔ پتلے گو پو پتھر نئیں مارنا چھینٹے اپن پوچ اچھلتیں
اس محاورے میں گندگی سے دور رہنا یا برے آدمی کی صحبت سیفاصلہ رکھنے کی طرف اشارہ ہے ۔ غلیظ فطرت کا انسان ہمیشہ شریف انسان کو تکلیف پہنچا تا ہے ۔ آپ سے اچھی بات کرے گا وہ اس کا غلط مطلب نکالے گا ۔ اور آپ کو تکلیف پہنچانے کی بات کرے گا۔اگر اس سے بحث و مباحثہ کیا جاے تو ہماری عزت ہی داو پر لگ جاے گی۔
۔ پتھر پگل جائے گا پر انو نئیں پِگلیں گے
ایک عورت اپنے شوہر کا گلہ کرتی ہے کہ وہ ایسا سخت مزاج ہے کہ پتھر کے سامنے اگر روئے تو وہ بھی پگل جائیگا مگر میرا شوہر نہیں پگلے گا۔
۔ پرائی کی کیا پڑی تو اپنی نبڑ
اس کہاوت میں ایک لفظ نبڑ آیا ہے جو آج کل کوئی استعمال نہیں کرتا ۔نبڑ کے لغوی معنی نمٹانا یا کام کرنا کے ہیں ۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے کام پر ہی نظر رکھتے ہیں۔ اس وجہہ سے ایک عورت دوسری عورت سے کہتی ہے دوسروں کے کام پر نظر نہ رکھ ‘ تو اپنا کام برابر کر ‘تاکہ دوسرے تجھے کوئی نام نہ رکھے۔
۔ پڑے پارس بیچے تیل
اس محاورے میں بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں ۔ قدیم زمانے میں تیل بنا نے کا طریقہ یہ تھا کہ تیل کے بیج لکڑی کے گھانے میں ڈالکر بیل کے ذریعہ پیسا جاتا تھا اس بیل کے گلے کی لکڑی سنبھالنے کے لئے ایک وزن پتھر رکھا جاتا تھا۔ تیل بنا نے والے دیہاتی آدمی کم عقل ہوتے تھے ۔انھیں نہیں معلوم کہ یہ پتھر جو رکھا گیا ہے کوئی معمولی پتھر نہیں ہے بلکہ پارس کا پتھر ہے جس کہ ذریعہ سے لو ہے کو پتھر پر گھسنے سے لوہا سونا ہوجاتا ہے ۔ اس طرح یہ محاورہ بنا پارس کا پتھر رکھ کر بھی تو تیل بیچ رہا ہے کیا بے وقوف انسان ہے ۔
۔ پڑھا نہ لکھا نام رکھا محمد فاضل
اس شخص کی طرف اشارہ ہے بلکہ طنز کیا جار ہا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہے جاہل ہے مگر اس کا نام محمد فاضل ہیں فاضل کے معنی علم جاننے والے کے ہیں۔
۔ پوریوں کی خوشی میں جورو کو اماں بولیا
شوہر کام پر جانے کے بعد گھر میں بیوی پوریاں پکاتی ہے شام کو جب اس کا شوہر گھر واپس آکر دیکھتا ہے اس کی بیوی پوریاں پکائی ہے وہ خوشی میں کہتا ہے کیا پکائی گے ماں پوریاں ! بعض انسان خوشیاں بھی سنبھال نہیں پاتے اور اپنے میں نہیں رہتے ۔
۔ پھگٹ کے مال پو دیدے لال
دکنی کے اس محاورے میں بعض لوگوں کی فطرت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دوسروں کے مال و متاع پر نظر رکھتے ہیں جو اسلام میں سخت منع ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جس کو جو دیا ہے اسی میں خوش ہونا چاہئیے مگرانسان بڑا لالچی ہوتا ہے مفت کے مال پر بھی اس کی نظر رہتی ہے۔
۔ پکے تلک ٹھیرے تھجے تلک نئیں ٹھیرے
بیوی اپنے شوہر سے کہتی ہے کھانا پکادیا ہے تھج رہا ہے ذرا دیر ہوگی لیکن شوہر کھانے کی جلدی کررہا ہے وہ کھانا پکنے تک انتظار کرتا ہے مگر تھجنے تک انتظار نہیں کرتا یہاں تھجنا کے معنی دم ہونے کے ہیں۔ان جلدباز لوگوں پر طنز ہے جو محنت تو کرتے ہیں اور منزل بھی قریب ہوتی ہے مگر ان کے صبر کا پیمانہ ٹوٹ جاتا ہے۔
۔ پیسہ والوں کی دوستی بندر کی دوستی برابر
یہاں سر مایہ داروں کی دوستی سے دور رہنے کی طرف اشارہ ہے کیوں کہ وہ اپنے پیسے پر مغرور ہو کر اپنی بات منوانا چاہتے ہیں ۔ سامنے والے کی قدر اور اہمیت نہیں رکھتے۔ دولت مندلوگ اپنی مر ضی کے ، خلاف بات سننا نہیں چاہتے ۔ غریب کی عزت نہیں کرتے اپنی دولت میں بندر بنے ہوئے ہوتے ہیں یعنی کبھی بھی آپ کو نوچ سکتے ہیں۔
۔ تسبیح پھیروں کس کو گھیروں
اس مکار شخص کی طرف اشارہ ہے جو صبح سے شام تک ہاتھ میں تسبیح پڑھتا رہتا ہے مگر لوگوں کوگھما پھرا کر دھوکہ دیتا رہتا ہے حالاں کہ اس کہ ہاتھ میں ہمیشہ تسبیح رہتی ہے مگر کام پورے شیطانی ہوتے ہیں ۔
۔ تگنی کا ناچ نچاونگی
تگنی سے مراد ایک قسم کی بے چینی ہے جس کو دور کرنے کے لیے انسان ناچتا ہے مگر بے چینی دور نہیں ہوتی۔اس محاورے میں اس شریر لڑکی کی طرف اشارہ ہے جو اکثر اپنی سہیلیوں سے کہتی ہے کہ ذرا شادی ہوجانے دو پھر سسرال والوں کو تگنی کا ناچ نچاوں گی ۔
۔ تقدیر کی کھوٹی جہاں گئی پیاز روٹی
اس عورت پر یہ محاورہ صادق آتا ہے جو صبح شام محنت و مشقت کرتی ہے مگر اس کی قسمت میں پیاز روٹی ہی لکھی ہوتی ہے ۔وہ لاکھ محنت کرے مگر اس کے رہن سہن اور کھانا پینا روکھا سوکھا ہی رہتا ہے۔
۔ تنگ کھانا منگ نئیں کھانا
دکنی کے اس محاورے میں کفایت شعار زندگی گذار نے کی طرف اشارہ ہے کہ اپنے حالات ٹھیک نہیں ہے تب بھی کم کھا کر زندگی گذارنا چاہئے۔ مگربھیک نہیں مانگنی چاہئے۔کیوں کہ بھیک سے عزت جاتی ہے ۔
۔ تیری جورو رُکھّی ‘ لگتی نہ لگالیتی
یہ ایک دلچسپ محاورہ ہے۔کچھ لڑکیاں خاموش طبیعت ہوتی ہیں کسی ہنسی مذاق تو کجا کسی سے بات بھی نہیں کرتیں۔ایسے موقع پر خاندان کی عورتیں خصوصاً ماں اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ تیری جورو تو بہت رُکّھی ہے نہ کسی سے بات۶ کرتی اور نہ کوئی اس سے بات کرتا۔
۔ ٹپک سُپاری لپکتا پان
اس محاورے میں اس عورت کی بات کی جارہی ہے جو دو عورتوں کی باتوں میں بیچ میں آکر کچھ بھی کہتی ہے یعنی ان دونوں کے درمیان میں دخل اندازی کرتی ہے ۔ ایسی عور ت کو یہ کہا جاتا ہے کہ ٹپک سپاری لپکتا پان ۔
۔ ثواب کو گائے دئے تو ‘ پچھواڑے جاکو دانت دیکھیا
دکنی کے اس محاورے میں ایک دولت مند زمین دار گاوں کے غریب کسان کو ثواب کی نیت سے ایک گائے دیتا ہے تاکہ اس کا گزر بسر ہوسکے مگر وہ دیہاتی بہت چالاک تھا وہ گائے لے کر پچھواڑے میں اس کے دانت دیکھتا ہے کہیں یہ ناکارہ گاے تو نہیں ہے کیوں کہ بوڑھی گاے کسی کام کی نہیں رہتی ۔
۔ جان نہ پہچان خالا ماں سلام
دکنی کی اس کہاوت میں ایک اجنبی عورت دوسری عورت کو خالاماں سلام کہتی ہے اور بے تکلف ہونے کی کوشش کرتی ہے اس پر وہ بڑی عمر والی عورت کہتی ہے میں تمھیں جانتی ناپہچانتی خالا ماں کہنے پر میں سلام کی ۔ اس طرح یہ محاورہ بنا۔
۔ جس کا کلاچ اُس کا اللہ چ
دکنی کے اس محاورے میں جو عورت لڑاکو ہوتی ہے اور جو زیادہ شور شرابا سے کام کرتی ہے۔ تمام دنیا اس کاساتھ دیتی ہے ۔خاموش بیٹھنے والے کا کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ یعنی جھوٹ کو جو کوئی چیخ چیخ کر کہتا ہے لوگ اس کو سچ مانتے ہیں ۔خاموشی سے کام کرنے والوں کی طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں۔
۔ جلتے سو گھر کا بھانسہ سئیں
دکنی کے اس محاورے میں اس انسان کی خود غرضی کی بات کہی جارہی ہے ۔ ایک مقام پر گھر جل رہا تھا کوئی آگ بجھارہا تھا وہاں ایک بھانسہ تھا جو نہیں جلا تھا خود غرض انسان اس کو لے کر بھا گ رہا تھا ۔جب لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوتو ہر انسان اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھانا چاہتا ہو تو اس وقت یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس مکار شخص کی طرف اشارہ ہے جو صبح سے شام تک ہاتھ میں تسبیح پڑھتا رہتا ہے مگر لوگوں کوگھما پھرا کر دھوکہ دیتا رہتا ہے حالاں کہ اس کہ ہاتھ میں ہمیشہ تسبیح رہتی ہے مگر کام پورے شیطانی ہوتے ہیں ۔
۔ تگنی کا ناچ نچاونگی
تگنی سے مراد ایک قسم کی بے چینی ہے جس کو دور کرنے کے لیے انسان ناچتا ہے مگر بے چینی دور نہیں ہوتی۔اس محاورے میں اس شریر لڑکی کی طرف اشارہ ہے جو اکثر اپنی سہیلیوں سے کہتی ہے کہ ذرا شادی ہوجانے دو پھر سسرال والوں کو تگنی کا ناچ نچاوں گی ۔
۔ تقدیر کی کھوٹی جہاں گئی پیاز روٹی
اس عورت پر یہ محاورہ صادق آتا ہے جو صبح شام محنت و مشقت کرتی ہے مگر اس کی قسمت میں پیاز روٹی ہی لکھی ہوتی ہے ۔وہ لاکھ محنت کرے مگر اس کے رہن سہن اور کھانا پینا روکھا سوکھا ہی رہتا ہے۔
۔ تنگ کھانا منگ نئیں کھانا
دکنی کے اس محاورے میں کفایت شعار زندگی گذار نے کی طرف اشارہ ہے کہ اپنے حالات ٹھیک نہیں ہے تب بھی کم کھا کر زندگی گذارنا چاہئے۔ مگربھیک نہیں مانگنی چاہئے۔کیوں کہ بھیک سے عزت جاتی ہے ۔
۔ تیری جورو رُکھّی ‘ لگتی نہ لگالیتی
یہ ایک دلچسپ محاورہ ہے۔کچھ لڑکیاں خاموش طبیعت ہوتی ہیں کسی ہنسی مذاق تو کجا کسی سے بات بھی نہیں کرتیں۔ایسے موقع پر خاندان کی عورتیں خصوصاً ماں اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ تیری جورو تو بہت رُکّھی ہے نہ کسی سے بات۶ کرتی اور نہ کوئی اس سے بات کرتا۔
۔ ٹپک سُپاری لپکتا پان
اس محاورے میں اس عورت کی بات کی جارہی ہے جو دو عورتوں کی باتوں میں بیچ میں آکر کچھ بھی کہتی ہے یعنی ان دونوں کے درمیان میں دخل اندازی کرتی ہے ۔ ایسی عور ت کو یہ کہا جاتا ہے کہ ٹپک سپاری لپکتا پان ۔
۔ ثواب کو گائے دئے تو ‘ پچھواڑے جاکو دانت دیکھیا
دکنی کے اس محاورے میں ایک دولت مند زمین دار گاوں کے غریب کسان کو ثواب کی نیت سے ایک گائے دیتا ہے تاکہ اس کا گزر بسر ہوسکے مگر وہ دیہاتی بہت چالاک تھا وہ گائے لے کر پچھواڑے میں اس کے دانت دیکھتا ہے کہیں یہ ناکارہ گاے تو نہیں ہے کیوں کہ بوڑھی گاے کسی کام کی نہیں رہتی ۔
۔ جان نہ پہچان خالا ماں سلام
دکنی کی اس کہاوت میں ایک اجنبی عورت دوسری عورت کو خالاماں سلام کہتی ہے اور بے تکلف ہونے کی کوشش کرتی ہے اس پر وہ بڑی عمر والی عورت کہتی ہے میں تمھیں جانتی ناپہچانتی خالا ماں کہنے پر میں سلام کی ۔ اس طرح یہ محاورہ بنا۔
۔ جس کا کلاچ اُس کا اللہ چ
دکنی کے اس محاورے میں جو عورت لڑاکو ہوتی ہے اور جو زیادہ شور شرابا سے کام کرتی ہے۔ تمام دنیا اس کاساتھ دیتی ہے ۔خاموش بیٹھنے والے کا کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ یعنی جھوٹ کو جو کوئی چیخ چیخ کر کہتا ہے لوگ اس کو سچ مانتے ہیں ۔خاموشی سے کام کرنے والوں کی طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں۔
۔ جلتے سو گھر کا بھانسہ سئیں
دکنی کے اس محاورے میں اس انسان کی خود غرضی کی بات کہی جارہی ہے ۔ ایک مقام پر گھر جل رہا تھا کوئی آگ بجھارہا تھا وہاں ایک بھانسہ تھا جو نہیں جلا تھا خود غرض انسان اس کو لے کر بھا گ رہا تھا ۔جب لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوتو ہر انسان اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھانا چاہتا ہو تو اس وقت یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔
آخری تدوین: