الف عین
لائبریرین
عورت ہونے کے ناطے عورت کو وہ لڑائیاں بھی لڑنا پڑتی ہیں ، جن میں وہ فریق نہیں ہوتی۔ جذب ہونے اور جذب کرنے کی خوبیاں نے اسے کتنا مشکل اور کتنا سہل بنا دیتی ہیں۔ دھرتی پر اپنے پاؤں جمائے رکھنے کے لئے اس قدم قدم اور ہر سانس اپنے آپ کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ ثبوت طلب کرنے والی بھی اکثر و بیشتر اس کی ہم جنس ہوتی ہے۔ کوسنوں کی شکل میں اس کے منہ سے اگلا جانے والا زہر شاید اس کی ساس کے دو پہر والے زہریلے کوسنے کا ردِ عمل تھا؟
آج ہی اس پر وار ہوا تھا اور آج ہی اس نے اپنی بقا کی جنگ جیت لی تھی۔ زنانہ جنگ میں نویدا کے ڈٹ کر لڑنے کی خبر ، احمد علی کے گھر لوٹنے سے پہلے ہی، احمد علی تک پہنچ چکی تھی۔ دیہاتنوں کی جنگ میں شہرن پہلی صف میں کھڑے ہو کر بے جگری سے لڑی تھی اور اس نے صفِ دشمناں کو تتر بتر کر دیا تھا۔ چند مہینوں ہی میں اس نے ٹھیٹھ دیہاتنوں کے طور و اطوار کامیابی کے ساتھ سیکھ لئے تھے۔ عورت بھی پانی کی طرح ہوتی ہے۔ اسے جس برتن میں ڈالو، اس کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
’‘ یہ اچھا نہیں ہوا " نواز کا خیال تھا
" کیوں ؟ "دستور کا سوال تھا
" تاریخ با با تاریخ۔ ا سکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ۔ جب شیر افگن نے ہمایوں کے دسترخوان پر ، بھنے ہوئے دنبے سے اپنے کھانے کے لئے گوشت کا ٹکڑا ، خنجر سے کاٹ کر الگ کیا تھا۔ بات ہے بھی اور نہیں بھی۔ معاشرے کے صدیوں پر انے رواج اور مزاج بدلے نہیں ہیں۔ وہ عائشہ ؓ ہو۔ مریمؓ ہو یا سیتا ، اسے کبھی نہ کبھی امتحان سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ پندرہ سولہ سال پہلے فریدہ کی وجہ سے مجھ سے میرا گھر چھوٹ گیا تھا اور آج نویدا کو اپنے گھر میں یہ ثابت کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ ہر حال میں اپنے نئے خاندان کے ساتھ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو کمزور بناتی ہے۔ مشرق ، مغرب، شمال اور جنوب کچھ بھی اس کی فطرت کو نہیں بدل سکتا۔ وہ جب جب کمزور پڑتی ہے ، مرد تب تب اور طاقتور ہوتا جاتا ہے۔ ویسے مرد بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کہ اسے اس کی مونچھیں کہیں کا نہیں رہنے دیتیں "
" اور ہمیں تم کہیں کا نہیں رہنے دیتے ؟سیر تفریح کے لئے آئے ہیں تو اس کا لطف اٹھانے دو " دستور نے اسے ٹوک دیا
" یعنی میں بور کرنے لگا ہوں ؟ " نواز نے استفسار کیا
" جی ہاں "
" تو پہلے بتا دینا تھا "
" تم کہیں رکتے تو کوئی کچھ کہہ پاتا؟ تمہارا حال تو اس عورت کا سا ہے۔ جو پہلی بار کھانا تقسیم کرنے بیٹھی تھی اور اس نے کھانے کی تقسیم کا آغاز گھر کے بڑوں سے کیا تھا۔ بڑوں کو کھانا دیتے دیتے وہ سب سے چھوٹے بچے کو تقریباً نظر انداز کر چکی تھی۔ چھوٹے بچے کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہ زیادہ دیر تک انتظار نہ کر سکا اور تنگ آ کر کہنے لگا۔ "بے بے ، تو آج ڈاک گاڑی بنی ہوئی ہے ، چھوٹے اسٹیشنوں پر رکتی ہی نہیں۔ "
"اب تم ڈاک گاڑی نہ بنو " میں نے دستور کو یاد دلایا اور بات ختم ہو گئی۔ چائے آ گئی تھی۔ سبھی نے چائے پینا شروع کر دی تو دستور نے یاد دلایا کہ بھائی احمد علی کو تو کسی نے چائے دی ہی نہیں۔ جس پر احمد علی نے بتایا کہ وہ چائے نہیں پیتا۔
"کیوں ؟" میں نے پھر سوال کیا
" اچھے بچے بڑوں کی باتوں میں دخل نہیں دیتے "دستور نے مسکرا کر احمد علی کی طرف سے جواب دے دیا" ویسے بھائی احمد علی، آپ چائے کیوں نہیں پیتے ؟"دستور نے معنی خیز نظروں سے احمد علی کو گھورتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں سوال پھر دہرا دیا۔
ہماری شب گزاری کا انتظام بیٹھک میں کیا گیا تھا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد ہم بیٹھک میں آئے تو اس کے ایک کونے میں چھت تک گنوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میرے استفسار پر کہ گنے کچھ زیادہ لگ رہے ہیں۔ احمد علی نے نفی میں سر ہلا کر بتایا کہ ایک تو گنے پُونے ہیں۔ دوسرے ہمارے علاوہ اور لوگ بھی گپ شپ کے لئے آئیں گے اور گنے چوسیں گے۔ آتشدان میں لکڑیاں جلا کر کمرے کو اتنا گرم کر دیا گیا تھا کہ ہماری رضائیوں میں بیٹھ کر گنے چوسنے کی حسرت دھری کی دھری رہ گئی۔ ہمارے ساتھ گپ شپ کے لئے اتنے لوگ آ گئے تھے کہ کرسیاں بھر جانے کے بعد ہماری چار پائیوں پر بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں رہی تھی اور کمرہ لکڑیوں اور سانسوں کی گرمی سے جلنے لگا تھا۔
بات چیت شروع ہوئی اور جلد ہی کچھ لوگوں نے میرے اور نواز کے لہجے سے ہمارے سیالکوٹی ہونے کا اندازہ لگا لیا۔ سیالکوٹ کا ذکر آیا تو اس وقت کے مقبول فلمی گانے "اوہ منڈیا سیاکوٹیا " کا ذکر چھڑ گیا۔ گانے کے ذکر سے بات فلموں تک آ گئی۔ نواز تو ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا کہ رنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آئے۔ اسے کسی پسندیدہ موضوع کی تلاش تھی اور وہ اسے مل گیا تھا۔ اس کی دربدری کا آغاز ایک طرح سے فلموں کی باتوں سے ہوا تھا اور فلمیں اس کے شب و روز کا لازمی حصہ بن چکیں تھیں۔ سادھے سادھے دیہاتی سامعین اس کے ہاتھ آ گئے تھے۔ نواز نے فریدہ کی طرح فلم کے پر دے پر کبھی قہقہے اور کبھی آنسو بکھیرتے ہوئے کرداروں کی باتیں چھیڑ کر سماں باندھ دیا۔
سال ہا سال کی در بدری اور دشت نوردی نے سیدھے سادھے اور نادان لڑکے کو ایک تجربہ کار داستان گو بنا دیا تھا۔ برسوں پہلے لفظوں سے مبہوت ہونے والا نواز اب خود لفظ تماشے سے اپنے سامعین کو گھائل کر سکتا تھا۔ وہ لفظوں سے مر مریں پیکر تراش سکتا تھا۔ انہیں زندہ کر سکتا تھا اور مار سکتا تھا۔ روح پر لگے ہوئے چرکوں نے لفظوں کا روپ دھار لیا تھا۔ اپنی چرب زبانی اور بے پناہ لفاظی کے بل بوتے پر ، کچھ دیر کے لئے سہی ، وہ وقت کی گردش کو بھی روک سکتا تھا۔ وہ ایک بار پہلے بھی اس کا مظاہرہ کر چکا تھا۔ اس کی قوتِ داستان گوئی ایک بار پھر عروج پر تھا۔ فرق تھا تو یہ کہ اس روز وہ ہڈ بیتی سنا رہا تھا اور آج جگ بیتی سنا رہا تھا۔
احوالِ مہ رخاں اور تذکرۂ پر ی وشاں نے سننے والوں کو مبہوت کر دیا تھا۔ فلمی کردار اس کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور اس کی انگلی کے ذرا سے اشارے پر دیکھنے والوں کے سامنے جھک کر سلام کرنے لگتے تھے۔ ہر کردار اپنا احوال بیان کرنے کے بعد کورنش بجا لاتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتا اور نیا کردار سامنے آ جاتا۔ مرد کرداروں کے مقابلے میں نسوانی زیادہ دیر تک سٹیج پر رکتے اور دیکھنے والوں کا دل لبھاتے۔
مدھو بالا سب کے آخر میں سٹیج پر آئی تو نواز بے خود ہو کر خود بھی سٹیج پر آ گیا۔ مدھو بالا سے باتیں کرتا کرتا، وہ اُسے دیکھنے والوں کے اتنا قریب لے آیا کہ دیکھنے والے اُسے چھو کر محسوس تو کیا؟ اُس کے دل کی دھڑکن تک سن سکتے تھے۔ رات کی خاموشی میں لفظ جیسے نازل ہو رہے تھے۔ لڑاکو، بات بات پر جھگڑا کرنے والے اور پانی کاٹنے میں چند منٹوں کی دیر یا سویر پر لاٹھیاں نکال لینے والے اجڈ اور گنوار دیہاتی، بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ ہمہ تن گوش بیٹھے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ رات کب اور کیسے گزر گئی ؟ کسی کو خبر تک نہیں ہوئی۔ فجر کی اذان نے جب یہ طلسم توڑا تو یوں لگ رہا تھا کہ ہم سب ایک گہری نیند سے بیدار ہوئے ہیں۔ صبحِ صادق طلوع ہو چلی تھی۔ کٹھ پتلیوں کا ناچ یکا یک تھم گیا۔ شہرِ تماشا آناً فاناً آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ تماشا گاہ جیسے تھی ہی نہیں۔ احمد علی کی بیٹھک تھی اور ہم۔ گنے کے چھلکوں کے ڈھیر چارپائیوں سے اوپر اٹھ آئے تھے۔
" تو کیا ہم نے ساری رات سیر گاہِ خیال میں اٹھکیلیاں کرتے کرتے کاٹ دی ہے ؟جو کچھ ہم نے سنا ، جو کچھ ہم نے دیکھا کیا وہ سب وہم تھا؟ " سننے والوں کی آنکھوں میں ایک تحیر تھا۔ نواز الف لیلیٰ و لیلیٰ کی داستان کے پیرِ تسمہ پا کی طرح رات بھر ہمارے کندھوں پر سوار رہا تھا۔ "یار زندہ صحبت باقی"کہہ کر نواز نے محفل کی برخواستگی کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ رات اور بات ختم ہو چکی تھی۔ گاؤں والے چلے گئے تومیں نواز سے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ رات ہمارے سامنے تم تھے یا کوئی جادوگر؟
"وہ نہ میں تھا اور نہ کوئی جادوگر۔ ایک ہارا ہوا آدمی زندہ رہنے کی کوشش کر رہا تھا "
ہمارا ارادہ گاؤں میں ایک رات رکنے اور صبح واپسی کا تھا مگر پوری رات جاگنے کے بعد ہمارے لئے رختِ سفر باندھنا ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ حوائجِ ضروریہ سے فراغت اور ناشتے کے بعد ہم سو گئے۔ بعد از دو پہر ہمارے جاگنے تک کھانا تیار ہو چکا تھا۔ ہم کھانا کھا چکے تو احمد علی ہمیں اپنے کھیت دکھانے لے گیا۔ کھیتوں سے واپسی پر نہر کے پل پر ہمیں ایک مداری مل گیا اور تماشا دکھانے پر اصرار کرنے لگا۔ وہیں پل کی دیوار پر بیٹھ کر ہم تماشا دیکھنے لگے۔ بچپن کی یادیں پھر تازہ ہونے لگیں۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم چارآج اکیلے مداری پر نظر رکھ کر تماشے کا راز جان لیں گے اور پھر اس کا مذاق اڑائیں گے۔ وہ تماشا دکھاتا رہا مگر کوشش کے باوجود ہم اس کی کوئی کمزوری پکڑ نہیں پائے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے اس نے ایک سے دو ، دو سے چار اور چار سے آٹھ روپے بنائے۔ بہی کھاتے کی پر انی کتاب کے صفحوں سے چھینٹ کے کپڑے کے نئے نئے ڈیزائین نکال کر دکھائے گلاس میں پانی اور پانی میں گوبر ڈالا اور ملغوبہ سا بنا کر احمد علی پر پھینکا۔ مغولبے سے پھول بنائے۔ پر انے بوسیدہ ہیٹ سے خر گوش نکالا اور غائب کیا۔ بچے جمورے کو ایک بڑے ٹو کرے ڈال کر چادر سے ڈھانپا اور غائب کیا۔ باری باری ہر ایک سے پوچھا کہ وہ کیا کھائے گا یا کیا پئے گا؟کسی نے سیب مانگا تو اسے ٹوکرے سے سیب نکال کر دیا۔ کسی نے کسی خاص مشروب کا مطالبہ کیا تواسی مشروب کی بوتل حاضر کر دکھائی۔ تماشا ختم ہو گیا اور ہم اس کا محنتانہ ادا کر چکے تو وہ اپنا سامان سمیٹنے لگا۔
"میرا یہ دوست پوچھ رہا ہے کہ ابھی ابھی تم کوئی ٹرِک(trick ( استعمال کر رہے تھے یا کہ یہ کوئی جادو تھا؟ "نواز نے مداری کو مخاطب کرتے ہوئے اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
" جو کچھ بھی آپ کا دل مان لے ، وہی ٹھیک ہے " وہ مسکرا کر بولا
"یہ تھے تو ٹِرک(trick ) مگر ایک سوال تھوڑا تنگ کر رہا ہے "میں وضاحت کی۔
"پوچھ لو، آج مداری بھی ترنگ میں ہے اور آج کے بعد آپ بھی کب یہ تماشا دیکھنے والے ہیں ؟شہروں میں ہم جیسے مداریوں کا اب کیا کام؟وہاں تو بڑے بڑے مداری آتے ہیں اور بڑے بڑے تماشے کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہاں یہ سوال پوچھ سکو گے ؟"
"ٹوکرے والا کرتب دکھاتے وقت تم ہر کسی سے پوچھ رہے تھے کہ اسے کیا چائیے ؟ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ چیزیں تمہارے پاس تھیں اور تم اپنے ہاتھ کی صفائی سے انہیں نکال نکال کر مانگنے والے کو دکھاتے جا رہے تھے۔ جو سوال مجھے تنگ کر رہا ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی چیز مانگ لیتا ، جو تمہارے پاس نہیں تھی تو تم کیا کرتے ؟"
"سوال اچھا ہے میرے بھائی۔ اسے ایسے سمجھ لو کہ بچے اکثر ماؤں سے ایسی چیزوں کی ضد کرتے رہتے ہیں ، جو اس کے پاس نہیں ہوتیں ، وہ اپنے پاس موجود چیزوں کو دائیں بائیں کر کے ضد کرتے ہوئے بچے کو چپ کرا لیتی ہیں۔ بچہ کہتا ہے کہ اس دہی سے شکر نکال دو۔ ماں شکر نکالنے کی اداکاری کرتی ہے اور کہتی ہے "یہ دیکھو شکر نکال دی "۔ بچہ ماں کی بات کا یقین کر لیتا ہے اور وہی دہی کھانے لگتا ہے۔ ساری ترکیبیں ناکام ہو جائیں تو ان کا آخری ہتھیار بچے کی توجہ کسی اور طرف مبذول کرا دینا ہوتا ہے۔ ماں بچے کے ہاتھ سے کوئی چیز غائب کرنا چاہتی ہے تو مخالف سمت میں اشارہ کرتی ہوئی کہتی ہے۔
"وہ دیکھو! کوا۔ بچہ کوے کی طرف دیکھتا ہے اور چیز غائب ہو جاتی ہے۔ ماں اسے کہیں چھپا دیتی ہے۔ ہم مداری بھی یہی کرتے ہیں۔ بات توجہ کی ہے۔ توجہ ہٹا دو "۔ وہ اپنا سامان سمیٹ چکا تھا۔ اپنی زنبیل اپنے کندھے پر ڈالتے ہوئے اس نے ہماری طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔
" کوئی اور سوال؟"ہماری طرف سے کسی نئے سوال کے آثار نہ پا کراس نے ایک گہری سانس لی اور بچے جمورے کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا" باؤ جی ! آپ کو خبر نہیں کہ آپ نے مجھ سے بظاہر ایک بے ضر ر ساسوال پوچھ کر میرے سینے پر سوار سالوں پر انا بوجھ اتار دیا ہے۔ مائیں بھی کہاں کہاں کام آتی ہیں ؟"
مداری چلا گیا تو نواز میری طرف دیکھ کر بولا۔ " مداری کا جواب تمایرے صبح والے سوال کا جواب تھا۔ ""بیچارہ مداری بھی ہماری طرح دکھی نکلا۔ اس دنیا میں کوئی خوش ہے بھی؟" نواز نے دبی زبان میں شاید خود سے سرگوشی کی۔
"کیا کہا؟" احمد علی نے چونک کر کہا
"کچھ نہیں "نواز منمنایا" اوپر والے سے دعا کر رہا تھا کہ وہ سب کو خوش رکھے۔ "
"آمین"
آج ہی اس پر وار ہوا تھا اور آج ہی اس نے اپنی بقا کی جنگ جیت لی تھی۔ زنانہ جنگ میں نویدا کے ڈٹ کر لڑنے کی خبر ، احمد علی کے گھر لوٹنے سے پہلے ہی، احمد علی تک پہنچ چکی تھی۔ دیہاتنوں کی جنگ میں شہرن پہلی صف میں کھڑے ہو کر بے جگری سے لڑی تھی اور اس نے صفِ دشمناں کو تتر بتر کر دیا تھا۔ چند مہینوں ہی میں اس نے ٹھیٹھ دیہاتنوں کے طور و اطوار کامیابی کے ساتھ سیکھ لئے تھے۔ عورت بھی پانی کی طرح ہوتی ہے۔ اسے جس برتن میں ڈالو، اس کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
’‘ یہ اچھا نہیں ہوا " نواز کا خیال تھا
" کیوں ؟ "دستور کا سوال تھا
" تاریخ با با تاریخ۔ ا سکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ۔ جب شیر افگن نے ہمایوں کے دسترخوان پر ، بھنے ہوئے دنبے سے اپنے کھانے کے لئے گوشت کا ٹکڑا ، خنجر سے کاٹ کر الگ کیا تھا۔ بات ہے بھی اور نہیں بھی۔ معاشرے کے صدیوں پر انے رواج اور مزاج بدلے نہیں ہیں۔ وہ عائشہ ؓ ہو۔ مریمؓ ہو یا سیتا ، اسے کبھی نہ کبھی امتحان سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ پندرہ سولہ سال پہلے فریدہ کی وجہ سے مجھ سے میرا گھر چھوٹ گیا تھا اور آج نویدا کو اپنے گھر میں یہ ثابت کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ ہر حال میں اپنے نئے خاندان کے ساتھ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو کمزور بناتی ہے۔ مشرق ، مغرب، شمال اور جنوب کچھ بھی اس کی فطرت کو نہیں بدل سکتا۔ وہ جب جب کمزور پڑتی ہے ، مرد تب تب اور طاقتور ہوتا جاتا ہے۔ ویسے مرد بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کہ اسے اس کی مونچھیں کہیں کا نہیں رہنے دیتیں "
" اور ہمیں تم کہیں کا نہیں رہنے دیتے ؟سیر تفریح کے لئے آئے ہیں تو اس کا لطف اٹھانے دو " دستور نے اسے ٹوک دیا
" یعنی میں بور کرنے لگا ہوں ؟ " نواز نے استفسار کیا
" جی ہاں "
" تو پہلے بتا دینا تھا "
" تم کہیں رکتے تو کوئی کچھ کہہ پاتا؟ تمہارا حال تو اس عورت کا سا ہے۔ جو پہلی بار کھانا تقسیم کرنے بیٹھی تھی اور اس نے کھانے کی تقسیم کا آغاز گھر کے بڑوں سے کیا تھا۔ بڑوں کو کھانا دیتے دیتے وہ سب سے چھوٹے بچے کو تقریباً نظر انداز کر چکی تھی۔ چھوٹے بچے کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہ زیادہ دیر تک انتظار نہ کر سکا اور تنگ آ کر کہنے لگا۔ "بے بے ، تو آج ڈاک گاڑی بنی ہوئی ہے ، چھوٹے اسٹیشنوں پر رکتی ہی نہیں۔ "
"اب تم ڈاک گاڑی نہ بنو " میں نے دستور کو یاد دلایا اور بات ختم ہو گئی۔ چائے آ گئی تھی۔ سبھی نے چائے پینا شروع کر دی تو دستور نے یاد دلایا کہ بھائی احمد علی کو تو کسی نے چائے دی ہی نہیں۔ جس پر احمد علی نے بتایا کہ وہ چائے نہیں پیتا۔
"کیوں ؟" میں نے پھر سوال کیا
" اچھے بچے بڑوں کی باتوں میں دخل نہیں دیتے "دستور نے مسکرا کر احمد علی کی طرف سے جواب دے دیا" ویسے بھائی احمد علی، آپ چائے کیوں نہیں پیتے ؟"دستور نے معنی خیز نظروں سے احمد علی کو گھورتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں سوال پھر دہرا دیا۔
ہماری شب گزاری کا انتظام بیٹھک میں کیا گیا تھا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد ہم بیٹھک میں آئے تو اس کے ایک کونے میں چھت تک گنوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میرے استفسار پر کہ گنے کچھ زیادہ لگ رہے ہیں۔ احمد علی نے نفی میں سر ہلا کر بتایا کہ ایک تو گنے پُونے ہیں۔ دوسرے ہمارے علاوہ اور لوگ بھی گپ شپ کے لئے آئیں گے اور گنے چوسیں گے۔ آتشدان میں لکڑیاں جلا کر کمرے کو اتنا گرم کر دیا گیا تھا کہ ہماری رضائیوں میں بیٹھ کر گنے چوسنے کی حسرت دھری کی دھری رہ گئی۔ ہمارے ساتھ گپ شپ کے لئے اتنے لوگ آ گئے تھے کہ کرسیاں بھر جانے کے بعد ہماری چار پائیوں پر بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں رہی تھی اور کمرہ لکڑیوں اور سانسوں کی گرمی سے جلنے لگا تھا۔
بات چیت شروع ہوئی اور جلد ہی کچھ لوگوں نے میرے اور نواز کے لہجے سے ہمارے سیالکوٹی ہونے کا اندازہ لگا لیا۔ سیالکوٹ کا ذکر آیا تو اس وقت کے مقبول فلمی گانے "اوہ منڈیا سیاکوٹیا " کا ذکر چھڑ گیا۔ گانے کے ذکر سے بات فلموں تک آ گئی۔ نواز تو ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا کہ رنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آئے۔ اسے کسی پسندیدہ موضوع کی تلاش تھی اور وہ اسے مل گیا تھا۔ اس کی دربدری کا آغاز ایک طرح سے فلموں کی باتوں سے ہوا تھا اور فلمیں اس کے شب و روز کا لازمی حصہ بن چکیں تھیں۔ سادھے سادھے دیہاتی سامعین اس کے ہاتھ آ گئے تھے۔ نواز نے فریدہ کی طرح فلم کے پر دے پر کبھی قہقہے اور کبھی آنسو بکھیرتے ہوئے کرداروں کی باتیں چھیڑ کر سماں باندھ دیا۔
سال ہا سال کی در بدری اور دشت نوردی نے سیدھے سادھے اور نادان لڑکے کو ایک تجربہ کار داستان گو بنا دیا تھا۔ برسوں پہلے لفظوں سے مبہوت ہونے والا نواز اب خود لفظ تماشے سے اپنے سامعین کو گھائل کر سکتا تھا۔ وہ لفظوں سے مر مریں پیکر تراش سکتا تھا۔ انہیں زندہ کر سکتا تھا اور مار سکتا تھا۔ روح پر لگے ہوئے چرکوں نے لفظوں کا روپ دھار لیا تھا۔ اپنی چرب زبانی اور بے پناہ لفاظی کے بل بوتے پر ، کچھ دیر کے لئے سہی ، وہ وقت کی گردش کو بھی روک سکتا تھا۔ وہ ایک بار پہلے بھی اس کا مظاہرہ کر چکا تھا۔ اس کی قوتِ داستان گوئی ایک بار پھر عروج پر تھا۔ فرق تھا تو یہ کہ اس روز وہ ہڈ بیتی سنا رہا تھا اور آج جگ بیتی سنا رہا تھا۔
احوالِ مہ رخاں اور تذکرۂ پر ی وشاں نے سننے والوں کو مبہوت کر دیا تھا۔ فلمی کردار اس کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور اس کی انگلی کے ذرا سے اشارے پر دیکھنے والوں کے سامنے جھک کر سلام کرنے لگتے تھے۔ ہر کردار اپنا احوال بیان کرنے کے بعد کورنش بجا لاتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتا اور نیا کردار سامنے آ جاتا۔ مرد کرداروں کے مقابلے میں نسوانی زیادہ دیر تک سٹیج پر رکتے اور دیکھنے والوں کا دل لبھاتے۔
مدھو بالا سب کے آخر میں سٹیج پر آئی تو نواز بے خود ہو کر خود بھی سٹیج پر آ گیا۔ مدھو بالا سے باتیں کرتا کرتا، وہ اُسے دیکھنے والوں کے اتنا قریب لے آیا کہ دیکھنے والے اُسے چھو کر محسوس تو کیا؟ اُس کے دل کی دھڑکن تک سن سکتے تھے۔ رات کی خاموشی میں لفظ جیسے نازل ہو رہے تھے۔ لڑاکو، بات بات پر جھگڑا کرنے والے اور پانی کاٹنے میں چند منٹوں کی دیر یا سویر پر لاٹھیاں نکال لینے والے اجڈ اور گنوار دیہاتی، بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ ہمہ تن گوش بیٹھے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ رات کب اور کیسے گزر گئی ؟ کسی کو خبر تک نہیں ہوئی۔ فجر کی اذان نے جب یہ طلسم توڑا تو یوں لگ رہا تھا کہ ہم سب ایک گہری نیند سے بیدار ہوئے ہیں۔ صبحِ صادق طلوع ہو چلی تھی۔ کٹھ پتلیوں کا ناچ یکا یک تھم گیا۔ شہرِ تماشا آناً فاناً آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ تماشا گاہ جیسے تھی ہی نہیں۔ احمد علی کی بیٹھک تھی اور ہم۔ گنے کے چھلکوں کے ڈھیر چارپائیوں سے اوپر اٹھ آئے تھے۔
" تو کیا ہم نے ساری رات سیر گاہِ خیال میں اٹھکیلیاں کرتے کرتے کاٹ دی ہے ؟جو کچھ ہم نے سنا ، جو کچھ ہم نے دیکھا کیا وہ سب وہم تھا؟ " سننے والوں کی آنکھوں میں ایک تحیر تھا۔ نواز الف لیلیٰ و لیلیٰ کی داستان کے پیرِ تسمہ پا کی طرح رات بھر ہمارے کندھوں پر سوار رہا تھا۔ "یار زندہ صحبت باقی"کہہ کر نواز نے محفل کی برخواستگی کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ رات اور بات ختم ہو چکی تھی۔ گاؤں والے چلے گئے تومیں نواز سے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ رات ہمارے سامنے تم تھے یا کوئی جادوگر؟
"وہ نہ میں تھا اور نہ کوئی جادوگر۔ ایک ہارا ہوا آدمی زندہ رہنے کی کوشش کر رہا تھا "
ہمارا ارادہ گاؤں میں ایک رات رکنے اور صبح واپسی کا تھا مگر پوری رات جاگنے کے بعد ہمارے لئے رختِ سفر باندھنا ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ حوائجِ ضروریہ سے فراغت اور ناشتے کے بعد ہم سو گئے۔ بعد از دو پہر ہمارے جاگنے تک کھانا تیار ہو چکا تھا۔ ہم کھانا کھا چکے تو احمد علی ہمیں اپنے کھیت دکھانے لے گیا۔ کھیتوں سے واپسی پر نہر کے پل پر ہمیں ایک مداری مل گیا اور تماشا دکھانے پر اصرار کرنے لگا۔ وہیں پل کی دیوار پر بیٹھ کر ہم تماشا دیکھنے لگے۔ بچپن کی یادیں پھر تازہ ہونے لگیں۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم چارآج اکیلے مداری پر نظر رکھ کر تماشے کا راز جان لیں گے اور پھر اس کا مذاق اڑائیں گے۔ وہ تماشا دکھاتا رہا مگر کوشش کے باوجود ہم اس کی کوئی کمزوری پکڑ نہیں پائے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے اس نے ایک سے دو ، دو سے چار اور چار سے آٹھ روپے بنائے۔ بہی کھاتے کی پر انی کتاب کے صفحوں سے چھینٹ کے کپڑے کے نئے نئے ڈیزائین نکال کر دکھائے گلاس میں پانی اور پانی میں گوبر ڈالا اور ملغوبہ سا بنا کر احمد علی پر پھینکا۔ مغولبے سے پھول بنائے۔ پر انے بوسیدہ ہیٹ سے خر گوش نکالا اور غائب کیا۔ بچے جمورے کو ایک بڑے ٹو کرے ڈال کر چادر سے ڈھانپا اور غائب کیا۔ باری باری ہر ایک سے پوچھا کہ وہ کیا کھائے گا یا کیا پئے گا؟کسی نے سیب مانگا تو اسے ٹوکرے سے سیب نکال کر دیا۔ کسی نے کسی خاص مشروب کا مطالبہ کیا تواسی مشروب کی بوتل حاضر کر دکھائی۔ تماشا ختم ہو گیا اور ہم اس کا محنتانہ ادا کر چکے تو وہ اپنا سامان سمیٹنے لگا۔
"میرا یہ دوست پوچھ رہا ہے کہ ابھی ابھی تم کوئی ٹرِک(trick ( استعمال کر رہے تھے یا کہ یہ کوئی جادو تھا؟ "نواز نے مداری کو مخاطب کرتے ہوئے اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
" جو کچھ بھی آپ کا دل مان لے ، وہی ٹھیک ہے " وہ مسکرا کر بولا
"یہ تھے تو ٹِرک(trick ) مگر ایک سوال تھوڑا تنگ کر رہا ہے "میں وضاحت کی۔
"پوچھ لو، آج مداری بھی ترنگ میں ہے اور آج کے بعد آپ بھی کب یہ تماشا دیکھنے والے ہیں ؟شہروں میں ہم جیسے مداریوں کا اب کیا کام؟وہاں تو بڑے بڑے مداری آتے ہیں اور بڑے بڑے تماشے کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہاں یہ سوال پوچھ سکو گے ؟"
"ٹوکرے والا کرتب دکھاتے وقت تم ہر کسی سے پوچھ رہے تھے کہ اسے کیا چائیے ؟ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ چیزیں تمہارے پاس تھیں اور تم اپنے ہاتھ کی صفائی سے انہیں نکال نکال کر مانگنے والے کو دکھاتے جا رہے تھے۔ جو سوال مجھے تنگ کر رہا ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی چیز مانگ لیتا ، جو تمہارے پاس نہیں تھی تو تم کیا کرتے ؟"
"سوال اچھا ہے میرے بھائی۔ اسے ایسے سمجھ لو کہ بچے اکثر ماؤں سے ایسی چیزوں کی ضد کرتے رہتے ہیں ، جو اس کے پاس نہیں ہوتیں ، وہ اپنے پاس موجود چیزوں کو دائیں بائیں کر کے ضد کرتے ہوئے بچے کو چپ کرا لیتی ہیں۔ بچہ کہتا ہے کہ اس دہی سے شکر نکال دو۔ ماں شکر نکالنے کی اداکاری کرتی ہے اور کہتی ہے "یہ دیکھو شکر نکال دی "۔ بچہ ماں کی بات کا یقین کر لیتا ہے اور وہی دہی کھانے لگتا ہے۔ ساری ترکیبیں ناکام ہو جائیں تو ان کا آخری ہتھیار بچے کی توجہ کسی اور طرف مبذول کرا دینا ہوتا ہے۔ ماں بچے کے ہاتھ سے کوئی چیز غائب کرنا چاہتی ہے تو مخالف سمت میں اشارہ کرتی ہوئی کہتی ہے۔
"وہ دیکھو! کوا۔ بچہ کوے کی طرف دیکھتا ہے اور چیز غائب ہو جاتی ہے۔ ماں اسے کہیں چھپا دیتی ہے۔ ہم مداری بھی یہی کرتے ہیں۔ بات توجہ کی ہے۔ توجہ ہٹا دو "۔ وہ اپنا سامان سمیٹ چکا تھا۔ اپنی زنبیل اپنے کندھے پر ڈالتے ہوئے اس نے ہماری طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔
" کوئی اور سوال؟"ہماری طرف سے کسی نئے سوال کے آثار نہ پا کراس نے ایک گہری سانس لی اور بچے جمورے کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا" باؤ جی ! آپ کو خبر نہیں کہ آپ نے مجھ سے بظاہر ایک بے ضر ر ساسوال پوچھ کر میرے سینے پر سوار سالوں پر انا بوجھ اتار دیا ہے۔ مائیں بھی کہاں کہاں کام آتی ہیں ؟"
مداری چلا گیا تو نواز میری طرف دیکھ کر بولا۔ " مداری کا جواب تمایرے صبح والے سوال کا جواب تھا۔ ""بیچارہ مداری بھی ہماری طرح دکھی نکلا۔ اس دنیا میں کوئی خوش ہے بھی؟" نواز نے دبی زبان میں شاید خود سے سرگوشی کی۔
"کیا کہا؟" احمد علی نے چونک کر کہا
"کچھ نہیں "نواز منمنایا" اوپر والے سے دعا کر رہا تھا کہ وہ سب کو خوش رکھے۔ "
"آمین"