دکھ کے موسم

دکھ کے موسم
محمد خلیل الرحمٰن

پارسال جب کوئل اپنے گھر کے آنگن کوکنے آئی ہم نے سوچا تھا
اس بِرہن کا دکھ بھی کتنا گہرا ہے
آج بھی جیسے تیسے کرتے رات بتائی
اب یہ سوچا ہے
آج بھی کوئل اپنے آنگن کوکے گی تو پوچھیں گے
اے پاپن کیا
گرما کی لمبی دوپہریں بھی
دکھ کے موسم ہوتے ہیں؟
 

یاسر شاہ

محفلین
درد انگیز نظم -


تکنیکی اعتبار سے بقول آپ کے میری صلاح یہ ہے کہ اس آپ کی نظم میں "فعل فعولن/فعلن فعلن " کی تکرار دکھائی دی ،دو مقامات کے علاوہ- انھیں اس طرح بدل دیں -

پار سال =پچھلے برس

اب یہ سوچا ہے =اب یہ سوچ رہا ہوں

ایک زمانے میں کوکتی کویل پہ میں نے بھی ایک شعر کہا تھا :

کویل اری کویل ! تجھے کس بات کا غم ہے ؟
اس کُوک سے تیری تو مری آنکھ بھی نم ہے

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
السلام علیکم خلیل اور یاسر
'پارسال جب ' فعل فاعلن ہونے پر بھی اس بحر ہندی میں جائز مانا جا سکتا ہے
پچھلے برس سے روانی بہتر ضرور ہو جاتی ہے میرے خیال میں
سوچ رہا ہوں اس لیے بہتر ضرور ہے کہ اب حال کی بات کی جا رہی ہے
البتہ ایک بات جو نوٹس کی وہ یہ کویل اپنے ہی آنگن میں کوکنے آئی تھی یا خلیل میاں کے؟ بہتر ہے کہ 'اپنے انگن' کی جگہ 'میرے انگن' کر دیا جائے اور اسی مناسبت سے آگے بھی 'پوچھیں گے' کو 'پوچھون گا' کر دیا جائے
 
استاد محترم جناب الف عین اور یاسر شاہ بھائی کی خصوصی توجہ پر ان دونوں کے ممنون و متشکر ہیں۔ دونوں کی اصلاح کے بعد گویا یہ شکل بنی

دکھ کے موسم
محمد خلیل الرحمٰن

پارسال جب کوئل میرے گھر کے آنگن کوکنے آئی میں نے سوچا تھا
اس بِرہن کا دکھ بھی کتنا گہرا ہے
آج بھی جیسے تیسے کرتے رات بتائی
اب یہ سوچ رہا ہوں
آج بھی کوئل میرے آنگن کوکے گی تو پوچھوں گا
اے پاپن کیا
گرما کی لمبی دوپہریں بھی
دکھ کے موسم ہوتے ہیں؟
 

عظیم

محفلین
اب یہ سوچ رہا ہوں
کی جگہ
اب یہ سوچ رہا ہوں میں
یا
اب سوچا ہے
مجھے رواں محسوس ہو رہے ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آزاد نظم کے لحاظ سے آہنگ اور اوزان پر بات ہو گئی ۔ (اس لحاظ سے کچھ بہتری ہونی چاہیے)

--
"آج بھی جیسے تیسے کرتے رات بتائی"
یہاں جیسے تیسے کے ساتھ" کرتے" کچھ مقبول اسلوب نہیں لگ رہا فقرے (مصرع) میں ۔ اگر وزن کے حساب سے ڈالا گیا ہے تو اسے بدلنا چاہیئے جیسے "آج بھی جیسے تیسے اس نے رات بتائی" ۔
--
اب یہ سوچ رہا ہوں
یہاں پچھلے حصے سے ربط رکھنے کے لیے اور استعمال ہو تو بہتر ہے ۔جیسے۔ اور اب میں یہ سوچ رہا ہوں۔
--
آج بھی کوئل اپنے آنگن کوکے گی تو پوچھیں گے
اس میں کہیں "جب" آجائے تو اچھا ہو ۔
--
اے پاپن کیا
گرما کی لمبی دوپہریں بھی
دکھ کے موسم ہوتے ہیں؟
--
یہ کیوں کہ اختتام ہے اس لیے ذرا قوی ہونا چاہیئے۔جیسے ۔اے پاپن کیا کہتے ہیں تیرے آنسو ؟موسم گرما کی لمبی خاموش دوپہریں ۔اپنے اندر دکھ کا ساون رکھتی ہیں ؟
---
خلیل بھائی ۔۔ویسے اس مرتبہ سادگی میں غم اتنا سمیٹا کہ داد پیچھے رہ گئی :)
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
"آج بھی جیسے تیسے کرتے رات بتائی"
یہاں جیسے تیسے کے ساتھ" کرتے" کچھ مقبول اسلوب نہیں لگ رہا فقرے (مصرع) میں ۔ اگر وزن کے حساب سے ڈالا گیا ہے تو اسے بدلنا چاہیئے جیسے "آج بھی جیسے تیسے اس نے رات بتائی" ۔
--
اب یہ سوچ رہا ہوں
یہاں پچھلے حصے سے ربط رکھنے کے لیے اور استعمال ہو تو بہتر ہے ۔جیسے۔ اور اب میں یہ سوچ رہا ہوں۔
متّفق
 
سب سے پہلی بات
علم عروض اور بحر سے میرا دور کا بھی واسطہ نہیں اور ان موضوعات پر الف عین ،@سید عاطف علی اور یاسر شاہ سیر حاصل بحث کر چکے ہیں
ہم جیسے بابوں کے ساتھ ایک بہت بڑا مسلہ یہ ہے کہ کثرت مطالعہ سے بہت زیادہ Choosy ہو جاتے ہیں نظم کا مرکزی خیال اور مفہوم بہت جاندار ہے کچھ الفاظ کے الٹ پھیر سے روانی بھی بہتر ہو سکتی ہے جس کی طرف سید عاطف علی اشارہ کر چکے ہیں بحیثیت مجموعی جو چیز متاثر کن ہے وہ نظم کا مرکزی خیال ہے۔
بہت سی داد محمد خلیل الرحمٰن بھائی کی نذر
اللہ کرے زور قلم زیادہ
 

سید عمران

محفلین
کیا یہ مچھلیوں کے باسی ہو جانے کا غم ہے ؟;)
نہیں۔۔۔
مچھلی فروش نے جب یہ بورڈ لگایا تو ایک اصلاح پسند نے آکر کہا اس جملے میں ’’یہاں‘‘ اضافی ہے۔۔۔
ظاہر ہے مچھلی ’’یہاں‘‘ ہی دستیاب ہوگی ’’’وہاں ‘‘ تو نہیں۔۔۔
مچھلی فروش نے بورڈ سے لفظ ’’یہاں‘‘ مٹادیا۔۔۔
و علی ہذاالقیاس۔۔۔
کیا اب بھی کہانی مکمل کرنے کی ضرورت ہے؟؟؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نہیں۔۔۔
مچھلی فروش نے جب یہ بورڈ لگایا تو ایک اصلاح پسند نے آکر کہا اس جملے میں ’’یہاں‘‘ اضافی ہے۔۔۔
ظاہر ہے مچھلی ’’یہاں‘‘ ہی دستیاب ہوگی ’’’وہاں ‘‘ تو نہیں۔۔۔
مچھلی فروش نے بورڈ سے لفظ ’’یہاں‘‘ مٹادیا۔۔۔
و علی ہذاالقیاس۔۔۔
کیا اب بھی کہانی مکمل کرنے کی ضرورت ہے؟؟؟
دونوں ہی عظیم چیمپیئن تھے :) ۔ اگر لکھنے کی ضرورت نہیں تھی تو مٹانے کی کیا ضرورت تھی ؟
اب ایک اور بات سنیے ۔ فولاد پر ایک حرف کندہ کرنے والے شخص نے اپنا بھاؤ بتایا کہ فی حرف ایک درہم لیتا ہے۔ گاہک کا نام حسن تھا اس کے پاس دو ہی درہم تھے سو اس نے کہا کہ میری انگوٹھی پر خس لکھ دو جب وہ خے کا نقطہ لگانے لگا تو کہا کہ بس ذرا نقطہ سین کے پیٹ میں لگا دینا ۔ :) :) :)
خلیل بھائی ! ہم اس پاپن کے دکھوں سے دکھی ہو گئے تھے اور ان دکھوں کا ازالہ کر رہے ہیں ۔ امید ہے برا نہیں منائیں گے ۔ محمد خلیل الرحمٰن ۔
 

سید عمران

محفلین
دونوں ہی عظیم چیمپیئن تھے :) ۔ اگر لکھنے کی ضرورت نہیں تھی تو مٹانے کی کیا ضرورت تھی ؟
لکھنے کی ضرورت تو تھی البتہ مٹانے کی نہیں تھی...
بہرحال روایت ایسی ہی چلی آرہی ہے...
چوں کہ لگتا ہے آپ نے یہ لطیفہ نہیں سنا...
چناں چہ آج اسے پورا کیے ہی دیتے ہیں...
ابھی مچھلی فروش"یہاں" مٹا کے فارغ ہی ہوا تھا کہ فلسفی بھائی آگئے...
کہنے لگے بھائی مچھلی فروش آپ ایک ایمان دار آدمی ہو، ہم برسوں سے آپ کو جانتے ہیں، ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ آپ تازہ مجھلی ہی بیچتے ہیں. لہذا اس بورڈ پر لفظ تازہ لکھنا بے کار اور آپ کی ایمان داری پر بدنما داغ ہے. اس لیے فورا سے پیشتر اسے مٹا ڈالیے...
مچھلی فروش بھلا اپنی ایمان داری پر داغ لگنا کیسے گوارا کرتا، آناً فاناً لفظ تازہ مٹا ڈالا!!!
 

سید عمران

محفلین
ارے ابھی کہانی مکمل کہاں ہوئی ہے...
دیکھتے نہیں عدنان بھائی ہاتھ میں تھیلی منہ میں پان دابے خراماں خراماں چلے آتے ہیں...
جیسے ہی بورڈ کے قریب پہنچ کر اسے پڑھنے کو منہ اوپر کیا تو اچانک منہ کھلے کا کھلا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں...
پھر مچھلی فروش سے گویا ہوئے...
بھائی کلّن تم ایسی مچھلی فرائی کرو ہو کہ دور دور تلک اس کی خوشبو جاوے ہے. بھلا تمہیں بورڈ پر مچھلی لکھنے کی کیا مار آگئی...
ارے یو تو اندھے کو بھی خبر ہووے ہے کہ یہاں مچھلی ہی بکے ہے، پکوڑے نہ تلے جاں ہیں...
اب ذرا پھرتی سے اس موئے مچھلی کے لفظ کو مٹا دیجیو...
کہیں محلے والے برا نہ مناویں کہ بھائی کلّن ہمیں اِتّا بڑا جاہل سمجھے ہیں کہ ہمیں سمجھانے کو بورڈوں پہ مچھلی لکھتے پھرے ہیں...
بے چارہ مچھلی فروش محلے کے گراہکوں کی ناراضگی کیسے مول لے سکتا تھا. چناں چہ جھٹ پٹ بورڈ سے مچھلی کا لفظ بھی مٹادیا!!!
 
کرشن چندر کا ناول "سڑک واپس جاتی ہے" ابھی شروع کیا ہے۔ اس کے پہلے باب سے ایک اقتباس

"ان لڑکیوں کے سر پر سیبوں کی شاخوں کے پھول تھے اور پاؤں میں راستے کے چھوٹے چھوٹے کنکر یوں آکے ٹکراتے تھے، جیسے دل پر دستک دے رہے ہوں۔ اور ہر لڑکی کا دل موہوم آرزوؤں سے لرز اٹھتا، اور وہ حیران اور مایوس نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ کر اپنے دل سے کہتی۔۔۔۔۔
"یہ جنم جلی بہار ہمیشہ کیا ستانے ہی کے لیے آتی ہے؟"
 
دکھ کے موسم
محمد خلیل الرحمٰن

پارسال جب کوئل میرے گھر کے آنگن کوکنے آئی میں نے سوچا تھا
اس بِرہن کا دکھ بھی کتنا گہرا ہے
آج بھی جیسے تیسے کرتے رات بتائی
اب یہ سوچ رہا ہوں
آج بھی کوئل میرے آنگن کوکے گی تو پوچھوں گا
اے پاپن کیا
گرما کی لمبی دوپہریں بھی
دکھ کے موسم ہوتے ہیں؟

استاد محترم جناب الف عین اور یاسر شاہ بھائی کی خصوصی توجہ پر ان دونوں کے ممنون و متشکر ہیں۔ دونوں کی اصلاح کے بعد گویا یہ شکل بنی

دکھ کے موسم
محمد خلیل الرحمٰن

پارسال جب کوئل میرے گھر کے آنگن کوکنے آئی میں نے سوچا تھا
اس بِرہن کا دکھ بھی کتنا گہرا ہے
آج بھی جیسے تیسے کرتے رات بتائی
اب یہ سوچ رہا ہوں
آج بھی کوئل میرے آنگن کوکے گی تو پوچھوں گا
اے پاپن کیا
گرما کی لمبی دوپہریں بھی
دکھ کے موسم ہوتے ہیں؟
 
Top