دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ، پاکستانی خاتون صحافی کے اہم انکشافات

دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ، پاکستانی خاتون صحافی کے اہم انکشافات22 نومبر 2014 (19:14)

news-1416662113-5624.jpg

واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) عمران خان اور طاہرالقادری کے سفرِ اسلام آباد کے اصل مقاصد کیا تھے اور کیا دھرنوں کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ تھا، یہ وہ سوال ہے جس پر بحث کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ سکرپٹ اور امپائر کی موجودگی یا عدم موجودگی، دونوں کیلئے ہزار ہا دلائل دئیے جاچکے ہیں، لیکن مشہور امریکی میگزین ’’فارن پالیسی‘‘ میں شائع ہونے والے ایک تازہ مضمون میں پاکستانی صحافی نیہا انصاری کہتی ہیں کہ وہ حالیہ بحران میں خفیہ ہاتھوں کی سرعام موجودگی کی عینی شاہد ہیں۔ ان کے مضمون کے اہم اقتباسات مختصراً پیش خدمت ہیں۔
یہ عمران خان اور طاہرالقادری کی اسلام آباد کیلئے روانگی سے ایک دن قبل یعنی 13 اگست کی بات ہے کہ ہمارے اخبار ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کے ایڈیٹرنے سینیئر ایڈیٹوریل سٹاف کو بتایا کہ اوپر سے آنے والے احکامات کے مطابق عمران خان اور طاہرالقادری ہمارے دوست ہیں۔ حکومت کے خلاف نکلنے والوں کو غیر معمولی اہمیت دینے اور ان کے موقف کو پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کرنے کے احکامات کو ہم نے ہچکچاہٹ کے ساتھ قبول کیا۔
ملک کے بڑے میڈیا گروپوں ’’اے آر وائی‘‘ ، ’’ایکسپریس‘‘ اور ’’دنیا‘‘ کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ حکومت مخالف احتجاجی عناصر کی مکمل حمایت کی جائے۔ ’’ایکسپریس میڈیا گروپ‘‘ میں عمران خان اور طاہرالقادری کی ہر بات کو صفحہ اول پر لگایا جارہا تھا اور نیوز بلیٹن میں بھی پہلی خبر انہیں کے حوالہ سے چلائی جارہی تھی۔ ایک طرف ’’بی بی سی‘‘ اور ’’ڈان‘‘ جیسے ادارے دھرنوں کے حقائق پر کھل کر لکھ رہے تھے اور دوسری طرف ہم وزیراعظم کے حق میں آنے والی خبروں کو دبا رہے تھے اور مظاہرین کے منفی رویے اور ان کی تعداد میں کمی پر پردہ ڈال رہے تھے۔
اخبار کے نیشنل ایڈیٹر ہمیں روزانہ بتارہے تھے کہ کس طرح انہیں شام کے بعد موصول ہونے والی فون کالز میں بتایا جارہا تھا کہ اگلے روز کی شہ سرخی کیا ہوگی اور مضامین کس زاویے سے لکھے جائیں گے۔ پھر کچھ دن بعد اخبار کے بڑوں کی برہمی سامنے آئی کہ طاہرالقادری کو اہمیت کیوں نہیں دی جارہی جبکہ خفیہ طاقتیں دونوں کی مساوی حمایت کررہی تھیں، یعنی میڈیا کیلئے بھی ضروری تھا کہ دونوں کو برابر اہمیت دے۔ یہ ہدایات ایڈیٹوریل سٹاف کو براہ راست نہ دی جاتی تھیں بلکہ سی ای او، ایڈیٹر اور نیشنل ایڈیٹر سے ہوتی ہوئی ان کے پاس پہنچتی تھیں۔
کچھ دیگر میڈیا ہاوٗسز بھی ہدایات پر عمل پیرا تھے۔ جب 31 اگست کو مظاہرین پارلیمنٹ میں گھسے تو "اے آر وائی نیوز" کے ایک اینکر پرسن نے براہ راست نشریات کے دوران مارشل لاء کے نفاذ کی فریاد کی، اور وہ اپنے ساتھی صحافیوں کے ساتھ مل کر مسلسل حالات کی غلط تصویر کشی کرتے رہے۔
تمام تر دباؤ کے باوجود آزاد صحافت کے حامی صحافیوں نے اشاروں پر نہ چلنے کی اپنی سی کوشش کی، لیکن اشاروں پر چلنے والے ہی غالب رہے۔ اگرچہ اس ملک کی سیاست میں مداخلت ہمیشہ سے کی جاتی رہی ہے لیکن حالیہ بحران کے دوران اس کی شدت دہلا دینے والی تھی۔
(نیہا انصاری 2013ء اور 2014ء کے دوران اخبار ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ میں بطور سینئر سب ایڈیٹر اور شفٹ انچارج فرائض سرانجام دے چکی ہیں۔ ان دنوں وہ واشنگٹن میں Carnegie Endowment for International Peace نامی ادارے میں بطور محقق کام کررہی ہیں۔)
 
امجد میانداد بھائی آپ کی باتوں کی تصدیق نظر آرہی ہے :)
یہ تو کافی عرصے سے نظر آرہا تھا کہ دھرنوں والا تماشہ بہت سسٹیمیٹکلی ہورہا تھا۔
حکومتی حمایتی چینل کا بند ہونا۔ مخالفین کا کھل کر دھرنیوں کی سپورٹ کرنا۔
اور بہت سی علامات تھیں۔ اسی لئے تو ہر طرف سکرپٹ کی گونج نظر آرہی تھی۔
 

نایاب

لائبریرین
حکومت وقت کو چاہیئے کہ نیہا انصاری کو مکمل تحفظ دیتے امریکی حکومت کو ضامن بناتے ان سے عدالت عالیہ میں گواہی دلاتے " مبینہ خفیہ ہاتھوں " اور " اوپر سے اشارے دینے والوں "کو سر عام بے نقاب کرے ۔ " وقت سماء سچ جیسے ٹی چینلز جانے کیوں ان " خفیہ اشاروں " پہ نہ چل سکے اور دھرنوں کی براہ راست کوریج کرتے حقائق سامنے لاتے رہے ۔
پاکستانی صحافی ہیں ۔ اور بیرون پاکستان بیٹھ کر پاکستان کا دفاع کرنے والوں پہ الزامات لگاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ سلام ہے ایسی پاکستانیت کو ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
حکومت وقت کو چاہیئے کہ نیہا انصاری کو مکمل تحفظ دیتے امریکی حکومت کو ضامن بناتے ان سے عدالت عالیہ میں گواہی دلاتے " مبینہ خفیہ ہاتھوں " اور " اوپر سے اشارے دینے والوں "کو سر عام بے نقاب کرے ۔ " وقت سماء سچ جیسے ٹی چینلز جانے کیوں ان " خفیہ اشاروں " پہ نہ چل سکے اور دھرنوں کی براہ راست کوریج کرتے حقائق سامنے لاتے رہے ۔
پاکستانی صحافی ہیں ۔ اور بیرون پاکستان بیٹھ کر پاکستان کا دفاع کرنے والوں پہ الزامات لگاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ سلام ہے ایسی پاکستانیت کو ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
پاکستان کا دفاع کرنے والے اب صرف پاکستان کا دفاع کرنے والے نہیں رہے، دفاع کرنے کے لیے ان کے اپنے بھی بہت سے انٹرسٹ ہیں اب۔
یہ ایک عام آدمی، تاجر یا صنعت کار ہی ہیں جو حکومتوں کی غلط پالیسیوں یا ایسی پالیسیوں پر صرف تف بھیج سکتے ہیں، اخباروں میں دو چار خبریں لگا سکتے ہیں کوئی ایک آدھ جلسہ جلوس کر سکتے ہیں، جن پالیسیوں سے انہیں خدشات لاحق ہوں یا ان کے کاروبار کا نقصان ہو رہا ہو۔
لیکن جب ایک طرف نقصان اٹھانے والی باڈی بذاتِ خود ہی متوازی اسٹیٹ اور اسٹیک ہولڈر ہو اور حکومت کے ایسے فیصلوں یا اقدامات جن سے ان کا نقصان ہو رہا ہو کو بذورِ طاقت روکنے کی حثیت رکھتی ہوں اور نا صرف یہ بلکہ بلیک میل کر کے ایسے فیصلے کروانے پر بھی قادر ہوں جن سے ان کا فائدہ ہی فائدہ ہو تو کون سی ایسی طاقت ہو گی جو چپ کر کے بیٹھنے کو ترجیح دے گی۔

کیا ملک کا دفاع کرنے والوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ان تمام شعبوں پر قابض ہوں جن سے ملکی خزانے اور عام عادمی اور صنعت کا فائدہ ہو رہا ہو؟

کون سا شعبہ ایسا ہے جس کے اہم ترین اسٹیک ہولڈرز ہمارے محافظ نہیں؟؟
کنسٹریکش؟
لاجسٹک؟
ایجوکیشن؟
بینکنگ؟
سیکیورٹی؟
انڈسٹری؟

آخر ان تمام شعبوں سے حاصل ہونے والی آمدنی جاتی کہاں ہے اگر دفاع کا بجٹ بھی ہے اور ایک اک فرد کی تنخواہ، الاؤنس، رہائش، میڈیکل، تعلیم وغیرہ سب کچھ سرکاری خزانے سے بھی ہے؟

یہ سبھی جانتے ہیں کہ کون کون سی حکومتوں میں کیا کیا کام ہوتے رہے ہیں، اور کن کن اداروں کو انفرااسٹرکچر کی کنسٹرکشن، لاجسٹک ، اور دیگر شعبوں کے ٹھیکے ملتے رہے ہیں۔
کیا آپ لوگ نہیں جانتے کہ تمام فوجی اور فوج کی حمایت یافتہ حکومتوں میں لاجسٹک میں ( این ایل سی ) کنسٹرکشن میں ( ایف ڈبلیو او ) ، بینکنگ اور انشورنس میں ( عسکری ) فعال نہیں ہو جاتے؟؟؟
ریت، بجری، سیمنٹ، ٹرک، پتھر، سریہ سبھی کچھ عسکری ہوتا ہے ۔

اب یہ نواز شریف کی حکومت کی کمبختی ہے کہ وہ ایک تو آتے ہی توڑ پھوڑ اور کنسٹرکشن کے بڑے بڑے پراجیکٹ شروع کر دیتا ہے اور ٹھیکے بھی اپنے ، سریا بھی اپنا اور سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر کو بھول جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ سے ذلیل ہوتا آیا ہے۔

میں لکھ کر دیتا ہوں اگر یہ کنسٹرکشن کے تمام ٹھیکے ( ایف ڈبلیو او )، لاجسٹک ( این ایل سی ) ، اور ضرورت کا تمام سامان بھی انہی کے کارخانوں سے خریدیں تو نواز شریف کی حکومت گرانے کا صرف ایک ہی حل ہو گا کہ اسے بھی آم کی پیٹیاں تحفے میں بھیجی جائیں ورنہ اسے ان کے آشیر باد کے بعد کوئی اور اتارنے کی جراءت بھی نہیں کرے گا اور بے انتہا کام کھولنے کی وجہ سے دونوں کی دکانیں بھی چلتی رہیں گی۔

تدوین: (ایک دوست نے یہ تحریر پڑھنے کے بعد کہا " ------ مرے گا" میں نے کہا وہ تو میں نے اپنی حرکتوں اور بے بسی سے ہے ہی ایک دن )
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
پاکستان کا دفاع کرنے والے اب صرف پاکستان کا دفاع کرنے والے نہیں رہے، دفاع کرنے کے لیے ان کے اپنے بھی بہت سے انٹرسٹ ہیں اب۔
یہ ایک عام آدمی، تاجر یا صنعت کار ہی ہیں جو حکومتوں کی غلط پالیسیوں یا ایسی پالیسیوں پر صرف تف بھیج سکتے ہیں، اخباروں میں دو چار خبریں لگا سکتے ہیں کوئی ایک آدھ جلسہ جلوس کر سکتے ہیں، جن پالیسیوں سے انہیں خدشات لاحق ہوں یا ان کے کاروبار کا نقصان ہو رہا ہو۔
لیکن جب ایک طرف نقصان اٹھانے والی باڈی بذاتِ خود ہی متوازی اسٹیٹ اور اسٹیک ہولڈر ہو اور حکومت کے ایسے فیصلوں یا اقدامات جن سے ان کا نقصان ہو رہا ہو کو بذورِ طاقت روکنے کی حثیت رکھتی ہوں اور نا صرف یہ بلکہ بلیک میل کر کے ایسے فیصلے کروانے پر بھی قادر ہوں جن سے ان کا فائدہ ہی فائدہ ہو تو کون سی ایسی طاقت ہو گی جو چپ کر کے بیٹھنے کو ترجیح دے گی۔

کیا ملک کا دفاع کرنے والوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ان تمام شعبوں پر قابض ہوں جن سے ملکی خزانے اور عام عادمی اور صنعت کا فائدہ ہو رہا ہو؟

کون سا شعبہ ایسا ہے جس کے اہم ترین اسٹیک ہولڈرز ہمارے محافظ نہیں؟؟
کنسٹریکش؟
لاجسٹک؟
ایجوکیشن؟
بینکنگ؟
سیکیورٹی؟
انڈسٹری؟

آخر ان تمام شعبوں سے حاصل ہونے والی آمدنی جاتی کہاں ہے اگر دفاع کا بجٹ بھی ہے اور ایک اک فرد کی تنخواہ، الاؤنس، رہائش، میڈیکل، تعلیم وغیرہ سب کچھ سرکاری خزانے سے بھی ہے؟

یہ سبھی جانتے ہیں کہ کون کون سی حکومتوں میں کیا کیا کام ہوتے رہے ہیں، اور کن کن اداروں کو انفرااسٹرکچر کی کنسٹرکشن، لاجسٹک ، اور دیگر شعبوں کے ٹھیکے ملتے رہے ہیں۔
کیا آپ لوگ نہیں جانتے کہ تمام فوجی اور فوج کی حمایت یافتہ حکومتوں میں لاجسٹک میں ( این ایل سی ) کنسٹرکشن میں ( ایف ڈبلیو او ) ، بینکنگ اور انشورنس میں ( عسکری ) فعال نہیں ہو جاتے؟؟؟
ریت، بجری، سیمنٹ، ٹرک، پتھر، سریہ سبھی کچھ عسکری ہوتا ہے ۔

اب یہ نواز شریف کی حکومت کی کمبختی ہے کہ وہ ایک تو آتے ہی توڑ پھوڑ اور کنسٹرکشن کے بڑے بڑے پراجیکٹ شروع کر دیتا ہے اور ٹھیکے بھی اپنے ، سریا بھی اپنا اور سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر کو بھول جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ سے ذلیل ہوتا آیا ہے۔

میں لکھ کر دیتا ہوں اگر یہ کنسٹرکشن کے تمام ٹھیکے ( ایف ڈبلیو او )، لاجسٹک ( این ایل سی ) ، اور ضرورت کا تمام سامان بھی انہی کے کارخانوں سے خریدیں تو نواز شریف کی حکومت گرانے کا صرف ایک ہی حل ہو گا کہ اسے بھی آم کی پیٹیاں تحفے میں بھیجی جائیں ورنہ اسے ان کے آشیر باد کے بعد کوئی اور اتارنے کی جراءت بھی نہیں کرے گا اور بے انتہا کام کھولنے کی وجہ سے دونوں کی دکانیں بھی چلتی رہیں گی۔

تدوین: (ایک دوست نے یہ تحریر پڑھنے کے بعد کہا " ------ مرے گا" میں نے کہا وہ تو میں نے اپنی حرکتوں اور بے بسی سے ہے ہی ایک دن )
سلیوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے اک سچے دردمند پاکستانی کے دل و دماغ میں پھنکاریں مارتا لاوا ۔
جسے بیان کرتے اسے یہ بھی ڈر نہیں کہ " مرےگا "
ایسے ہی یہ پاکستانی صحافی نیہا پاکستان سے اپنی وابستگی ثابت کریں ۔ اگر " پاکستان کے دفاع کے ذمہداروں " کے خلاف ان کے پاس ثبوت ہیں تو کھل کر سامنے آئیں یہ کیا امریکہ میں بیٹھ کر شرلیاں پٹاخے چھوڑ قوم کو تماشا بنا رہی ہیں ۔
زرد صحافت نے جان قیمتی کر دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
سلیوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے اک سچے دردمند پاکستانی کے دل و دماغ میں پھنکاریں مارتا لاوا ۔
جسے بیان کرتے اسے یہ بھی ڈر نہیں کہ " مرےگا "
ایسے ہی یہ پاکستانی صحافی نیہا پاکستان سے اپنی وابستگی ثابت کریں ۔ اگر " پاکستان کے دفاع کے ذمہداروں " کے خلاف ان کے پاس ثبوت ہیں تو کھل کر سامنے آئیں یہ کیا امریکہ میں بیٹھ کر شرلیاں پٹاخے چھوڑ قوم کو تماشا بنا رہی ہیں ۔
زرد صحافت نے جان قیمتی کر دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں

نایاب بھائی آپ کا طنز سر آنکھوں پر لیکن یہ باتیں اتنی مشکل اور آنکھ اوجھل بھی نہیں کہ محسوس نہ ہوں اور احساس نہ ہو۔ ڈر ہے تو جبھی لوگ یہاں باتیں پوری طرح نہیں کر پاتے۔ اور اشاروں کنایوں میں بات کرتے ہیں۔
جہاں تک ڈر کی بات ہے تو ڈر بنتا ہے آپ مانیں یا نہ مانیں،
اور تو اور یہاں اسی محفل پر ایک بار مشرف صاحب کے بارے میں ایک مضمون لکھ مارا تھا اور ایک صاحب سے لال مسجد میں استعمال کیے گئے وائٹ فاسفورس کے اوپرطویل بحث بھی ہوئی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرف صاحب کی پارٹی کے اسلام آباد کے صدر صاحب نے فیس بک، جی میل، اور میرے فون وغیرہ سب پر رابطہ کر کے مجھ سے فقط یہ پوچھا کہ آپ وہی امجد میانداد ہیں جنہوں نے یہ مضمون تحریر کیا تھا۔ اور میں نے یہی عرض کی کہ جناب میں ہی وہ خاکسار ہوں اور اس کے بعد کوئی روز تک کبھی کسی میجر صاحب کا فون آ رہا ہوتا اور کبھی کس کا کہ آپ کہاں کام کرتے ہیں کیا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آپ بتائیں کیا یہ صاحب مجھ سے اور میری بحث سے خوش ہو کر میرے لیے کسی ایوارڈ کا سوچ رہے تھے؟ اگر ان کا مقصد تنبیہ یا دھمکی نہیں تھا؟
 
نایاب بھائی آپ کا طنز سر آنکھوں پر لیکن یہ باتیں اتنی مشکل اور آنکھ اوجھل بھی نہیں کہ محسوس نہ ہوں اور احساس نہ ہو۔ ڈر ہے تو جبھی لوگ یہاں باتیں پوری طرح نہیں کر پاتے۔ اور اشاروں کنایوں میں بات کرتے ہیں۔
جہاں تک ڈر کی بات ہے تو ڈر بنتا ہے آپ مانیں یا نہ مانیں،
اور تو اور یہاں اسی محفل پر ایک بار مشرف صاحب کے بارے میں ایک مضمون لکھ مارا تھا اور ایک صاحب سے لال مسجد میں استعمال کیے گئے وائٹ فاسفورس کے اوپرطویل بحث بھی ہوئی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرف صاحب کی پارٹی کے اسلام آباد کے صدر صاحب نے فیس بک، جی میل، اور میرے فون وغیرہ سب پر رابطہ کر کے مجھ سے فقط یہ پوچھا کہ آپ وہی امجد میانداد ہیں جنہوں نے یہ مضمون تحریر کیا تھا۔ اور میں نے یہی عرض کی کہ جناب میں ہی وہ خاکسار ہوں اور اس کے بعد کوئی روز تک کبھی کسی میجر صاحب کا فون آ رہا ہوتا اور کبھی کس کا کہ آپ کہاں کام کرتے ہیں کیا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آپ بتائیں کیا یہ صاحب مجھ سے اور میری بحث سے خوش ہو کر میرے لیے کسی ایوارڈ کا سوچ رہے تھے؟ اگر ان کا مقصد تنبیہ یا دھمکی نہیں تھا؟
مطلب یہ کہ میں بھی اپنا ایڈریس وغیرہ اب چھپا کر رکھوں :)
 

زیک

مسافر
سلیوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے اک سچے دردمند پاکستانی کے دل و دماغ میں پھنکاریں مارتا لاوا ۔
جسے بیان کرتے اسے یہ بھی ڈر نہیں کہ " مرےگا "
ایسے ہی یہ پاکستانی صحافی نیہا پاکستان سے اپنی وابستگی ثابت کریں ۔ اگر " پاکستان کے دفاع کے ذمہداروں " کے خلاف ان کے پاس ثبوت ہیں تو کھل کر سامنے آئیں یہ کیا امریکہ میں بیٹھ کر شرلیاں پٹاخے چھوڑ قوم کو تماشا بنا رہی ہیں ۔
زرد صحافت نے جان قیمتی کر دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
سلیم شہزاد؟
 
آج مجھے وکی لیکس میں شایع ہوا اشفاق پرویز کیانی سے منسوب ایک فقرہ یاد آگیا کہ "زرداری کرپٹ ہے لیکن اس کے ساتھ چلنا آسان ہے اور نواز شریف کرپٹ نہیں مگر اس کے ساتھ چلنا مشکل ہے"
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے حاضر اور ریٹائرڈ فوجی افسران نواز کو پسند نہیں کرتے۔ اور اگر سہیل وڑائچ کی کتاب "غدار کون" کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نواز فوجی جرنیلوں کے رویے سے کس قدر بدظن رہا ان سے۔
 

زیک

مسافر
اب تو شاید کسی کو یاد بھی نہیں اس نام کا " دیوانہ " سچ کی کھوج میں نکلا اور ابد کی وادی پہنچ گیا ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
کیا اس سے یہ سبق حاصل نہیں ہوتا کہ ایجنسیوں اور فوج کے خلاف بات کرنے سے پہلے ان کی پہنچ سے دور ہونا بقاء کے لئے ضروری ہے؟
 
اگر کسی ساتھی کو ایکسپریس میڈیا ہاوس کے مالکان کے بارے میں علم ہو ضرور شئیر کریں ۔
جی جناب یہ میڈیا گروپ پاکستان کے ایک بہت بڑے تجارتی نام Lakson Group کی ملکیت ہے۔
لیکسن گروپ اقبال علی لاکھانی کی ملکیت ہے جو کراچی کے اسماعیلی لاکھانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اس گروپ کے چئیرمین اور پاکستان کے بہت بڑے صنعتکار سمجھے جاتے ہیں۔
 
Top