دھندلی ہوتی ہوئی یادیں ۔ کراچی سے وابستہ چند یادیں

صاد الف

محفلین
نوٹ: میں کوئی باقاعدہ لکھاری نہیں ہوں، بس لفظوں کو جیسے تیسے جوڑ لیتا ہوں لہٰذا تحریر میں کسی قسم کا جھول، املا کی غلطی یا بے روانی وغیرہ کے لئے پیشگی معذرت۔ (صغیر احمد)
(پہلی قسط) :میرا کراچی میں قیام کبھی طویل عرصہ تک نہیں رہا بلکہ چند برس کے مختلف وقفوں پر محیط ہے لیکن اس کے باوجود شہرِ قائد اور خصوصاً ماڈل کالونی سےعجیب سی انسیت اور چاؤ کا تعلق ہے جو بیان نہیں کر سکتا۔ کراچی کو سب سے پہلا سفر انیس سو ستریا اکہتر کے موسم گرما میں بذریعہ ریل گاڑی تقریباً دس سال کی عمر میں والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ کیا۔ میرے سب سے بڑے بھائی جان پی آئی کے شعبہ انجنئیرنگ میں ائیرپورٹ پر انیس سو چونسٹھ سے ملازم تھے۔ ان سے چھوٹے ڈالر انک کمپنی کے اکاؤنٹس کے شعبہ میں علاقہ صدر میں کام کرتے تھے۔ ہمارے آنے سے قبل دونوں بھائی ماڈل کالونی میں ڈھینگرہ بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھے جو ہم سب کے رہنےکے لئے بہت چھوٹا تھا لہٰذا انھوں نے ملیرہالٹ کے قریب رفاع عام یا رفاہ عام سوسائٹی میں ایک بڑا مکان کرایہ پر لیا۔ سڑک کا نام مجھے یاد نہیں لیکن مکان کا نمبر 35اے تھا اور مالک مکان واسطی صاحب تھے۔ تھوڑی مدت بعد وہ مکان کرایہ پہنچ سے باہر ہونے کی وجہ سے چھوڑنا پڑا اور ماڈل کالونی کے علاقہ عباسی مارکیٹ کے قریب ٹھیکیدار فاضل صاحب کےملکیتی ایک مکان میں رہنے لگے۔ وہاں جا کر دونوں علاقوں کا فرق یوں محسوس ہوا کہ اولذکر میں بہت کم ہمسائے ایک دوسرے کو جانتے تھے، اکثر اپنے آپ میں مگن رہتے جبکہ ثانی الذکر میں ہر ہمسایہ ایک دوسرے کو جانتا اور دکھ سکھ میں شریک ہوتے۔ چند ماہ بعد والدین کو پنجاب کے اپنے بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کی یاد ستانے لگی تو بھائیوں سے ان کی اداسی برداشت نہ ہوئی اور یوں ہم تقریباً چار پانچ ماہ کراچی میں گزارنے کے بعد پنجاب واپس چلےگئے۔ اس عرصہ کے دوران کراچی کی چند اور جگہوں کو بھی دیکھا جن میں ظاہر ہے مزارِقائد، کلفٹن اور صدر وغیرہ شامل تھے۔ صدر کے علاقہ میں ٹرام پر بھی مختصر سا سفر کیا۔ رفاع عام قیام کے دوران ایک دن ماڈل کالونی کی ڈھینگرہ بلڈنگ کے رہائشی سابقہ ہمسائے دو بھائی جن کے نام عارف اور حسینی تھے، بڑے بھائیوں سے ملنے آئے اور کہا کہ ہماری امی آپ کو بہت یاد کرتی ہیں لیکن بیماری کی وجہ سے یہاں آنہیں سکتیں تو ہمیں آپ کی خیریت معلوم کرنے بھیجا ہے۔ اس پر ہم چار بھائی ان کے ساتھ ہی ان کے فلیٹ میں گئے تو ان کی والدہ محترمہ نہایت خوش ہوئیں اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازا۔ ڈھینگرہ بلڈنگ پیلے رنگ کی دیواروں والی تین منزلہ عمارت تھی جس میں غالباًدس بارہ چھوٹے فلیٹ تھے۔ گیٹ سے داخل ہوتے ہی چھوٹی چار دیواری کے اندر کھلا صحن تھا اور عمارت کی دونوں جانب سیڑھیاں تھیں۔ اس قسم کی عمارت کچھ عرصہ قبل ایک ہندوستانی ٹی وی پروگرام (غالباً تارک مہتہ) میں بھی نظر آئی۔ (جاری ہے۔۔۔)
 
آخری تدوین:

صاد الف

محفلین
(دوسری قسط): کراچی کے لئے دوسرا سفر 1975 میں میٹرک کے امتحان کے بعد اپنے سے ایک درجہ بڑے بھائی جان کے ساتھ کیا۔ اس وقت ہم سےدونوں بڑے بھائی عباسی مارکیٹ کے ہی قریب تین بیڈروم کے ایک اور مکان میں کرایہ پر رہائش پذیر تھے۔ گلی کا نام یاد نہیں رہا لیکن مکان نمبر 212/6اے تھا۔ وہ مکان گلی کے شروع کے مکانوں میں سے تھا۔ گلی کے سرے پر ایک کھلا میدان تھا، جس پر ایک کرکٹ پچ بھی تھی اور میدان کے آخر پر کانٹے دار جھاڑیوں کے پار ایک گوٹھ تھی۔ شام کو اس میدان میں چند خواتین بچوں کے ہمراہ چہل قدمی کرتیں اور لڑکے کرکٹ یافٹ بال کھیلتے۔
پہلے سفرمیں چونکہ میری نو یا دس سال عمر تھی، علاوہ ازیں قیام مختصر تھا لہٰذا اس علاقہ کو پوری طرح نہ جان سکا لیکن اس بار تین چار ماہ میں قدرے زیادہ جاننے کا موقع ملا۔ ائیرپورٹ کی جانب سے جناح ایونیو سے ایک سڑک، ہاشم رضا روڈ، ماڈل کالونی اسٹیشن تک جاتی ہے جس کےایک چوک پر عباسی مارکیٹ تھی۔ اس سڑک سے ذرا ہٹ کر ایک گتہ فیکٹری تھی جس کے باہر زمین پر کارڈ بورڈ کے لمبے ٹکڑے غالباً سُکھانے کے لئے رکھے ہوتے۔ فیکٹری سے تھوڑا آگے گلزار سینما تھا جس میں ایک درجہ بڑے بھائی صاحب کےساتھ ندیم شبنم کی فلم اناڑی دیکھی۔ اسٹیشن کی لائین پار کرکے دوسری جانب سعود آباد مارکیٹ ہے جہاں سے ہفتہ بھر کا راشن لے کر آتے۔ وہاں ایک بہت بڑی دوکان تھی جس کا نام ماموں بھانجے کی ہٹی تھا۔ اس دوکان کے قریب ایک ریسٹورینٹ تھاجس کے باہر ایک باغیچہ نما زمین پر کرسیاں میز اور ایک دیوار پر بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی نصب تھا، شام کو لوگ چائے پیتے ہوئے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے۔ گھر کے قریب عباسی مارکیٹ میں مختلف دوکانیں تھیں جن میں ایک ڈھابہ نما تنور کی دوکان بھی تھی جہاں مزدور پیشہ دوپہر اور شام کا کھانا کھاتے کہ دوکاندار نےایک بڑا پتیلا بھی رکھا ہوتا جس میں روزانہ نئی لیکن ایک قسم کا سالن پکا ہوا ہوتا۔ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا لہٰذا میری ڈیوٹی اس تنور سے روٹیاں پکوا کر لانے کی تھی، گھر سے گوندھا ہوا آٹا لے کر جاتا اور قلیل معاوضہ کے عوض روٹیاں تیار کروا کر لاتا۔
کراچی میں میرا یہ قیام تین یا چار ماہ کا تھا کہ میٹرک کے نتائج جاننے اور آئندہ تعلیم بارے منصوبہ بندی کے لئے پنجاب واپس جانا پڑا۔ (جاری ہے۔۔۔)
 

صاد الف

محفلین
(تیسری قسط):کراچی کا تیسرا سفر چار جولائی انیس سو ستتر کو کیا۔ یہ تاریخ اس وجہ سے یاد ہے کہ پانچ جولائی کو ریل گاڑی جب ملتان پہنچی تو ایک مسافر کے ریڈیو پر اعلان ہوا کہ ملک کا نظم و نسق فوج نے سنبھال لیا ہے۔ 1975میں میرے دونوں بڑے بھائی صاحبان نے ماڈل کالونی کے ہاشم رضا روڈ کی ایک ذیلی گلی، لیاقت ایوینیو، میں ایک قطعہ اراضی خریدا اور 1977 تک مرحلہ وار اس پر اپنا مکان تعمیر کروایا چنانچہ اس مرتبہ حصولِ روزگار کی خاطر میرا اس مکان پر اگست 1978 تک قیام رہا۔ ائیرپورٹ کے قریب اس علاقہ کے مکینوں کی اکثریت پی آئی اے کے ملازمین پر مشتمل تھی۔ موسمِ گرما کی شاموں کو چند ہم پیشہ ہمسائے چائےکے دور پر گپ شپ کے لئے جمع ہوتے تو گوناگوں موضوعات زیرِ بحث آتے۔ اس وقت کے کچھ ہمسائیوں کے جو نام یاد رہ گئے ہیں ان میں جہانگیر صاحب، شفیق صاحب، جلال صاحب، جمیل صاحب اور اختر صاحب شامل ہیں۔ شفیق صاحب بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے آئے تھے، وہ نہایت نفیس اور ہمدرد انسان تھے۔ ایک اور عمر رسیدہ جوڑا بھی ہماری گلی میں وہاں سے ہجرت کرکے آیا تھا، ان کی دو بیٹیاں تھیں اور وہ بھی بہت اچھے لوگ تھے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ وہ بزرگ ہر بات اور ہر کام زوجہ محترمہ سے پوچھ کر کرتے تھے کہ وہ ان کی ہر بات کو ویٹو کر دیتی تھیں۔
گھر سے چند قدم پر ہاشم رضا روڈ پر زیدی صاحب کی کریانہ کی دوکان تھی، اسی سڑک کے آخر پر ریلوے لائن سے پہلےایک بیکری اور بیکری کے سامنے شبیر صاحب کی راشن شاپ تھی جہاں سے علاقہ مکین راشن کارڈ دکھا کر اور اس پر باقاعدہ اندراج کے بعد آٹا اور خصوصاً چینی خریدتے کہ چینی کی قلت تھی۔ ریلوے لائن کے قریب ہی بھینسوں کا باڑا تھا جس سے میں ہرروز شام کوتازہ دوہا ہوا دودھ لاتا۔ عباسی مارکیٹ کے سامنے حبیب بینک کی شاخ کے پہلو میں ٹی وی مرمت کی دوکان تھی جسے وہ صاحب شام کو کھولا کرتے کہ دن کو پی آئی اے میں کام کرتے تھے۔ اس زمانہ میں روسی ساختہ سستے ٹی وی سیٹ مقبول تھے لیکن زیادہ تر جلد خراب ہوجاتے لہٰذا ان صاحب کے دوکان کھولنے سے قبل ہی کبھی کبھار چند لوگ اپنے سیٹ لئے انتظار میں ہوتے۔ قدرے بھاری جسم، چھوٹے قد اور گہری رنگت کے مالک وہ کم گو صاحب نہایت معقول معاوضہ میں کم وقت میں ٹی وی مرمت کر دیتے۔ اکثر اوقات وہ گھروں میں جا کر بھی ٹی وی کے معمولی نقص اضافی معاوضہ کے بغیر دور کر دیتے۔
اس زمانہ میں کراچی کی سرکلر ریلوے جسے لوکل ٹرین کہا جاتا تھا، شہر کا سستا اور مقبول ترین ذریعۂ سفر تھا۔ گھر کے قریب ہی ماڈل کالونی اسٹیشن تھا لہٰذا لوکل ٹرین پر بارہا سفر کیا۔صدر جانا ہوتا تو کراچی کینٹ تک لوکل ٹرین پکڑتا اور وہاں سے پیدل صدر تک جاتا۔ کئی مرتبہ واپسی پر لانڈھی کی جانب جانے والی لوکل سے ملیر ہالٹ جنکشن پر اتر کر ملیرکینٹ کو جانے والی لوکل کے ذریعہ ماڈل کالونی اسٹیشن تک جاتا۔ اخبار میں روزانہ لوکل ٹرینوں کے اوقاتِ کار شائع ہوتے اور اکثر لوگ اخبار کا اتنا حصہ کاٹ کر گھر کی دیوار پر چسپاں کرلیتے۔ شہر کو سفر کا دوسرا مقبول لیکن تیز ذریعہ سفر ویگن تھا۔ سعودٓباد ٹینکی کے اسٹاپ سے Rویگن صدر ایمپرس مارکیٹ تک جاتی تھی۔
اگست 1978 میں کراچی کو خیرباد کہنا پڑا کہ کوہاٹ میں نوکری مل گئی لیکن وہاں ایک سال گزارنے کے بعد اگست 1979 میں واپس کراچی کا رخ کیا اور 1982 تک اس شہرِخوباں میں ایک اور دور گزارا۔ (جاری ہے۔۔۔)
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
نوٹ: میں کوئی باقاعدہ لکھاری نہیں ہوں، بس لفظوں کو جیسے تیسے جوڑ لیتا ہوں لہٰذا تحریر میں کسی قسم کا جھول، املا کی غلطی یا بے روانی وغیرہ کے لئے پیشگی معذرت۔ (صغیر احمد)
آپ بہت اچھا لکھتے ہیں بے قاعدہ لکھاری صاحب۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
بہت اچھا لکھا ہے
جلدی سے لکھیے بڑی خوشی ہوئی کہ آپکی انسیت کراچی سے اسقدر ہے اور یاداشت میں محفوظ یادیں جلدی لکھیں بہت شکریہ ۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
علاقہ مکین راشن کارڈ دکھا کر اور اس پر باقاعدہ اندراج کے بعد آٹا اور خصوصاً چینی خریدتے کہ چینی کی قلت تھی۔
کیا یاد دلایا آپ نے راشن کارڈ چینی کی واقعی شدید قلت تھی اماں ہماری بھائیوں پر غصہ کیا کرتیں کہ شکر کا نے زیادہ ڈالی دوددھ میں ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
سرکلر ریلوے جسے لوکل ٹرین کہا جاتا تھا، شہر کا سستا اور مقبول ترین ذریعۂ سفر تھا۔ گھر کے قریب ہی ماڈل کالونی اسٹیشن تھا لہٰذا لوکل ٹرین پر بارہا سفر کیا۔
ہم کچھ عرصہ گرین ٹاؤن میں رکھے تو سرکلر ریلوے میں سفر کیا پورے مہینے کا پاس
گیارہ روپے میں بنتا تھا ہم سٹی اسٹیشن تک آتے تھے گرین ٹاؤن سے
 

سیما علی

لائبریرین
اگست 1979 میں واپس کراچی کا رخ کیا اور 1982 تک اس شہرِخوباں میں ایک اور دور گزارا
کیا پرسکون سال تھے کراچی کے تمام سیاسی برُائیوں کے باوجود
ایسا بے ہنگم نہ تھا کراچی جیسے آج ہوگیا ہے ۔۔🥲🥲🥲🥲🥲
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ائیرپورٹ کے قریب اس علاقہ کے مکینوں کی اکثریت پی آئی اے کے ملازمین پر مشتمل تھی۔
اب تک یہ آبادی کچھ بہتر ہے کسی سے تھوڑے دنوں پہلے ہی بات ہورہی تھی کسی جاننے والوں سے جن کی رہائش اُس علاقے میں ہے۔ ورنہ تجاوزات نے کراچی کا حسن برباد کردیا ہے
کراچی میں تجاوزات کے خلاف آئے دن آپریشنز کئے جاتے پھر رشوت کا بازار گرم کرنے والے آجاتے ہیں اور پھر ویسے کا ویسا ہو جاتا ہے ۔۔۔
 
آخری تدوین:

صاد الف

محفلین
کیا پرسکون سال تھے کراچی کے تماسیاسی برُائیوں کے باوجود
ایسا بے ہنگم نہ تھا کراچی جیسے آج ہوگیا ہے ۔۔🥲🥲🥲🥲🥲
امن وامان کی مثالی صورتحال کے علاوہ 1970 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں اپنے لڑکپن اور نوجوانی کے دور کے کراچی، خصوصاً سٹی اور صدر کے علاقوں، کی صفائی اور ترتیب ذہن پر ابھی تک نقش ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
خصوصاً سٹی اور صدر کے علاقوں، کی صفائی اور ترتیب ذہن پر ابھی تک نقش ہے۔
اب دیکھیں گے تو بہت دُکھ ہوگا ۔۔۔ہمارا تو کالج اور اسکول دونوں صدر میں تھا سینٹ جوزف کانوئینٹ
زیادہ آبادی کرسچن اور پارسی ہوا کرتی تھی صدر میں ۔
اب تو بے ہنگم ہجوم ویسے تھوڑی یہ شہر درالخلافہ تھا پھر کچھ مفاد پرستوں نے کہا یہاں احتجاج بہت ہوتا ہے تو پرسکون جگہ پر لے جایا جائے اب پُر سکون جگہ بھی سنبھل نہیں رہی ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
اس دوکان کے قریب ایک ریسٹورینٹ تھاجس کے باہر ایک باغیچہ نما زمین پر کرسیاں میز اور ایک دیوار پر بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی نصب تھا، شام کو لوگ چائے پیتے ہوئے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے۔
کیا نظم و ضبط اس شہر کا خاصہ تھا آپس میں مل جل کے رہتے تھے کیسا سکون تھا لوگوں میں کیسے ایک دوسرے کا خیال کرتے اب باہر بیٹھے لوگ جو چائے پیتے ہوتے انکے چہروں پر عجب بیچینی چھائی ہوتی ہے اور ایک عجیب دوڑ ہے جس میں بھاگے چلے جارہے ہیں ۔۔۔۔
 

صاد الف

محفلین
(چوتھی قسط): 1979 تا 1982 کراچی میں میرے قیام کا آخری دور تھا، جس کے دوران مختلف موقعوں پر چند روز کے لئے پنجاب جانا ہوا۔ اس زمانہ میں زیب النساء سٹریٹ صدر کے فٹ پاتھ پر ایک صاحب شناختی کارڈ کی بہت چھوٹی رنگین فوٹو کاپی کو پلاسٹک کے کی چین میں معقول معاوضہ کے عوض جڑ کر دیتے تھے۔ اس دوران جب بھی میں پنجاب گیا تو کئی ایک رشتہ داروں اور دوستوں نے میرے کی چین کو دیکھتے ہوئے (جو کہ میں داد طلب نظروں کے لئے خود انھیں کسی بہانے سے دکھاتا) اپنے شناختی کارڈ دے کر بھیجے جن کی رنگین فوٹو کاپیاں میں زیب النساء سٹریٹ سے کی چین میں جڑوا کر بذریعہ ڈاک انھیں واپس بھیج دیتا۔ ان تین برسوں میں میری ملازمت کورنگی کریک میں تھی اور صبح و شام ماڈل کالونی تاکورنگی کریک اور واپسی کا سفر مختلف ذرائع سے طے ہوتا۔ اکثر اوقات لوکل ٹرین پر کینٹ اسٹیشن تک، وہاں سے پیدل ایمپرس مارکیٹ سے 9 سی بس پر کورنگی کریک جبکہ متعدد بار سعودآباد ٹینکی بس اسٹاپ سے R ویگن پر ایمپرس مارکیٹ تک اور 9سی بس پر کورنگی کریک تک کا سفر کرتا۔ اس زمانہ میں کراچی کے باسیوں کا رویہ نہایت مہذبانہ اور ہمدردانہ ہوا کرتا تھا، اس کی ایک مثال ہے کہ گرمیوں کے موسم میں کئی مرتبہ رش کی وجہ سے صدر ویگن اسٹاپ پر مسافروں کی لمبی قطار ہوتی لہٰذا ایک ہی سمت جانے والے مسافر آپس میں صلاح مشورے کے بعد ایک ٹیکسی لے لیتے اور اس کا کرایہ برابر تقسیم کر لیتے۔ سعودآباد تا صدر ویگن کے راستے میں چند چیدہ اسٹاپ میں کالا بورڈ، ملیرہالٹ، اسٹارگیٹ، پی اے ایف ڈرگ کالونی، ناتھا خان گوٹھ، کارساز، نیشنل سٹیڈیم، گرومندر، سیون ڈے ہسپتال وغیرہ شامل تھے۔ اسی دور میں گرومندر پر مشہور بندو خان کباب کی غالباً پہلی شاخ ایک ڈھابہ نما دوکان میں کھولی گئی۔صدر میں قلفی اور فروٹ چاٹ کی دو دوکانیں بہت مشہور تھیں (ایک دوکان کا شاید نام کریم تھا) جن پر اتنا رش ہوتا کہ سروس سے پہلے ٹوکن لینا پڑتا تھا۔1980 کی دہائی میں ٹویو ناسک کمپنی کے شیشے کے برتن خصوصاً چائے کے کپ پیالیاں اور جگ گلاس وغیرہ گھروں میں رکھنے کا بہت رواج تھا، میں کئی مرتبہ طارق روڈ پر ٹویو ناسک کی سیل لگنے پر یہ برتن اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں کے لئےخرید کر لایا۔ 1970 کی دہائی کے آخر تک بہت سے علاقوں میں گدھا گاڑی پر ٹینکی رکھ کر مٹی کا تیل بیچنے والے آتے۔ اسی دہائی کے ابتدائی برسوں میں چند مرتبہ سامان بردار اونٹ گاڑی بھی دیکھی۔ جمعرات کی شام پی ٹی وی پر اردو فلم دکھائی جاتی تھی، کہ صرف ایک ہی ٹی وی چینل تھا، لہٰذا اس کا بے چینی سے انتظار رہتا۔ فلم کے وقفوں کے دوران باہر ریڑھی والے سے مونگ پھلی اور گچک خرید کر کھائی جاتی۔ گرمیوں کے موسم میں دن کو فالسے بیچنے والے گلی میں آتے۔ (جاری ہے۔۔۔)
 

صاد الف

محفلین
(پانچویں اور آخری قسط): لڑکپن کی ایک یاد کا ذکر کرنا بھول گیا کہ 1970کے چند ماہ کراچی قیام کے دوران پنجاب کے ہمارے علاقہ سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب بس میں کنڈکٹر تھے۔ وہ ایک چھٹی والے دن ہمیں منگھو پیر مزار دکھانے یہ کہہ کر لے گئے کہ وہاں دو گز لمبی جوئیں پانی میں رہتی ہیں جن کے بارے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مگر مچھ تھے۔ 1977 میں بھائی جان کے ایک دوست کے بھائی نیوی میں ملازم تھے، وہ ہمیں پاکستان نیوی کا ایک جہاز بابر دکھانے اس کے اندر لے گئے، بعد ازاں منوڑہ لے کر گئے جہاں کی تازہ سمندری بھونی مچھلی کا ذائقہ میں ابھی تک نہیں بھولا۔
بھائی جان کے لیاقت ایونیو والے نکان کے اگلے صحن میں سفیدے کے تین بہت اونچے درخت تھے، پچھلے صحن میں باغیچہ تھا جس کے کناروں پر پپیتے کے دو تین اور بیری کا ایک درخت تھا۔ چند سال پپیتے کے پھل لگنے کے بعد ان درختوں نے پھل دینا بند کر دیا۔ بیری کے درخت پر ہر سال بھرپور بیر لگتے جو ہم پڑوسیوں اور جاننے والوں کو بھی دیتے۔ جب علاقہ کی کئی اور خواتین کو بھی اس بیری کے پھل بیروں بارے معلوم ہوا تو اس موسم میں چند تھوڑی واقفیت والی خواتین کسی بہانے بھابی سے ملنے آتیں اور پچھلا صحن دیکھنے کی خواہش کرتیں اور خود ساختہ بے دھیانی میں پکے بیروں کا نوٹس لیتیں تو بھابی سمجھ جاتیں اور انھیں بیر توڑ کر دیتیں۔
میں1982 تا 1988 پنجاب میں آبائی گھرمیں رہا لیکن اس دوران مختلف وجوہات کی بنا پر محض چند روز کے لئے دو تین مرتبہ وقتاً فوقتاً کراچی جانا ہوا۔ یوں تو 1982 سے ہی کراچی کے حالات میں بتدریج تبدیلی کا آغاز محسوس ہوگیا تھا کہ فضا میں، لوگوں کے رویہ میں اور چھٹی حس میں عجب سی بے چینی نے جگہ بنانا شروع کر دی تھی لیکن جب میں 1984 میں بھائی جان کے ایک سالہ اکلوتے بیٹے (جو پانچ بیٹیوں کے بعد پیدا ہوا تھا) کی جان لیوا بیماری کےدوران دو ہفتوں کے لئے والدہ محترمہ کے ہمراہ گیا تو ریل گاڑی کے ڈرگ روڈ علاقہ سے گزرنے کے دوران ریلوے لائن کی ایک طرف تو ٹریفک رواں دواں نظر آئی مگر لائن کی دوسری جانب فوج کے جوانوں کا کرفیو میں مسلح پہرہ دیکھا تو یقین ہو گیا کہ اب پہلے والا پر امن کراچی نہیں رہا۔ ان دو ہفتوں کے دوران جاننے والوں اور خصوصاً چند پڑوسیوں کے رویہ میں لاتعلقی اور خاصا روکھا پن نظر آیا۔شہر کے سعید کلینک (ہسپتال) میں بھائی جان کا بیٹا داخل تھا،روزانہ وہاں ٹیکسی میں آتے جاتے بھی خود کو نہایت غیرمحفوظ محسوس کرتے۔ میں اس سے پہلے والے تمام قیام کے دوران گھر کا زیادہ مقدار میں سودا سلف لینے سعودآباد بلکہ خاصا دور لیاقت مارکیٹ تک بھی سائیکل پر بے دھڑک جاتا رہتا تھا لیکن اس مرتبہ خصوصاً لیاقت مارکیٹ جاتے ہوئے ملیر کے جس علاقہ سے گزر ہوتا تو لوگوں کی شک بھری نگاہوں سے ڈر لگتا۔ والدہ صاحبہ اور میں دو ہفتوں بعد واپس پنجاب چلے گئے۔ پھر کافی عرصہ تک کراچی جانا نہ ہوا، آخری سفر دوستوں کے ہمراہ 1987 میں کیا (جس کی تصویر اس تحریر کے آخر میں لگا رہا ہوں)اور اس کے بعد 1988 میں سکاٹ لینڈ آگیا۔
سب سے بڑے بھائی جان 1964 تا 2019 (وفات تک) کراچی میں ہی رہے اور وہیں پر مدفون ہیں۔


کراچی مزار قائد پر 1987
 
Top