نیرنگ خیال
لائبریرین
منظر بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی منظر انسان کو کھینچ کر ماضی میں لے جاتا ہے تو کبھی کوئی منظر اس کو واپس حال میں کھینچ لاتا ہے۔ لیکن کچھ منظر ایسے دلفریب ہوتے ہیں کہ انسان ان کو دیکھ کر یادوں میں اس قدر دھنس جاتا ہے کہ پھر اس کو واپس حال میں آنا تکلیف دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہیں وہ منظر ٹھہر جائے اور کسی طرح وہ وقت کو واپس موڑ لے۔ لیکن" دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو" شاعر کے تخیل میں تو ممکن ہے حقیقت میں نہیں۔
صبح کے مناظر کی دلفریبی کا میں سدا سے اسیر ہوں۔ یہ وہ مناظر ہیں جو میرے دل کو چھو جاتے ہیں۔ میں ان لمحوں میں خود کو ہمیشہ تروتازہ محسوس کرتا ہوں۔ صبح ہوگئی تھی لیکن سورج ابھی کہرے اور بادل کی چادر اوڑھے کچھ دیر اور سونا چاہتا تھا۔ اس کی انگڑائیاں کہرے اور بادل کی چادر کے پیچھے محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ بار بار بادل کی چادر اوپر کھینچتا لیکن فطرت اس کو روز مرہ کے معمولات کی طرف بادل ہٹا کر بلانے کی کوشش کرتی۔ ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لیے میں نے گردن میں لپٹا مفلر منہ کے اوپر بھی لپیٹ لیا۔ اسلام آباد میں سائیکل چلانا بھی کتنا مشکل ہے۔ ساری سڑکیں اونچی نیچی ہیں۔ کتنا زور لگتا ہے۔ میں اپنی کاہل اور سست طبع کو کوسنے لگا۔ ایک میدان کے پاس سے گزر رہا تھا کہ کچھ کتوں کو لگا میری رفتار کم ہے۔ سو انہوں نے تیز سائیکل چلانے میں کچھ دور تک میری مدد کی۔ سائیکل چلاتے چلتے میں سیکٹر سے آگے نکل آیا۔
میدان کے ایک طرف چند جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ انہیں جھونپڑیوں میں سے ایک کے باہر سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ گاؤں سے تعلق ہونے کی وجہ سے میرے لیے یہ دھواں اجنبی نہ تھا۔ میں جانتا تھا کہ مٹی کے ایک چولہے میں چند لکڑیاں یا اپلے جل رہے ہوں گے۔ لیکن جب میں اس چولہے کے سامنے سے گزرا تو پاؤں رک گئے۔ ایک عورت چولہے پر توا رکھ کر روٹی بنا رہی تھی۔ اور اس چولہے کے سامنے ایک چھوٹا سا بچہ دھونکنی لیے چولہے میں جلتی لکڑیوں کو مزید دھونکنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کی اس حرکت سے شعلے بڑھک بڑھک کر توے کو چاروں طرف سے گھیر لیتے۔ اس کی ماں اسے منع کر رہی تھی۔ بچے کے سامنے ایک پلیٹ بھی رکھی ہوئی تھی۔ میں نے میدان میں بڑے سے پتھر کے سہارے سائیکل کھڑی کی اور خود پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اس منظر نے مجھے بہت پیچھے دھکیل دیا تھا۔
یہ ایک گھر تھا چار کمروں پر مشتمل گھر۔ کچا گھر جس کی دیواریں مٹی سے لیپی ہوئی تھیں۔ کمروں کی چھتیں لکڑی کے بڑے بڑے تختوں اور اینٹوں کے سہارے کھڑی تھیں۔ صحن کے ایک کونے میں مٹی کا چولہا تھا۔ جس میں ایک عورت اپلے اور لکڑیاں اکھٹی کر کے جلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ بار بار تیلی جلاتی لیکن لکڑیاں اور اپلے آگ ہی نہیں پکڑ رہے تھے۔ چولہے میں پڑی لکڑیوں کو دھونکتے دھونکتے اس کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔ اس کے پاس ہی ایک بچہ بیٹھا تھا۔ جو اپنی ماں کو بڑے انہماک سے دیکھ رہا تھا۔ بچے نے جب دیکھا کہ کہرے سے بھیگی لکڑیاں آگ پکڑنے پر رضامند نہیں تو اپنی ماں کو مخاطب کر کے کہا۔ "امی ! میں سامنے والی دکان سے مٹی کا تیل لے آؤں"۔ "ارے ہاں! جاؤ بیٹا وہ سامنے مٹی کا تیل پڑا ہے۔ اٹھا کر لے آؤ"۔ ماں نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ مٹی کے تیل سے لکڑیاں فوراً سلگ اٹھیں۔ بچہ بھی وہیں چولہے کے سامنے بیٹھ گیا۔ اور لکڑیاں ہلا ہلا کر دھونکنی سے لکڑیوں کو دھونکنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں لکڑیوں کا دھواں چڑھنے سے پانی بہنے لگا۔ ماں نے ماتھے پر بوسہ دے کر اس کو ایسا کرنے سے منع کیا۔
سورج کی تمازت اب گالوں پر محسوس ہونے لگی تھی۔ شاید اس نے یہ راز پا لیا تھا کہ طلوع ہوئے بغیر گزرا نہیں ہوگا۔ میں نے سائیکل اٹھائی اور گھر واپسی کی راہ لی۔واپسی کی راہ پر نہ دھواں تھا نہ دھونکنی اور لکڑیاں۔ لیکن آنکھیں سرخ تھیں اور ان سے پانی بہہ رہا تھا۔
صبح کے مناظر کی دلفریبی کا میں سدا سے اسیر ہوں۔ یہ وہ مناظر ہیں جو میرے دل کو چھو جاتے ہیں۔ میں ان لمحوں میں خود کو ہمیشہ تروتازہ محسوس کرتا ہوں۔ صبح ہوگئی تھی لیکن سورج ابھی کہرے اور بادل کی چادر اوڑھے کچھ دیر اور سونا چاہتا تھا۔ اس کی انگڑائیاں کہرے اور بادل کی چادر کے پیچھے محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ بار بار بادل کی چادر اوپر کھینچتا لیکن فطرت اس کو روز مرہ کے معمولات کی طرف بادل ہٹا کر بلانے کی کوشش کرتی۔ ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لیے میں نے گردن میں لپٹا مفلر منہ کے اوپر بھی لپیٹ لیا۔ اسلام آباد میں سائیکل چلانا بھی کتنا مشکل ہے۔ ساری سڑکیں اونچی نیچی ہیں۔ کتنا زور لگتا ہے۔ میں اپنی کاہل اور سست طبع کو کوسنے لگا۔ ایک میدان کے پاس سے گزر رہا تھا کہ کچھ کتوں کو لگا میری رفتار کم ہے۔ سو انہوں نے تیز سائیکل چلانے میں کچھ دور تک میری مدد کی۔ سائیکل چلاتے چلتے میں سیکٹر سے آگے نکل آیا۔
میدان کے ایک طرف چند جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ انہیں جھونپڑیوں میں سے ایک کے باہر سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ گاؤں سے تعلق ہونے کی وجہ سے میرے لیے یہ دھواں اجنبی نہ تھا۔ میں جانتا تھا کہ مٹی کے ایک چولہے میں چند لکڑیاں یا اپلے جل رہے ہوں گے۔ لیکن جب میں اس چولہے کے سامنے سے گزرا تو پاؤں رک گئے۔ ایک عورت چولہے پر توا رکھ کر روٹی بنا رہی تھی۔ اور اس چولہے کے سامنے ایک چھوٹا سا بچہ دھونکنی لیے چولہے میں جلتی لکڑیوں کو مزید دھونکنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کی اس حرکت سے شعلے بڑھک بڑھک کر توے کو چاروں طرف سے گھیر لیتے۔ اس کی ماں اسے منع کر رہی تھی۔ بچے کے سامنے ایک پلیٹ بھی رکھی ہوئی تھی۔ میں نے میدان میں بڑے سے پتھر کے سہارے سائیکل کھڑی کی اور خود پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اس منظر نے مجھے بہت پیچھے دھکیل دیا تھا۔
یہ ایک گھر تھا چار کمروں پر مشتمل گھر۔ کچا گھر جس کی دیواریں مٹی سے لیپی ہوئی تھیں۔ کمروں کی چھتیں لکڑی کے بڑے بڑے تختوں اور اینٹوں کے سہارے کھڑی تھیں۔ صحن کے ایک کونے میں مٹی کا چولہا تھا۔ جس میں ایک عورت اپلے اور لکڑیاں اکھٹی کر کے جلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ بار بار تیلی جلاتی لیکن لکڑیاں اور اپلے آگ ہی نہیں پکڑ رہے تھے۔ چولہے میں پڑی لکڑیوں کو دھونکتے دھونکتے اس کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔ اس کے پاس ہی ایک بچہ بیٹھا تھا۔ جو اپنی ماں کو بڑے انہماک سے دیکھ رہا تھا۔ بچے نے جب دیکھا کہ کہرے سے بھیگی لکڑیاں آگ پکڑنے پر رضامند نہیں تو اپنی ماں کو مخاطب کر کے کہا۔ "امی ! میں سامنے والی دکان سے مٹی کا تیل لے آؤں"۔ "ارے ہاں! جاؤ بیٹا وہ سامنے مٹی کا تیل پڑا ہے۔ اٹھا کر لے آؤ"۔ ماں نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ مٹی کے تیل سے لکڑیاں فوراً سلگ اٹھیں۔ بچہ بھی وہیں چولہے کے سامنے بیٹھ گیا۔ اور لکڑیاں ہلا ہلا کر دھونکنی سے لکڑیوں کو دھونکنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں لکڑیوں کا دھواں چڑھنے سے پانی بہنے لگا۔ ماں نے ماتھے پر بوسہ دے کر اس کو ایسا کرنے سے منع کیا۔
سورج کی تمازت اب گالوں پر محسوس ہونے لگی تھی۔ شاید اس نے یہ راز پا لیا تھا کہ طلوع ہوئے بغیر گزرا نہیں ہوگا۔ میں نے سائیکل اٹھائی اور گھر واپسی کی راہ لی۔واپسی کی راہ پر نہ دھواں تھا نہ دھونکنی اور لکڑیاں۔ لیکن آنکھیں سرخ تھیں اور ان سے پانی بہہ رہا تھا۔