احباب : غزل کے دو مصرعوں کو بدل دیا گیا تھا ، لہٰذا غزل یہاں دوبارہ لگا رہا ہوں

دھواں تھا چار سو اتنا کہ ہم بے انتہا روئے
چراغ ِ دید ہی گل تھا ، نہ کیوں روح ِ ضیا روئے

عجب حدت مرے اطراف میں جلوہ فروزاں تھی
کہ میری خاک سے شعلے لپٹ کر بار ہا روئے

کسی پتھر کے کانوں میں مری آواز یوں گونجے
کہ اِس کے دل کے خانوں میں چھپا ہر اژدھا روئے

سریر ِحجتِ یزداں، زمیں پر کیا اُتر آیا ؟
اَنا سر پیٹتی آئی، جفاؤں کے خدا روئے

مرے آغاز میں مجھ کو ہی رونا تھا، سو میں رویا
نہ جانے کیوں مرے انجام پہ شاہ و گدا روئے

کریں انکار تیری خاک سے ارض و سما نقوی
عبث ہے آنکھ بھر آئے ، یا تیرا نقش ِ پا روئے

ذوالفقار نقوی
 

الف عین

لائبریرین
عبث ہے آنکھ بھر آئے ، یا تیرا نقش ِ پا روئے
کو اگر
عبث ہے آنکھ بھر آئے ، کہ تیرا نقش ِ پا روئے
کہا جائے تو بہتر ہو گا۔ میرے ناقص خیال میں
 
غزل فائنل شکل میں ۔۔۔

دھواں تھا چار سو اتنا کہ ہم بے انتہاروئے
چراغ ِ دید ہی گل تھا ، نہ کیوں روح ِضیا روئے


عجب حدت مرے اطراف میں جلوہ فروزاں تھی
کہ میری خاک سے شعلے لپٹ کر بار ہا روئے

کسی پتھر کے سینے میں مری آواز یوں گونجے
کہ اِس کے دل کے خانوں میں چھپا ہر اژدھا روئے

سریر ِحجتِ یزداں، زمیں پر کیا اُتر آیا ؟
اَنا سر پیٹتی آئی، جفاؤں کے خدا روئے

مرے آغاز میں مجھ کو ہی رونا تھا، سو میں رویا
نہ جانے کیوں مرے انجام پہ شاہ و گدا روئے

کریں انکار تیری خاک سے ارض و سما نقوی
عبث ہے آنکھ بھر آئے ، کہ تیرا نقش ِ پا روئے


ذوالفقار نقوی
 
Top