فرخ منظور
لائبریرین
دھوپ سروں پر اور دامن میں سایا ہے
سن تو سہی جو پیڑوں نے فرمایا ہے
کیسے کہہ دوں بیچ اپنے دیوار ہے جب
چھوڑنے کوئی دروازے تک آیا ہے
اس سے آگے جاؤ گے تب جانیں گے
منزل تک تو رستہ تم کو لایا ہے
بادل بن کر کتنا اونچا جائے بھی
پانی آخر مٹی کا سرمایا ہے
شاذ محبت کو اپنانا کھیل نہیں
اپنے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا ہے
(ذکریا شاذ)
سن تو سہی جو پیڑوں نے فرمایا ہے
کیسے کہہ دوں بیچ اپنے دیوار ہے جب
چھوڑنے کوئی دروازے تک آیا ہے
اس سے آگے جاؤ گے تب جانیں گے
منزل تک تو رستہ تم کو لایا ہے
بادل بن کر کتنا اونچا جائے بھی
پانی آخر مٹی کا سرمایا ہے
شاذ محبت کو اپنانا کھیل نہیں
اپنے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا ہے
(ذکریا شاذ)