دھڑکنوں کو تری یادوں نے روانی بخشی۔۔۔ ایک تازہ غزل برائےاصلاح

متلاشی

محفلین
دھڑکنوں کو تری یادوں نے روانی بخشی
تنِ مردہ کو ترے وعدوں نے جوانی بخشی

میں کہ تھا ٹوٹ کے بکھرا ہوا انساں جاناں
تیری چاہت نے مجھے شوخ بیانی بخشی

چھین کر مجھ سے میرا چین و سکوں سب تونے
آہ بدلے میں بس اک یاد سہانی بخشی

اپنی چاہت کا سبق مجھ کو پڑھا کر تو نے
شعر کہنے کو حسیں ایک کہانی بخشی

اپنی سانسوں میں بسا کر مجھے خوشبوکی طرح
تونے الفت کی کیا خوب نشانی بخشی

متلاشی
 

ابن رضا

لائبریرین
اچھی کوشش ہے جناب۔
تاہم از راہِ علم استفسار ہے کہ مطلع میں منتخب کیے گئے قوافی میں حرفِ روی کیاہے؟ اگر روانی اور جوانی کا نون حرف روی ہے تو ۔ کیا خیال ہے شیخ صاحب و سَرسَری صاحب؟؟

روانی: جوانی :
ی : وصل
ن: روی (مطلق)
ا: قید
وَ: ماقبل حرف مفتوح

تو کیا مطلع کے قوافی میں بل ترتیب دونوں ماقبل حروف کی تکرار جائز تصور کی جاتی ہے اور اگر عام مستعمل ہے تو اس کی کوئی مثال ؟
 
آخری تدوین:
البتہ مطلع میں شاعر صاحب نے ایک اور پابندی کی ہے جسے غزل کے بقیہ حصے میں نہیں نبھایا، وہ یہ کہ مطلع کے دونوں میں مصرعوں میں دو قافیے اور دو ردیفیں ہیں:
پہلا قافیہ: ”یادوں“ اور ”وعدوں“۔
پہلی ردیف: ”نے“۔
دوسرا قافیہ: ”روانی“ اور ”جوانی“۔
دوسری ردیف: ”بخشی“۔
:)
 

ابن رضا

لائبریرین
البتہ مطلع میں شاعر صاحب نے ایک اور پابندی کی ہے جسے غزل کے بقیہ حصے میں نہیں نبھایا، وہ یہ کہ مطلع کے دونوں میں مصرعوں میں دو قافیے اور دو ردیفیں ہیں:
پہلا قافیہ: ”یادوں“ اور ”وعدوں“۔
پہلی ردیف: ”نے“۔
دوسرا قافیہ: ”روانی“ اور ”جوانی“۔
دوسری ردیف: ”بخشی“۔
:)
نہیں بھائی پہلےقافیے کو اس لیے رد کر دیا کہ اس صورت میں ردیف تبدیل نہیں کی جاسکتی جب کہ آگے دوسرے مصرے میں ردیف بدل رہی ہے
 

متلاشی

محفلین
بہت خوب لکھی ہے غزل۔۔۔

یہ دو مصرعے وزن سے خارج ہیں:
تنِ مردہ کو ترے وعدوں نے جوانی بخشی

تونے الفت کی کیا خوب نشانی بخشی
جی پہلا مصرعہ تو واقعی وزن سے خارج ہے ۔۔
دوسرا مصرعہ یوں کیسے لگے گا؟
تونے الفت کی یہ کیا خوب نشانی بخشی
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
 
نہیں بھائی پہلےقافیے کو اس لیے رد کر دیا کہ اس صورت میں ردیف تبدیل نہیں کی جاسکتی جب کہ آگے دوسرے مصرے میں ردیف بدل رہی ہے
چراغ سخن میں کچھ یوں لکھا ہے کہ دو قافیوں کے بیچ کی ردیف مستحسن ہے۔
 
جی پہلا مصرعہ تو واقعی وزن سے خارج ہے ۔۔
دوسرا مصرعہ یوں کیسے لگے گا؟
تونے الفت کی یہ کیا خوب نشانی بخشی
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
میں تو اقدامی اصلاح کرتا ہوں ، پھر محققین اور ناقدین کی طرف سے غزل اور اصلاح دونوں کی اصلاح کا انتظار کرتا ہوں۔ :)
 
اچھی کوشش ہے جناب۔
تاہم از راہِ علم استفسار ہے کہ مطلع میں منتخب کیے گئے قوافی میں حرفِ روی کیاہے؟ اگر روانی اور جوانی کا نون حرف روی ہے تو ۔ کیا خیال ہے شیخ صاحب و سَرسَری صاحب؟؟

روانی: جوانی :
ی : وصل
ن: روی (مطلق)
ا: قید
وَ: ماقبل حرف مفتوح

تو کیا مطلع کے قوافی میں بل ترتیب دونوں ماقبل حروف کی تکرار جائز تصور کی جاتی ہے اور اگر عام مستعمل ہے تو اس کی کوئی مثال ؟
غالب کی اس غزل میں مطلع ملاحظہ فرمائیں:

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

وائے دیوانگیِ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا

جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ
عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بہ صد رنگِ گلستاں ہونا

عشرتِ پارۂ دل، زخمِ تمنا کھانا
لذت ریشِ جگر، غرقِ نمکداں ہونا

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبؔ!
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جی پہلا مصرعہ تو واقعی وزن سے خارج ہے ۔۔
دوسرا مصرعہ یوں کیسے لگے گا؟
تونے الفت کی یہ کیا خوب نشانی بخشی
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
تنِ مردہ کو ۔۔۔کی بجائے ۔۔۔مردہ تن کو ۔۔۔کردیں تو بھی ٹھیک ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
تنِ مردہ کو ۔۔۔ کی بجائے ۔۔۔ مردہ تن کو ۔۔۔ کردیں تو بھی ٹھیک ہے۔
عاطف بھائی کیا آپ مردہ تن اور جوانی کے باہمی ربط سے متفق ہیں کہ مردہ تن کو زندگی بخشنا تو بجا مگر جوانی تو ضعف اور بوسیدگی یا خستگی وغیرہ سے متعلق ہے؟؟
 
اچھی غزل ہے۔
اور غزل کے حوالے سے اسامہ بھائی اور عاطف بھائی نے کچھ بات بھی کی ہے اسے زیر غور رکھ کر غزل کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ مزید بھی اساتذہ کہیں گے اسے بھی دیکھئے۔
مجھے ابن رضا بھائی نے ٹیگ کیا لیکن مجھے اطلاع نامے میں کوئی خبر نہیں ملی افسوس۔
محمد اسامہ سَرسَری کی توجہ:
تونے الفت کی کیا خوب نشانی بخشی
مصرع وزن میں ہے تقطیع دوبارہ کیجئے۔

ابن رضا
تاہم از راہِ علم استفسار ہے کہ مطلع میں منتخب کیے گئے قوافی میں حرفِ روی کیاہے؟ اگر روانی اور جوانی کا نون حرف روی ہے تو ۔ کیا خیال ہے شیخ صاحب و @سَرسَری صاحب؟؟
آپ کی بات کا جواب اسامہ بھائی نے غالب کی غزل پیش کرکے دے دیا ہے۔ فنی لحاظ سے عام طور پر اتنی باریکی سے قافیہ کو دیکھا نہیں جاتا بہر حال۔۔۔ جو بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ قافیہ میں پابندی صرف تین حروف کی ہوتی ہے۔
پہلا: حرف روی
دوسرا: ردف زائد (اگر موجود ہو)
تیسرا: ردف (اگر موجود ہو)

ان تین کے علاوہ کسی حرف کی پابندی نہیں۔
روی کے آگے حرف وصل سے مصرعے کے آخر تک ردیف ہے اس کی تکرار ہوتی ہے۔

قافیہ میں اگر مثلاً "ردف"، "ردف زائد" اور "حرف روی" تینوں واقع ہوجائیں تو ان تینوں کی تکرار بعینہ ضروری ہے۔ ردف سے پہلے کے کسی حرف کی پابندی اگر مصرعے میں کر بھی لی تو آگے اس میں مطابقت ضروری نہیں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
اچھی غزل ہے
قافیہ میں اگر مثلاً "ردف"، "ردف زائد" اور "حرف روی" تینوں واقع ہوجائیں تو ان تینوں کی تکرار بعینہ ضروری ہے۔ ردف سے پہلے کے کسی حرف کی پابندی اگر مصرعے میں کر بھی لی تو آگے اس میں مطابقت ضروری نہیں۔


قاعدے کی بات بتا دی آپ نے ۔ جزاک اللہ ۔
البتہ مطلع میں شاعر صاحب نے ایک اور پابندی کی ہے جسے غزل کے بقیہ حصے میں نہیں نبھایا، وہ یہ کہ مطلع کے دونوں میں مصرعوں میں دو قافیے اور دو ردیفیں ہیں:
پہلا قافیہ: ”یادوں“ اور ”وعدوں“۔
پہلی ردیف: ”نے“۔
دوسرا قافیہ: ”روانی“ اور ”جوانی“۔
دوسری ردیف: ”بخشی“۔
:)
چراغ سخن میں کچھ یوں لکھا ہے کہ دو قافیوں کے بیچ کی ردیف مستحسن ہے۔
دیگر نکتہ کی بھی توثیق یا تردید کریں دہرے قوافی کے لیے جو بات سرسری بھائی نے اوپر کی۔ کیونکہ دو قافیوں کے بیچ ردیف مستحسن تو ہےمگر کیا دو قافیوں کی طرح دو ردیف بھی مستعمل ہیں؟(یعنی قافیہ+ردیف+قافیہ+ردیف)
 
آخری تدوین:
محمد اسامہ سَرسَری کی توجہ:
تونے الفت کی کیا خوب نشانی بخشی
مصرع وزن میں ہے تقطیع دوبارہ کیجئے۔
فاعلاتن مفعولن فعلاتن فعلن
:)
اگر درست ہے تو شاباشی کے لیے کمر پر ہاتھ ذرا ہلکا رکھنا ، دانہ ہے۔ :)
مزمل شیخ بسمل صاحب!
سید ذیشان صاحب! عروض ڈاٹ کام اس مصرع میں درست رہنمائی نہیں کر رہا ، وہ ”کیا“ کو ماضی سمجھ کر وتد ہی دکھا رہا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top