غالب دہر میں‌ نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا - غالب

سیفی

محفلین
دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہٴ معنی نہ ہوا

سبزہٴ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمّرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

دل گزر گاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادہٴ سر منزلِ تقویٰ نہ ہوا

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کشِ گلبانگِ تسلی نہ ہوا

کس سے محرومیٴ قسمت کی شکایت کیجے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا

مرگیا صدمہٴ یک جنبشِ لب سے غالب
ناتوانی سے حریفِ دمِ عیسیٰ نہ ہوا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیوانِ غالب سے انتخاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

طارق شاہ

محفلین
غزل
غالب
دہرمیں نقشِ وفا وجہِ تسلّی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چُھوٹوں
وہ ستمگر مِرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دل گزرگاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفَس جادۂ سرمنزلِ تقویٰ نہ ہوا
ہوں تِرے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی، کہ کبھی
گوش مِنّت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا
کس سے محرومئ قسمت کی شکایت کیجیے
ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں، سو وہ بھی نہ ہوا
مرگیا صدمۂ یک جُنْبشِ لب سے غالب
ناتوانی سے حریفِ دمِ عیسیٰ نہ ہوا
مرزا اسد اللہ خاں غالب
 

طارق شاہ

محفلین
واہ واہ۔ کیا بات ہے آپ کی اور انتخاب کی۔ اعلی۔


بہت شکریہ اظہار خیال کے لئے
خوشی ہوئی کے انتخاب پسند آیا

دیگر احباب کی پسندیدگی کے اظہار کے لئے تشکّر
۔۔۔
غزل یوں بھی لگائی تھی کہ اس میں مرزا غالب نے
تقویٰ اور عیسیٰ
کو دیگر قوافی کے ہم قافیہ باندھا ہے ( جو کہ مخطوطی ہے)

ایسا کرنا کہیں اور نہیں نظر آتا ہے، اور نہ ہی ایسی کوئی اور مثال غالب کے دیوان میں ہے
کیونکہ شاعری ملفوظی ( صوتی) ہی مروّج ہے، یہ سمجھ نہیں آتا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟

بہت سوں نے دیگر امور میں توغالب کی تقلید کی، لیکن کسی نے اس طرح لکھنے میں پیروی نہیں کی
اور نہ ہی اس بابت کوئی مثبت تحریر میری نظر سے گزری ہے
واللہ عالم با الصواب

ایک بار پھر سے شکریہ
 
بہت شکریہ اظہار خیال کے لئے
خوشی ہوئی کے انتخاب پسند آیا

دیگر احباب کی پسندیدگی کے اظہار کے لئے تشکّر
۔۔۔
غزل یوں بھی لگائی تھی کہ اس میں مرزا غالب نے
تقویٰ اور عیسیٰ
کو دیگر قوافی کے ہم قافیہ باندھا ہے ( جو کہ مخطوطی ہے)

ایسا کرنا کہیں اور نہیں نظر آتا ہے، اور نہ ہی ایسی کوئی اور مثال غالب کے دیوان میں ہے
کیونکہ شاعری ملفوظی ( صوتی) ہی مروّج ہے، یہ سمجھ نہیں آتا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟

بہت سوں نے دیگر امور میں توغالب کی تقلید کی، لیکن کسی نے اس طرح لکھنے میں پیروی نہیں کی
اور نہ ہی اس بابت کوئی مثبت تحریر میری نظر سے گزری ہے
واللہ عالم با الصواب

ایک بار پھر سے شکریہ
بہت عمدہ شیئرنگ اور بہت عمدہ نکتہ۔
ہم تکنیکی رائے کے لیے استادِ محترم جناب الف عین اور جناب محمد وارث کو ٹیگ کیے دیتے ہیں۔
عذر اِس گتھی کو سلجھانے میں اب لاویں گے کیا

بھئی بات یہ ہے کہ غالب یہاں اہلِ فارس کی اتباع کر گئے ہیں وہاں اس قسم کی آزادی ہے عربی الفاظ کے ساتھ۔ اور بھی آزادیاں ہیں عربی وغیرہ میں ردف وغیرہ کا تضاد۔ جیسے ”عید“ کا قافیہ ”سود“ یا ”تار“ کا ”دور“ اسی طرح غالب نے ”ہی“ کا قافیہ ”ہا“ کر دیا ہے۔ لیکن بھر حال شعراءِ ریختہ کو اس سے بچنا واجب ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میں متفق ہوں، دور کیوں جائیں، حیدر آباد دکن کی ہی موسیٰ ندی، نہ صرف موسی کہا جاتا ہے بلکہ انگریزی میں کوئی موسیٰ لکھ دے تو غیر اردو داں کو سمجھ میں ہی نہ آئے کہ کس ندی کی بات ہے!!!
 

طارق شاہ

محفلین
بھئی بات یہ ہے کہ غالب یہاں اہلِ فارس کی اتباع کر گئے ہیں وہاں اس قسم کی آزادی ہے عربی الفاظ کے ساتھ۔ اور بھی آزادیاں ہیں عربی وغیرہ میں ردف وغیرہ کا تضاد۔ جیسے ”عید“ کا قافیہ ”سود“ یا ”تار“ کا ”دور“ اسی طرح غالب نے ”ہی“ کا قافیہ ”ہا“ کر دیا ہے۔ لیکن بھر حال شعراءِ ریختہ کو اس سے بچنا واجب ہے۔
میں متفق ہوں، دور کیوں جائیں، حیدر آباد دکن کی ہی موسیٰ ندی، نہ صرف موسی کہا جاتا ہے بلکہ انگریزی میں کوئی موسیٰ لکھ دے تو غیر اردو داں کو سمجھ میں ہی نہ آئے کہ کس ندی کی بات ہے!!!

جواب کے لئے اور سب کی پسندیدگی کے لئے متشکّر ہوں

دراصل! میں کوئی مُستنِد یا مُدلّل جواب، یا اِمثال کا مُتمنّی تھا
کہ آیا فارسی میں ایسی بستگی کی کوئی صورت، یا اجازت ہے؟







صوتی ہم آہنگی، والے مختلف الفاظ کی، یا ان کی جو مکرّرہ حرف
پرہی ختم ہوتے ہیں، کی ہم قافیہ بستگی کی، تو کئی مثالیں مل جاتی ہیں



خیر ایک بار پھر سے تشکّر، بہت خوش رہیں
 
Top