ساجداقبال
محفلین
آج شائع ہونے والا حامد میر کا کالم قابل توجہ ہے:
کرنل رحمت اللہ صفی مغربی افغانستان میں بارڈر پولیس کا کمانڈر ہے چند دن قبل صفی کو اطلاع ملی کہ ہرات کے نوجوانوں کا ایک گروپ ایران گیا ہے تاکہ وہاں عسکری تربیت حاصل کرکے واپس آئے اور طالبان کے ساتھ مل کر امریکی اور دیگر مغربی ممالک کی فوج پر حملے کرسکے۔ صفی نے مغربی افغانستان کے صوبوں ہرات، فراح اور بادغیس کی سرحد پر کڑی نگاہ رکھنی شروع کردی اور ایک دن ایران سے افغانستان آنے والا بہت سا اسلحہ پکڑ لیا جس میں اینٹی ٹینک بارودی سرنگیں بھی تھیں۔ کرنل رحمت اللہ صفی ہرات شہر سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر اپنے دفتر میں بیٹھا ہر صحافی کو یہ بتانے کیلئے تیار ہے کہ ایران کی طرف سے افغانستان کو ایک نیا عراق بنانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے وہ کئی مرتبہ افغانستان کی وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور نیٹو کے اعلٰی حکام کو بتا چکا ہے کہ ہرات کے قریب ایران کے سرحدی شہر تربت جام میں ایک بڑا ٹریننگ کیمپ ہے جہاں افغان نوجوانوں کو نیٹو کے خلاف لڑنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ وہ تحریری طور پر یہ بھی بتا چکا ہے کہ اسے 1186کلو میٹر لمبی افغان ایران سرحد کی حفاظت کیلے1652جوان دیئے گئے۔ ان میں سے کچھ بھاگ گئے اور کچھ گاڑیاں کم ہونے کی وجہ سے کام نہیں کرسکتے۔1186کلو میٹر لمبی سرحد پر صحیح معنوں میں صرف900 جوان تعینات ہیں اور افرادی قوت کی شدید کمی کے باعث وہ ایران کے راستے افغانستان آنے والے عسکریت پسندوں کی سرکوبی میں کافی مشکلات کا سامنا کرتا رہا ہے اور اگر اسے مزید افرادی قوت مہیا نہ کی گئی تو وہ مغربی افغانستان میں فرائض کی انجام دہی سے قاصر ہوگا۔ کرنل رحمت اللہ صفی کی چیخ و پکار کا نیٹو پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ نیٹو کی توجہ کا اصل مرکز پاک افغان سرحد ہے۔ صفی کا کہنا ہے کہ طالبان اور القاعدہ نے مغربی افغانستان کے علاوہ ایران کے سرحدی علاقوں میں بہت سے محفوظ ٹھکانے بنارکھے ہیں، یہ مغربی افغانستان سے جنوبی افغانستان جاتے ہیں، کارروائیاں کرتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں۔ اس کے خیال میں نیٹو کو صرف پاک افغان سرحد پر نہیں بلکہ افغان ایران سرحد پر بھی اپنے دستے تعینات کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایران کی طرف سے نیٹو افواج پر حملوں کے حدشے کے باعث افغان ایران سرحد پر نیٹو کے دستے تعینات نہیں کئے جاتے۔ کرنل رحمت اللہ صفی جو کچھ 2007ء میں کہہ رہا ہے تین سال قبل یہی کچھ لطف اللہ مشال نے مجھے کابل میں بتایا تھا۔ تین سال قبل لطف اللہ مشال افغان وزارت داخلہ کا ترجمان تھا اور آج کل وہ صدر حامد کرزئی کا مشیر ہے جب میں نے اس کو پوچھا کہ تم لوگ پاکستان کے خلاف ہر وقت بولتے ہو لیکن ایران کے بارے میں خاموش رہتے ہو تو اس نے کہا کہ افغانستان میں ایران کی لابی بہت مضبوط ہے اور ایران کے خلاف بولنا بہت مشکل ہے۔ دو سال قبل افغانستان کے سابق وزیر اعظم انجینئر احمد شاہ احمد زئی نے حامد کرزئی سے کہا کہ آپ ایران کے بارے میں کیوں نہیں بولتے تو کرزئی نے جواب میں کہا کہ بیک وقت پاکستان اور ایران کے ساتھ محاذ آرائی ممکن نہیں۔ انجینئر احمد شاہ احمد زئی کا خیال ہے کہ کل تک ایران اور طالبان ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن امریکا کی ہوس ملک گیری نے ایرانیوں کو طالبان کے ساتھ ہاتھ ملانے پر مجبور کردیا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ ایرانی سب کچھ کررہے ہیں لیکن پتہ نہیں چلنے دیتے جبکہ پاکستانی امریکا کا اتحادی ہونے کے باوجود امریکیوں کی نظر میں ان کے اصل دشمن ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکا کا اتحادی بن کر پچھلے تین سال میں سات سو سے زیادہ فوجیوں کی قربانی دی جبکہ افغانستان میں چھ سال کے دوران امریکا کے فوجیوں کی قربانی تین سو بھی نہیں۔ امریکا نے عراق میں ڈیڑھ لاکھ فوج بٹھا رکھی ہے لیکن افغانستان میں صرف بیس ہزار فوج کے ساتھ اسامہ بن لادن کو تلاش کررہا ہے۔ امریکا ایک سے زائد مرتبہ پاکستانی علاقوں میں میزائل داغ چکا ہے یہاں تک کہ پاکستان کے سرحدی محافظوں پر حملے کرچکا ہے لیکن جنرل پرویز مشرف نے امریکی جارحیت کی کبھی مذمت نہیں کی۔ آج امریکا کسی ثبوت کے بغیر کہہ رہا ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہے اور ضرورت پڑنے پر امریکی فوج پاکستان میں کارروائی کریگی۔ امریکا کے صدر بش اس قسم کی بیان بازی ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب پاکستانی فوج کو خودکش حملوں کا سامنا ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد جنرل پرویز مشرف سیاسی دباؤ میں ہیں۔ اس مشکل وقت میں جنرل پرویز مشرف پر مزید دباؤ ڈال کر امریکا نے ثابت کردیا ہے کہ وہ پاکستان کا دوست نہیں ہے۔ دوست مشکل وقت میں بلیک میلنگ نہیں کرتے بلکہ حوصلہ دیتے ہیں۔ کیا ہمیں اب بھی سمجھ نہ آئے گی؟ امریکی دھمکیوں کے مقابلے کیلئے پاکستان میں قومی اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ ویسا ہی اتحاد جیسا امریکا کے خلاف ایران میں ہے۔ یہ اتحاد پیدا کرنے کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا جلدازجلد اجلاس بلایا جانا چاہئے اور امریکی دھمکیوں پر بحث کے بعد ایک متفقہ قومی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ پچھلے ایک سال کے دوران باجوڑ میں امریکی حملوں سے شہید ہونے والے عورتوں اور بچوں کے لواحقین کیلئے امریکی حکومت اور نیٹو سے ہرجانے کا مطالبہ کرے۔ اگر امریکا اپنی دھمکیاں واپس نہیں لیتا اور ہرجانہ ادا نہیں کرتا تو جنرل پرویز مشرف دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کو خیرباد کہہ دیں۔ امریکی رویے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان کے خلاف ہے جب اس جنگ کی آگ سے پاکستان میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی ہے تو امریکا الزامات اور دھمکیوں سے ایک نئی آگ لگارہا ہے۔ دوست آگ نہیں لگاتے بلکہ آگ بجھاتے ہیں لیکن شائد امریکی دوستی کا مطلب نہیں جانتے۔