دہشت گردوں کی سرکوبی کےلیے فوجی آپریشن ناگزیر ہوگیا تھا،رحمٰن ملک
اسلام آباد (طاہر خلیل) سابق وزیرداخلہ سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کےلیے پوری قوم دعا گو ہے انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت بین الاصوبائی سرحدی علاقوں پر نگرانی کا نظام سخت کرے خدشہ ہے کہ لشکر جھنگوی کے پنجابی طالبان دہشت گرد فرار ہو کر صوبے میں پناہ لیں گے جس سے حالات خراب ہوسکتے ہیں بدھ کو نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے رحمان ملک نے کہا کہ دہشت گردوں کی سرکوبی کےلیے فوجی آپریشن ناگزیر ہوگیاتھا، پیپلزپارٹی کی قیادت پاک فوج کے آپریشن کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ دہشت گردی کا علاج صرف و صرف آپریشن ہے۔ علاوہ ازیں رحمٰن ملک سے پیپلزپارٹی جاپان کے صدر چوہدری ارشاد نے ملاقات کی اور جاپان میں مقیم پاکستانیوں کے معاملات پر بات چیت کی پیپلزپارٹی اوورسیز کے سیکرٹری جنرل رائے مجتبیٰ کھرل اور جوائنٹ سیکرٹری اوورسیز نرگس فیض ملک بھی موجود تھیں رحمٰن ملک نے جو پیپلزپارٹی اوورسیز کے صدر بھی ہیں نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کی اوورسیز تنظیموں میں پرانے اور نئے عہدیداروں کو مساوی نمائندگی دی جائے گی۔
اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اہم تنصیبات پر حملوں میں ملوث رہی
کراچی(رپورٹ:سید عارفین) شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ’ضرب عضب‘ میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے دہشت گردوں کو بالخصوص نشانہ بنایا جا رہاہے، مئی2011میں پی این ایس مہران کراچی ، اپریل 2012 میں بنوں جیل، دسمبر2012میں پشاور کا باچاخان ایئرپورٹ،جولائی2013میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل اورجون 2014 میں کراچی ایئرپورٹ اولڈ ٹرمینل پر ہونے والوں حملوں میں کافی چیزیں ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں ۔ خاص بات ان حملوں کی یہ ہے کہ ان کیلئے اتوار کے دن کا انتخاب کیا گیا اور حملے رات کی تاریکی میں ہوئے ،ماسوائے پشاور ایئرپورٹ کے جس پر ہفتے کی شب حملہ ہوا جبکہ تمام حملوں میں ایک طرح کے ہتھیار استعمال ہوئے جس میں آر پی جی راکٹ، ہینڈ گرینیڈ ، اے کے 47 جسے عرف عام میں کلاشنکوف کہا جاتا ہے شامل تھے اور سب سے اہم بات تمام حملوں میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے جنگجوئوں نے اہم کردار ادا کیا یہاں تک کہ بنوں جیل پر حملے کی مووی بنانے والا بھی ایک ازبک ہی تھا۔ امریکن آرمی کے ریسرچ اینڈ اننالیسزسینٹر،فارن ملٹری اسٹڈی آفس کے مطابق اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کی بنیاد طاہر یلدوشیف اور جمعہ نمنگانی نے 1998 میں رکھی۔ریسرچ تحریر کرنیوالے میتھیو اسٹین لکھتے ہیں کہ جب1989-90 کے دوران سوویت یونین میں چھوٹے کاروبار ترقی پانے لگے تو کچھ مافیاز نے ان کاروباری حضرات سے بھتا طلب کرنا شروع کردیا چناچہ ازبکستان کے شہر نمنگان کی وادی فرگانہ میں کاروبار کرنے والے ایک شخص نے پروٹیکشن گروپ ’عدولت ‘ تشکیل دیا جس کے ازبک زبان میں معنی انصاف کے ہیں۔جمعہ نمنگانی کے ہمراہ مقامی نوجوان ملاطاہر یلدوشیف عدولت کے اہم رہنما کے طور پر ابھرا، جب طاہر یلدوشیف عدولت کا نظریہ ساز بنا تو عدولت نے مذہبی کروٹ لی۔ اسٹین لکھتے ہیں کہ دسمبر1991 میں عدولت نے مقامی کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کرلیاجس نے ازبک سوویت سوشلسٹ ریپبلک کے سربراہ اسلام کریموف کو وہاں کا دورہ کرنے پر مجبورکردیا ، واضح رہے کہ اسلام کریموف اس وقت ازبکستان کے صدر ہیں۔1992 کے آغاز میں ازبک حکومت نے عدولت کیخلاف کریک ڈائون شروع کیا جس کے بعد گروپ کے کچھ لوگ تاجکستان اور کچھ افغانستان فرار ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق افغانستان فرار ہونے والوں میںطاہر یلدوشیف بھی شامل تھا، 1992-97 کے دوران نمنگانی تاجکستان میں ہونے والی خانہ جنگی میں بھی شامل رہا، خانہ جنگی کے اختتام کے بعد نمنگانی نے تاجکستان میں ہی قیام کیا اور منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہوگیا۔ 1997 میں طاہر یلدوشیف نے نمنگانی سے ملاقات کی جس کے بعد دونوں نے مل کر 1998 میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کی بنیاد ڈالی۔ آئی ایم یو کے قیام کے بعد دونوں نے ازبکستان اور کرغیزستان کی حکومتوں کیخلاف جہاد کا اعلان کردیا ، جہاد کا بنیادی مقصد اس وقت کی حکومت کا تختہ الٹ کر فرگانہ کی وادی میں اسلامی ریاست قائم کرنا تھا۔ ایک تحقیق کے مطابق آئی ایم یو ’اسلامک موومنٹ آف ازبکستان‘ اور افغان طالبان کے قیام کا بنیادی مقصد یکساں تھا، دونوں تنظیموں کو کاروباری طبقے نے اپنے مقاصد کیلئے کھڑا کیا لیکن پھر دونوں تنظیمیں ان کے کنٹرول سے باہر ہوگئیں اور پھر دونوں کا مقصد اسلامی ریاست کا قیام ٹھہرا۔ 90 کی دہائی میں طاہر یلدوشیف نے افغان طالبان اور مبینہ طور پر القاعدہ کے ساتھ روابط پیدا کیے، سن 2000 میں آئی ایم یو کے جنگجوئوں نے ازبکستان اور کرغیزستان کے مختلف علاقوں میں داخل ہو کر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس میں کئی جنگجوئوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور بچ جانیوالے جنگجو افغانستان فرار ہوگئے۔ فرگانہ نیوز انفارمیشن ایجنسی نے اگست2011 میں لکھا کہ شمالی وزیرستان منتقل ہونے کے بعدطاہر یلدوشیف نے ملا عمر کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور جمعہ نمنگانی افغانستان میں نومبر 2001 میں اپنے دیگر جنگجوئوں کے ساتھ مارا گیا جس کے بعد آئی ایم یو کی کمان طاہر یلدوشیف کے ہاتھ میں آگئی۔ 9/11 کے بعد طاہر یلدوشیف افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقے منتقل ہوگیا, 2007-08 میں جنوبی وزیرستان میں ملاّنذیر نے مبینہ طور پر پاکستانی فوج کے ساتھ ملکر ان ازبک جنگجوئوں کے اپنے علاقے سے نکال دیا اور لڑائی کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں ازبک جنگجو مارے گئے، بچ جانے والوں نے جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے کے علاقوں اور شمالی وزیرستان کا رخ کیا، اگست 2007 میں طاہر یلدوشیف جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملے میں مارا گیا۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق 2004-05 میں طاہر یلدوشیف کا ایک بھائی اپنے ساتھی کے ہمراہ کراچی سے گرفتار ہوا تھا جسے ازبکستان کی حکومت کے حوالے کردیا گیا اور ازبک حکومت نے مختصر ٹرائل کے بعد اسے پھانسی دے دی تھی۔ طاہر یلدوشیف کے مرنے کے بعدآئی ایم یو کی کمان اس کے نائب ابو عثمان عادل کو منتقل ہوگئی۔ عثمان عادل بھی اپنے پیشرو کی طرح اپریل 2012 میں ڈرون حملے میں ہلاک ہوگیا۔ امریکی تھنک ٹینک لانگ وار جنرل کے مطابق عثمان عادل نے طاہر یلدوشیف کے بعد طالبان سے گٹھ جوڑ کرکے آئی ایم یو کی کارروائیوں کا دائرہ پاکستان اور شمالی وزیرستان تک پھیلا دیا، عثمان عادل کی ہلاکت کے بعد اس کے جانشین عثمان غازی نے آئی ایم یو کے تیسرے امیر کی حیثیت سے کنٹرول سنبھال لیا، آئی ایم یو کے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مضبوط روابط قائم ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں ان کی محفوظ پناہ گاہیں قائم ہیں۔دونوں تنظیمیں پاکستان بھر میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے لئے ایک دوسرے کو مدد فراہم کرتی ہیں۔
سیکیورٹی فورسز نے ماموند کے سرحدی علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا
باجوڑ..... سیکیورٹی فورسز نے باجوڑایجنسی کی تحصیل ماموند کے سرحدی علاقوں کا کنٹرول مکمل طورپر سنبھال لیا، ان علاقو ں پر 10 سال بعد سبز ہلالی پرچم لہرادیا گیا۔ ماموند قبائل اور سرکاری ذرائع کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے کارروائی کرکے دس سال بعد کگہ ٹاپ، نواٹاپ سمیت متعدد سرحدی علاقوں کا کنڑول سنبھال کر وہاں پوسٹیں قائم کردی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی پوسٹیں قائم ہونے کے بعد علاقے میں خوف وہراس کا خاتمہ ہوگیا جبکہ ماموند قبائل نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ علاقے میں امن کے لیے سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ مل کر کام کریں گے۔
آپریشن ’’ضرب عضب‘‘:سیکورٹی فورسز کا دہشتگردوں کے گرد گھیرا تنگ
میران شاہ........دہشت گردوں کا صفایا کرنے کےلیے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب پاک فوج کے منصوبے کے مطابق جاری ہے، فورسز دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کررہی ہیں، مزید پیش قدمی سے پہلے قبائل کی محفوظ مقامات کی طرف منتقل کیاجارہاہے۔ شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کے خاتمے کےلیے سیکیورٹی فورسز نے انہیں گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہناہے کہ محصور دہشت گردوں کو بھاگنے نہیں دیا جائے گا۔ طے شدہ حکمت عملی کے مطابق تحصیل میر علی اور رزمک کے خاندانوں کو علاقے سے نکالنے کےلیے کرفیو نرم کردیا گیا ہے اور اسی طرح مرحلہ وار آبادی کا انخلا کرکے زمینی کارروائی کامرحلہ شروع ہوگا۔ آئی ڈی پیز کی آڑ میں دہشت گردوں کا فرار ناکام بنانے کےلیے ان پر نقل مکانی کرنے والوں پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔ تاحال آپریشن ضرب عضب فضائی کارروائی تک محدود ہے اور آبادی والے علاقوں میں آپریشن شروع نہیں ہوا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق منگل کے روز حسو خیل کے علاقے میں 25مقامی اور غیرملکی دہشت گرد مارے گئے۔ پاک فوج نے دہشت گردوں کی بم بنانے کی ایک فیکٹری، ایک تربیتی کیمپ اور 6ٹھکانے بھی تباہ کر دیے ہیں۔ 15جون کو شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب میں اب تک 184دہشت گرد ہلاک جب کہ ان کے12ٹھکانے تباہ کیے گئے ہیں جن میں ایک اہم کمیونیکیشن سینٹر بھی شامل ہے۔