دہشت گردی نیوزی لینڈ سے ناورے پہنچ گئی

جاسم محمد

محفلین
ناروے میں 65 سالہ پاک فضائیہ کے ریٹائرڈ اہلکار نے مسجد پر حملے کو ناکام بنادیا
ویب ڈیسک پير 12 اگست 2019
1775559-pafmanholdterroristinmosquenorvay-1565597827-100-640x480.jpg

تفتیشی حکام نے پاک فضائیہ کے سابق اہلکار کی بہادری اور جواں مردی کی تعریف کی۔ فوٹو : رائٹرز


اوسلو: ناروے کی ایک مسجد میں سفید فام دہشت گرد کو فائرنگ کرنے سے قبل دبوچ کر درجنوں نمازیوں کی جان بچانے والے 65 سالہ بزرگ محمد رفیق پاکستان ایئر فورس کے ریٹائرڈ اہلکار ہیں۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل اوسلو کی ایک مسجد میں شدت پسند مسلح سفید فام حملہ آور نے گھس کر فائرنگ کرنے کی کوشش کی تھی جسے مسجد میں موجود ایک پاکستانی بزرگ نمازی نے پکڑ لیا اور پولیس کے آنے تک قابو میں رکھا۔ مسجد میں عید کے اجتماع کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔

تفتیشی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ سفید فام مسلح نوجوان کے خونی عزائم کو ناکام بنانے والے پاکستانی بزرگ محمد رفیق پاک فضائیہ کے ریٹائرڈ ملازم ہیں۔ محمد رفیق نے بہادری اور جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناروے کو ایک بڑے سانحہ سے بچا لیا جس پر ان کے شکر گزار ہیں۔

تفتیشی حکام نے حملہ آور 20 سالہ نوجوان کے گھر کی تلاشی لی تو وہاں سے اس کی سوتیلی بہن کی لاش بھی ملی ہے جس پر پولیس نے ملزم کیخلاف بہن کے قتل اور مسجد پر حملے کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے تاہم ملزم نے پولیس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کردیا ہے۔

تفتیشی حکام نے مزید بتایا کہ ملزم سفید فام کی حاکمیت اور فوقیت پر یقین رکھتا ہے اور طاقت کے بل پر غیر سفید فاموں پر غلبے کی خواہش کا پرچاری ہے، ملزم ناروے کا ہی شہری ہے اور نازی ازم سے بھی متاثر ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ناروے میں مسجد پر حملہ: مسلم نفرت اور نسل پرستی کا شاخسانہ
12/08/2019 سید مجاہد علی



عید الاضحی سے ایک روز پہلے ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے قرب میں واقع علاقے بیرم کی مسجد النور اسلامک سنٹر پرایک سفید فام نوجوان کی فائیرنگ کے واقعہ سے ایک بار پھر یہ سوال وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور پریشانی کے طور سامنے آیا ہے کہ نسل پرستی اور مذہب دشمنی دنیا بھر میں لوگوں میں تفریق پیدا کررہی ہے۔

قوم پرستی کے نام پر پیدا کئے گئے ہیجان اور پروپیگنڈا کی وجہ سے متعدد نوجوان گمراہ ہوکر خود فیصلہ کرنے کی لگن میں نفرت کو عام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ تاہم اس کی ساری ذمہ داری صرف نوجوانوں کی گمراہی، انتہا پسندانہ نظریات کی ترویج یا معاشی مشکلات پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ دنیا بھر میں امریکہ سے لے کر برطانیہ تک اور متعدد مغربی ممالک میں دائیں بازو کے نسل پرست عناصر اور رجحانات کو تقویت ملی ہے۔ اگرچہ مین اسٹریم سیاست دان کوئی سانحہ ہونے پر ان رویوں کو مسترد کرتے ہیں لیکن گزشتہ چند عشروں کے دوران سیاسی لیڈر مختلف سماجی و معاشی معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ہاں آباد اقلیتوں کے بارے میں منفی رجحانات کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے ہیں۔

اب یوں لگتا ہے کہ معاملات مین اسٹریم پارٹیوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہونے سے پہلے ری پبلیکن پارٹی میں ’آؤٹ سائیڈر‘ سمجھے جاتے تھے۔ اب امریکہ کی یہ پارٹی ڈونلڈ ٹرمپ کے بغیر اپنا سیاسی ایجنڈا متعین کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔ پارٹی کے نمائیندے انتہائی ڈھٹائی سے ٹرمپ کے سماج دشمن اور اقلیتوں کے خلاف بیانات اور ٹوئٹس کے لئے دلائل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ الپاسو میں ہونے والے حالیہ حملے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام صدارتی امیدواروں نے صدر ٹرمپ کو ملک میں پھیلنے والی نفرت اور نسل پرستی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

برطانیہ میں بریکسٹ کے سوال پر تھریسا مے کے استعفیٰ کے بعد وہاں کی ٹوری پارٹی نے بورس جانسن کو ان کا جانشین منتخب کیا ہے جو اب برطانیہ کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔ جانسن اپنے بیانات اور تبصروں میں تارکین وطن اور دوسری ثقافتوں کے بارے میں ہتک آمیز اور اشتعال انگیز طرز تکلم اختیار کرتے رہے ہیں۔ انہیں بجا طور سے برطانیہ کا ’ ڈونلڈ ٹرمپ‘ کہا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ نے نئے برطانوی وزیر اعظم کے انتخاب سے پہلے اپنے مخصوص غیر روائیتی انداز میں بورس جانسن کی حمایت بھی کی تھی۔ جن یورپی ملکوں میں انتہاپسندانہ نظریات کا پرچار کرنے والے لیڈر براہ راست اقتدار میں نہیں ہیں وہاں بھی دائیں بازو کی ایسی جماعتیں 20 سے 30 فیصد تک ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں ، جو اقلیتوں کے خلاف نفرت اور انتہائی اقدامات پر مبنی پالیسیاں اختیار کرنے کو اپنے منشور کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔

سال رواں کے دوران بھارت میں بی جے پی نے ایک بار پھر انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی ہے ۔ انتہائی نظریات کا پرچار کرنے والے نریندر مودی دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئے ہیں۔ اس بار انہوں نے اس قدر بھاری انتخابی کامیابی حاصل کی ہے کہ اب بھارت کی مسلمان اکثریت والی واحد ریاست مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اس علاقے کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اس انتہاپسندانہ ہندو فسطائی ایجنڈے کے بارے میں متنبہ کررہے ہیں لیکن ایک طرف بھارت میں اس فیصلہ کی وسیع بنیادوں پر تائد کی جارہی ہے تو دوسری طرف پوری دنیا نے کشمیر میں بھارت کے انتہا پسندانہ اقدامات پر پراسرار خاموشی اختیار کی ہے۔ عرب اسلامی ممالک بھی مودی کے ہندو ایجنڈے پر احتجاج کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بلکہ متحدہ عرب امارات نے تو نریندر مودی حکومت کے اس فیصلہ کو خوش آئیند قرار دیا ہے۔ اس بار خطبہ حج میں امام کعبہ نے بھی فلسطین یا کشمیر کے مسلمانوں کو اپنی دعا میں یاد رکھنا ضروری نہیں سمجھا۔ سعودی عرب میں شاہی خاندان اور مذہبی قیادت کے درمیان تال میل کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ یہ ارادی اور سوچا سمجھا پیغام تھا۔

اس پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت اور مقبولیت کے بطن سے پیدا ہونے والا انتہا پسندانہ سیاسی مزاج فروغ پارہا ہے۔ ٹرمپ، بورس جانسن اور نریندر مودی جیسے لیڈروں کی موجودگی میں مذہبی احترام اور انسانی اقدار کا ایجنڈا پس پشت ڈالا جارہا ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ دنیا بھر میں نہ تو انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے میں دلچسپی رکھتا ہے اور نہ ہی مذہبی منافرت سے امریکی قیادت کو کوئی پریشانی لاحق ہے۔ البتہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے جابر حکمران کم جونگ ان کو بھی ’راکٹ مین‘ سے عزیز دوست اور عظیم لیڈر کا درجہ دینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت کا فروغ آسان ہو چکا ہے۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن البتہ استثنیات میں شامل ہیں۔ جیسنڈا آرڈرن نے اس سال مارچ میں اپنے ملک کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر ایک سفید فام شخص کے حملوں میں 51 مسلمانوں کی شہادت کے بعد مثالی قیادت کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایک طرف فوری قانون سازی کا آغاز کیا تو دوسری طرف ذاتی طور پر مسلمانوں کے ساتھ مل کر انہیں نیوزی لینڈ کے مساوی شہری قرار دیا۔



مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی کہانی گزشتہ دو دہائیوں کے دوران القاعدہ اور داعش جیسے مسلمان دہشت گرد گروہوں کے حملوں اور نفرت انگیز طریقہ کار کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ مغربی ممالک میں نسل پرستی اور دیگر ثقافتوں کے بارے میں تعصبات کسی نہ کسی سطح پر ہمیشہ موجود رہے ہیں لیکن مسلمان گروہوں کے حملوں ، اور خاص طور سے شام و عراق پر داعش کے قبضہ کے دوران غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے انسانیت سوز سلوک کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے مسلمان عمومی طور پر اور خاص طور سے مغربی ممالک میں آباد مسلمان نمائیندے دہشت گردی سے مکمل اور غیر مشروط لاتعلقی کا اعلان کرنے میں ناکام ہوتے رہے ہیں۔ ان اقلیتی برادریوں میں ایسے لوگ بھی موجود رہے ہیں جو کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی طریقہ سے مسلمان گروہوں کی دہشت گردی کو مغربی ممالک کی غیر منصفانہ پالیسیوں کا رد عمل قرار دے کر کسی حد عذر تراشنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس رویہ کی وجہ سے اسلام سے خوف اور مسلمانوں سے نفرت میں اضافہ ہؤا۔

ناروے جیسے چھوٹے اور خوشحال ملک میں البتہ جب مذہبی نفرت کا ایک ایسا واقعہ پیش آئے جس میں ایک شخص نے ایک مسجد میں داخل ہوکر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے تو یہاں کی قیادت اور سماج کے لئے اس نفرت اور مذہبی آزادی کی اس توہین کو برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ گزشتہ روز شام 4 بجے کے قریب ایک 21 سالہ نوجوان اوسلو کی نواحی بیرم کمیون کی النورمسجد میں متعدد ہتھیاروں کے ساتھ فائیرنگ کرتا ہؤا داخل ہؤا۔ خوش قسمتی سے اس وقت مسجد میں چند ہی لوگ تھے۔ ان میں سے ایک 65 سالہ محمد رفیق نے حملہ آور کو دیکھتے ہی اسے دبوچ لیا اور باقی لوگوں کے ساتھ مل کر اسے زیر کرلیا۔ اس ہاتھا پائی میں حملہ آور کے علاوہ محمد رفیق بھی معمولی زخمی ہوگئے لیکن اس سانحہ میں زیادہ جانی نقصان نہیں ہؤا۔

پولیس نے اب حملہ آور کو حراست میں لے لیا ہے اور اس کے خلاف دہشت گرد حملہ کا الزام عائد کرنے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ حملہ آور کے گھر کی تلاشی کے دوران پولیس کو ایک 17 سالہ لڑکی کی لاش بھی ملی ہے جو ملزم کی سوتیلی بہن بتائی جاتی ہے۔ یہ لڑکی حملہ آور کے باپ کی دوسری بیوی نے چین سے گود لی تھی۔ شبہ کیا جا رہا ہے کہ مسجد پر حملہ کرنے والے نوجوان نے ہی اپنی سوتیلی بہن کو ہلاک کیا ہے۔اس لئے اس کے خلاف فی الحال قتل اور اقدام قتل کی فردجرم عائد کی گئی ہے۔ تاہم پولیس صورت حال کا مسلسل جائزہ لے رہی ہے۔

ناروے کی سیاسی قیادت اور شہریوں کی اکثریت نے اس گھناؤنے حملہ کی شدید مذمت کی ہے۔ النور مسجد کو پولیس تحقیقات کے لئے بند کردیا گیا تھا لیکن بیرم کمیون نے فوری طور پر اس مسجد کے نمازیوں کی نماز عید کے لئے علاقے کےسے سب سے بڑے ہوٹل تھون کا ہال فراہم کیا۔ اس اجتماع میں ناروے کی وزیر اعظم ارنا سولبرگ بھی اظہار یک جہتی کے لئے پہنچیں۔ انہوں نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک کی سب عبادت گاہوں کی حفاظت اور احترام ہمارے معاشرے کی بنیادی اقدار کا حصہ ہے۔ اسے پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘۔ اوسلو کی شہری حکومت کے وزیر اعلیٰ ریمنڈ یوہانسن نے شہر کی جامع مسجد میں عید کی نماز پڑھنے کے لئے آنے والے مسلمانوں سے خطاب کیا اور واضح کیا کہ ’ناروے میں انفرادی عقیدہ کے احترام اور عبادت گاہوں کے تقدس پر مفاہمت نہیں ہو سکتی اور سیاست دان پوری قوت سے ان عناصر کے خلاف کام کریں گے‘۔

اتوار کی چھٹی کے باوجود اوسلو کی مساجد میں عید کی نماز کے موقع پر درجنوں مقامی افراد مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کے لئے پہنچے اور بینر اٹھا کر اس وقت تک مساجد کے باہر کھڑے رہے جب تک لوگ نماز عید ادا کرکے واپس گھروں کو نہیں چلے گئے۔ ناروے کی مسلمان آبادی کے ساتھ سیاسی قیادت اور مقامی آبادی کے اس اظہار ہمدردی و یک جہتی سے بین المذہبی احترام کی ایک نئی فضا پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دنیا بھر میں پھیلنے والی نفرت اور تعصب کی فضا میں اہل ناروے کا یہ رویہ اندھیرے میں شمع جلانے کے مترادف ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کل مجھے خبر ملی کہ ناروے میں ایک اسلامک سینٹر پر نیوزی لینڈ کی طرز کا حملہ ہوا لیکن یہ حملہ اللہ نے ناکام کردیا۔
کہ اس وقت ظہر کی نماز کی ادائیگی کےبعد نمازی گھر لوٹ چکے تھے۔جب دہشت گرد نے فائر کر کے مسجد کا دروازہ توڑا تو اس وقت دو بزرگ مسجد میں تھے انہوں نے کمال بہادری سے دہشت گرد پہ قابو پالیا۔

اس اسلامک سنٹر میں ہمارے بہت ہی دیرینہ اور سینئر دوست جناب سید اشرف شاہ صاحب ایک مذہبی رہنماء کے طور پر فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔شاہ صاحب ایک انتہائ سلجھے ہوئےاورمضبوط علمی پس منظر رکھنے والی شخصیت ہیں۔آپ کا شمار مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد حسین نعیمی اور مفسر شھیر علامہ غلام رسول سعیدی رحمھما اللہ تعالی کے بہت ہی خاص شاگردوں میں ہوتا ہے۔آپ دینی اور دنیاوی دونوں علوم سے مرصع ہیں اور دور جدید کےتقاضوں سے بالکل ہم آہنگ ہیں۔ناروے میں آپکو بہت عزت حاصل ہے۔

ناروے کی آبادی میری معلومات کے مطابق تقریبا پچاس لاکھ ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ چورانوے ہزار (194000) ہے۔پاکستانی مسلمانوں کی تعداد یہاں سب سے زیادہ ہے۔یہاں 34 ہزار پاکستانی ہیں جو زیادہ تر اوسلو میں رہتے ہیں۔اوسلو میں23 ہزار پاکستانی آباد ہیں۔اوسلو کا ایک علاقہ گروند لینڈ ہے جو لٹل پاکستان( چھوٹا پاکستان) کہلاتا ہے۔یہاں آپکو حلال گوشت کی دوکانیں،مٹھائی کی دوکانیں،سبزی کی دوکانیں بالکل پاکستانی طرز کی ملیں گی۔اگر آپکا لاہوری ناشتہ کرنے کا موڈ ہو تو وہاں لاہوری ناشتہ بھی دستیاب ہے۔

اس شہر کے بڑےاسلامک سنٹر میں جناب سید اشرف شاہ صاحب خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔جب مجھے اس واردات کا علم ہوا تو میں نے شاہ صاحب سے خیریت دریافت کرنے کے لیے رابطہ کیا۔شاہ صاحب کو بہت پر عزم پایا۔شاہ صاحب فرمانے لگے کہ اب تو یہاں غیر یقینی کی یہ صورت حال ہے کہ ہم ہر وقت ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں کہ کسی وقت کوئی بھی حادثہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔کہنے لگے کہ آج ہفتہ تھا ظہر کی نماز پر نمازیوں کی تعداد بھی کم تھی اور دہشت گرد ٹائم کی کیلکولیشن بھی صحیح طور پر نہ کر سکا جسکی وجہ سے اللہ نے ہمیں اس حادثہ سے محفوظ رکھا۔

بہرحال شاہ صاحب اس حوالہ سے بڑے فکر مند تھے کہ چونکہ یہاں قوانین سزاؤں کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں اس لیے ایسے جرائم پیشہ افراد کو قانون کا کوئی ڈر نہیں ہے اور انہیں پتہ ہے کہ اگر سزا بھی ہوئی تو چند سالوں کے ہوگی۔جیلوں میں آسائشات ہیں کوئی مشکل نہیں ہوتی، اس لیے وہ بلاجھجک کاروائی کرتے ہیں۔شاہ صاحب کے مطابق اس دہشت گرد نے پکڑے جانے کے بعد اعتراف کیا ہے کہ وہ نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کرنے والے نطفئہ حرام سے متاثر ہوا اور اوسلو میں اس دہشت گردی کا منصوبہ بنایا۔

یہ بات بہت ہی قابل افسوس ہے کہ یورب کے جذباتی نوجوانوں کے دلوں میں بہت خطرناک حد تک فارنرز کے لیے نفرت پیدا ہوچکی ہے۔وہ باہر سے آنے والوں کو اپنا بد ترین دشمن سمجھتے ہیں۔یورپ کی ایک قابل ذکر آبادی اسلامو فوبیا کا شکار ہے۔یورپ کے معاشروں میں اسلام سب سے زیادی تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اور پاکستانی کمیونٹی ان میں بہت اہم عہدوں پر فائز ہے اس لیے یہ لوگ پاکستانی مسلمانوں سے خاص طور پر نفرت کرنے لگے ہیں۔ان معاشروں میں پہلے ہی نسلی امتیار کی بنیاد پر نفرت بہت زیادہ ہے سفید فام سیاہ فام سے بہت نفرت کرتے ہیں انہیں انسان نہیں سمجھتے۔اسلام کا اثر رسوخ بڑھنے سے یہ عداوتیں اور گہری ہوگئی ہیں۔لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ مسلمان ان خطرات کا مقابلہ بھی کررہے ہیں اور مسلسل آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔

خدائے بزرگ وبرتر سے دعاء ہے کہ اللہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی خیر فرمائے اور بطور خاص وہ پاکستانی جودوسرے ممالک میں زندگی گزار رہے ہیں اللہ انکے جان ومال،اولاد اور عزت کی حفاظت فرمائے۔
طالب دعاء
گلزار احمد نعیمی
ناروے: دہشت گرد کو روکنے والے پاکستانی ہیرو محمد رفیق کا آنکھوں دیکھا احوال
203740_3767027_updates.jpg

— پاکستانی ہیرو محمد رفیق (بائیں)

ناروے میں پاکستان کے سفیر ظہیر پرویز خان کا کہنا ہے کہ ناروے میں مقیم پاکستانی ہیرو محمد رفیق نےسب پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کردیئے ہیں، جن کی بدولت متعدد لوگ دہشت گردی سے محفوظ رہے۔

ظہیر پرویز خان نے یہ بات گزشتہ روز اوسلو میں پاکستانی سفارتخانے میں محمد رفیق اور اُن کے بیٹے ڈاکٹر محمد حامد رفیق سے ملاقات کے دوران کہی۔

واضح رہے کہ محمد رفیق جو پاکستان ائیرفورس کے سابق چیف وارنٹ آفیسر ہیں اور ان دنوں اپنے بیٹے کے ساتھ ناروے میں قیام پذیر ہیں، نے گزشتہ دنوں عید سے ایک روز پہلے اوسلو کے مضافاتی علاقے ’’بیہرم‘‘ کی النور مسجد پر حملہ آور ہونے والے اکیس سالہ مسلح دہشت گرد ’’فلپس منشوس‘‘ کو اس وقت تک قابو میں رکھا جب تک پولیس وہاں پہنچ نہیں گئی۔

اس واقعے کے بعد محمد رفیق ناروے میں ایک ہیرو سمجھے جارہے ہیں اور ہر روز اس واقعے کے حوالے سے ان کا بیان اور تصاویر نارویجن اخبارات پر شائع ہورہی ہیں۔ ناروے کے ٹی وی چینلز نے بھی ان کے بارے میں خبروں کو خصوصی اہمیت دی ہے۔

سفیر پاکستان نے کہا کہ یہ واقعہ کسی معجزے سے کم نہیں کہ پوری طرح تربیت یافتہ نوجوان مسلح دہشت گرد کو ایک عمر رسیدہ 65 سالہ پاکستانی قابو کرلیتا ہے۔ محمد رفیق فوری کارروائی کرکے پہلے دہشت گرد کی طرف سے فائر کی ہوئی گولیوں کا نشانہ زائل کردیتے ہیں اور پھر اپنی پوری طاقت سے اس کو دبوچ کر زمین پر گرا لیتے ہیں اور تقریباً آدھے گھنٹے اسے قابو میں رکھتے ہیں اور پھر اسے پولیس کے حوالے کردیتےہیں۔

سفیر ظہیر پرویز خان نے کہاکہ محترم محمد رفیق کے اس کارنامے سے دنیا کو یہ پیغام جاتاہے کہ پاکستانی دنیا کی پرامن قوم ہے اور دہشت گردی سے نفرت کرتی ہے۔

واقعہ محمد رفیق کی زبانی
سفیر پاکستان سے ملاقات کے دوران محمد رفیق نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ یہ کارنامہ میں نے اللہ تعالیٰ کی غیبی امداد اور اس کے حبیب (ص) کے صدقے سے انجام دیا ہے۔ انہوں نے واقعے کی تفصیل کچھ یوں بیان کی کہ یہ 10 اگست ہفتے کے دن ظہر کی نماز سے بعد کا وقت تھا۔ وہ اس دن روزہ رکھے ہوئے تھے اور مسجد میں قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے۔ بہت سے لوگ نماز پڑھ کر جارہے تھے۔ ابھی کچھ افراد مسجد میں موجود تھے۔ اچانک بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے دہشت گرد دو گنوں، ایک پستول و دیگر اسلحہ سمیت ایمرجنسی گیٹ کا شیشہ توڑ کر مسجد میں داخل ہوا۔ وہ جونہی فائر کھولتا ہے تو میں فوراً اپنی نشست چھوڑ کر اس پر جھپٹ پڑتا ہوں، اس کا نشانہ خطا ہوجاتا ہے۔ وہ دوبارہ فائر کرتا ہے، پھر میں اس کا نشانہ زائل کردیتا ہوں اور سامنے کھڑے افراد بچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد میں اسے دبوچ کر زمین پر گرا لیتا ہوں۔

اس کی ایک بندوق اور ایک پستول بھی گر جاتا ہے اور دور کھڑے نمازی حاجی محمد اقبال سے کہتا ہوں کہ اس مسلح فرد کے کندھے پر لگی دوسرے گن بھی اتارلیں۔ محمد اقبال اس کے کندھے سے بندوق اتار کراسی بندوق سے اس کی گردن پر بٹ مارتے ہیں۔ دہشت گرد نیچے سے نکلنے کی بہت کوشش کرتا ہے لیکن میں اُسے اس وقت تک دبوچے رکھتا ہوں، جب تک پولیس موقع پر نہیں پہنچ جاتی۔ اس دوران دہشت گرد نے اپنی انگلیوں کے ناخنوں سے محمد رفیق کے چہرے اور ان کی ایک آنکھ کو زخمی کیا، اس سے ان کے چہرے اور آنکھ پر کچھ خراشیں آئیں۔

اس واقعے کے بعد ناروے میں مسلمانوں میں کافی خوف و ہراس پھیل گیا اور امن پسند نارویجن شہریوں نے عید کے روز اور بعد میں آنے والے جمعہ کو نماز کے دوران مساجد کے باہر علامتی پیرا دے کر مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

متعدد لوگ محمد رفیق کے گھر بھی گئے اور انہیں اس کارنامے پر مبارکباد دی۔ خاص طور پر ناروے کی پولیس کے اعلیٰ حکام نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پھول پیش کئے۔ اس واقعے کے بعد اس پاکستانی ہیرو کی حوصلہ افزائی کے لیے کئی دنوں تک لوگ ان کے گھر کے باہر پھول رکھ کر جاتے رہے۔

203740_8833835_updates.jpg



ناروے کے پاکستانیوں کی فعال تنظیم ’’پاکستان یونین ناروے‘‘ جو سماجی و ثقافتی خدمات کے حوالے سے کئی عشروں سے ایک اہم کردار ادا کررہی ہےکے چیئرمین چوہدری قمراقبال نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ محمد رفیق نے اپنی جان پر کھیل کر کئی لوگوں کی جانیں بچائی ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستانی پرامن اور بہادر لوگ ہیں۔

یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں کہ ایک عمررسیدہ شخص نے ایک دہشت گرد کو قابو کرکے اس کے ناپاک منصوبے کو خاک میں ملا دیا اور کئی لوگوں کی جانیں بچائیں۔ دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں اور کوئی بھی مذہب اور مہذب قوم دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتی۔ محمد رفیق کے بیٹے حامد رفیق جو کیمیکل انجیئرنگ میں پی ایچ ڈی ہیں نے بتایا کہ انہیں اور سارے پاکستانیوں کو ان کے بہادر والد پرفخر ہے۔ پروردگار کا شکر ہے کہ اس رب کریم نے میرے والد کو ہمت دی تاکہ وہ انسانی جانوں کو اس دہشت گرد سے بچاسکیں۔

اس نارویجن دہشت گرد کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ اسی علاقے بیہرم کا رہنے والا ہے اور مسجد پر حملے سے قبل اس نے اپنی 17 سالہ لے پالک بہن کو بھی قتل کیا جس کی نعش بعد میں اس کے گھر سے برآمد ہوئی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مقتولہ اسے مسجد پر حملہ کرنے سے روک رہی تھی۔ پاکستانی ہیرو محمد رفیق کے وکیل عبدالستار ایڈوکیٹ نے بتایا کہ پولیس اس پہلو کی تحقیقات کررہی ہے کہ اس نارویجن نوجوان میں نفرت کا عنصر کہاں سے آیا اور وہ دہشت گردی کی جانب کس طرح راغب ہوا۔

یہ خبر 19 اگست کے روزنامہ جنگ سے لی گئی ہے۔
 
Top