نئے سال کی پہلی صبح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےپاکستان کے بارے میں ٹویٹ کیا جس میں کہا گیا: ’’امریکہ نے پاکستان کو آخری پندرہ سالوں میں 33 ارب ڈالر کی امداد دی ہے جس کے بدلے پاکستان نے امریکہ کو دھوکے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پاکستان نے دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے اور ہمارے لیڈروں کو بیوقوف سمجھ رکھا ہے‘‘۔ڈونلڈ ٹرمپ کا سارا بیانیہ انتہائی آسان الفاظ پر مبنی ہے لیکن ایک لفظ ’’دہشت گردی‘‘ جو اسم فاعل کے صیغے کے ساتھ استعمال ہوا ہے انتہائی مبہم اور غیر واضح ہے۔دہشت گردی کیا ہے۔۔؟

آج کی دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ’’دہشت گردی‘‘ہے۔ انٹرنیٹ انسائیکلوپیڈیا بتاتا ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں آج یہ سب سے زیادہ لکھا اور پڑھا جانے والا لفظ ہے جو کرۂ ارض کی ہر زبان میں ترجمے کی صورت گردش کررہا ہے۔ اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن ہر جگہ آپ کو اس لفظ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ لفظ ہماری سماجی زندگی کی گفتگو میں ہر طرح سے دخیل ہے۔ دنیا بھر کے اسکولوں، کالجوں میں یہ ہر طالب علم کی زبان پر ہے۔ استاذوں، صحافیوں، دانشوروں کی گفتگو کا محور یہی لفظ ’’دہشت گردی‘‘ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں داخل ہوتے ہی آپ کا سامنا اس لفظ سے ہوتا ہے ۔آج یہ لفظ ’’دہشت گردی‘‘ بغیر کسی ٹھوس وضاحت اور تعریف کے عالمی طاقتوں کی اجارہ داری کی نذر ہو گیا ہے۔ کوئی بھی ملک، تنظیم، گروہ یا با اثر شخصیات اپنے ملک کو بین الاقوامی سطح پر ذلیل کر کے، اپنا ضمیر بیچ کر، اپنی عزت نیلام کر کے، اپنے ہی شہریوں کی نظر میں اپنے آپ کو رسوا کر کے اگر عالمی طاقتوں کے مفادات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے تو اُس ملک اور گروہ کے جنگجو ’’حریت پسند‘‘ کہلاتے ہیں اور اعلیٰ عہدیداروں کو نوبل پرائز اور امن ایوارڈز دئیے جاتے ہیں اور خراج تحسین پیش کی جاتی ہے لیکن اگرمردہ ضمیر بیدار ہو جاتی ہے ، اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے منصوبہ بندی اور دیگر اقوام عالم سے معاہدے کئے جاتے ہیں ، خیرات کا کچکول توڑ کر معیشت کو مستحکم کرنے کا ارادہ کیا جاتا ہے، ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے اقدامات کئے جاتے ہیں ، خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی جاتی ہے ، اپنے ملک کے انفرادی اور اجتماعی مفادات کو عالمی طاقتوں کی چاپلوسی پر ترجیح دی جاتی ہے تو وہی لوگ جو پہلے عالمی طاقتوں کی نظر میں ’’حریت پسند‘‘ کہلاتے تھے وہی ’’دہشت گرد‘‘، ’’جھوٹے‘‘ اور ’’دھوکے باز‘‘ کہلاتے ہیں۔پاکستان ہی مثال لے لیجئے ،برسوں سے لے کر آج تک تیل کے حصول کے لیے امریکی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر فرنٹ لائن اتحادی کا رول ادا کیا جس سے ہمارا اپنا ملک دہشت گردی کی زد میں آگیا، مزید نقصان یہ ہوا کہ عالمی میڈیا میں پاکستان کو ’’سٹیٹ آف ٹیرر‘‘ قرار دے دیا گیا۔ تیل کے ذریعے امریکی معیشت کو جِلا بخشنے کے لیے اپنے ہی ہاتھوں اپنی قوم کے نوجوانوں کو دہشت گردی کی آگ میں دھکیل دیا گیا لیکن جب ’’سٹیٹ آف ٹیرر‘‘ کو ’’State of Peach & Love‘‘ میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا گیا تو ہم ’’دھوکے باز‘‘ اور ’’جھوٹے‘‘ ٹھہرے۔ افغانستان کی مثال لے لیجئے ، روس کے ساتھ بر سر پیکار افغانستان طالبان کو مالی تعاون کے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرف سے سٹنگر میزائیل اور جدید قسم کا اسلحہ فراہم کیا جاتا رہا جس کی مدد سے تقریباً دس سال تک بے سر و پا طالبان روس کے ساتھ زور آزمائی کرتے رہے بالآخر روس انتہائی بری طرح شکست کھا کر اپنا بوریا بستر سمیٹ کر چلے گئے ۔ روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد’’ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘‘ کا افسانہ گھڑ لیا گیا اور وہی طالبان جو کبھی ’’حریت پسند‘‘ کہلاتے تھے ، اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے الزام میں امریکی بربریت، درندگی اور سفاکی کا نشانہ بنے اور ’’دہشت گرد‘‘ کہلائے۔ امریکہ کو اپنے علاوہ تمام مسلم دنیا بالخصوص پاکستان دہشت گرد دکھائی دیتا ہے اور کیو ں نہ دکھائی دے کہ امریکہ بار بار انسانیت سوز مظالم اور درندگی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہا ہے اور کسی بھی ملک کے لیے جو غلط راہ پر چل پڑے مسلمان ملک و ملت سے خائف ہونا ایک فطری امر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے دل میں مسلمانوں کے لیے ’’غلط کام کے کرنے پر‘‘ ایک خوف ڈال دیا ہے۔ اسی خوف سے خوفزدہ ہو کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ یا کسی بھی شخص کا ’’پاکستان‘‘ کو دہشت گرد کہنا اچھنبے کی بات نہیں ۔ اس کو آپ ایک مثال سے یوں سمجھ لیجئے کہ ایک چور کسی گھر میں ڈاکہ ڈالتا ہے ،پولیس کو اطلاع ہوتی ہے اور چور کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرنے کے لیے ’’چور‘‘ اور ’’پولیس‘‘ کا آمنا سامنا ہوتا ہے ،اس وقت ’’چور‘‘ کے لیے ’’پولیس‘‘ دہشت گرد ہوا کیونکہ ’’چور‘‘ کا ’’پولیس‘‘ کے لیے گرفتاری کی دہشت اور خوف ایک طبعی امر ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے دلوں میں پاکستان کے لیے انتہائی ’’دہشت‘‘ چھپی ہے اسی لیے تو مختلف مواقع پر اس خوف کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جب 1967 کی جنگ میں عربوں کی شکست پر یہودیوں نے فرانس میں جشن منایا اُس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ’’بن گوریان‘‘نے ایک تقریب میں واشگاف اعلان کیا ہے کہ ’’یہودی تحریک کے لیے پاکستان کو نظر انداز کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، ہمارے لیے پہلا ہدف پاکستان ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور یہی نظریہ ہماری منزل مقصود کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اسی لیے ہماری لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم جلد از جلد پاکستان کے خلاف ٹھوس اور پر زور اقدامات کا آغاز کریں۔

بہر حال یہ ہمیشہ پاکستان سے خوفزدہ رہیں گے لیکن عوامی سطح پر ’’دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح کو سمجھنے کے لیے نہ تو امریکہ کی کسی ڈکشنری میں اس کی ٹھوس تعریف اور وضاحت ملتی ہے اور نہ امریکہ کے کسی صدر، وزیر اعظم، سیاست دان یا قانون دان نے’’دہشت گردی‘‘ کی ٹھوس تعریف کرنے کی زحمت گوارا کی ہے کرے بھی کیوں کہ اسے اپنے حق میں استعمال جو کرنا ہے۔

یہ لفظ سب 1790ء میں پہلی مرتبہ انقلاب فرانس کے دوران استعمال ہوا جبکہ امریکہ کی ’’اکسفورڈ‘‘ ڈکشنری کے مطابق اس کی وضاحت کچھ یوں کی گئی: ’’the use of violent actions in order to achieve political aims or to force a government to act‘‘۔ اسی وضاحت اور تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ کو ’’عالمی دہشت گرد‘‘ کہنا یقیناً انصاف کا تقاضا ہے ۔میری بات سے میرے ملک کے بعض ’’دور اندیش ، روشن خیال اور ترقی پسند‘‘ حضرات یقیناً اختلاف کریں گے لیکن مندرجہ ذیل حضرات کی تائیدات سے ہی شاید کوئی ہمارے مؤقف پر اتفاق کر لے۔

امریکی جنگ آزادی کے دوران برطانوی حکومت کی طرف سے بینجمن فرینکلن [Benjamin Franklin] اور جورج واشنگٹن
[George Washington] کو ’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دیا گیا تھا۔20 ستمبر 2006 ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران ’’وینزویلا‘‘ کے صدر ’’ہوگو چیوز‘‘ [Hugo Chavez]نے ’’جورج بش‘‘ کو ’’شیطان‘‘ اور ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا تھا۔دسمبر 2005 ءکو’’The Irish Times‘‘کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ’’بولویا‘‘[Bolivia] کے صدر ’’ایوو مورالس‘‘ [Evo Morales] نے ’’جارج بش‘‘ کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا تھا۔جنوری 2006ء کو امریکہ کے مشہور موسیقار ’’ہیری بیلافونٹی‘‘ نے ’’جورج بش‘‘ کو دنیا کا سب سے بڑا ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا تھا۔اگست 2005 ءکو برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر ’’جورج گیلووے‘‘ نے ’’جورج بش‘‘ کو دنیا کا سب سے بڑا ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا تھا اور کہا کہ’’جورج بش‘‘ اور ٹونی بلیئر‘‘ کے ہاتھ اُن لوگوں کی بنسبت زیادہ خون آلود ہیں جو لندن دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ اگر کوئی شخص کسی بے گناہ انسان کو تکلیف پہنچائے بغیر ’’جورج بش‘‘ اور ٹونی بلیئر‘‘ پر خود کش حملہ کرے گا تو یہ عین انصاف ہو گا۔ 25 جولائی 2006 ءکو ’’نیدر لینڈ‘‘ کی نوبل انعام یافتہ ’’بیٹی ویلیمز‘‘ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’مجھے ’’جورج بش‘‘ کو قتل کرنے کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے‘‘۔

اپنی خونخواری، درندگی، سفاکی اور بربریت کو دنیا کی نظروں سے چھپانے اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی راہ میں اسلام اور مسلمانوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے اسلام کو ’’دہشت گردی‘‘ سے جوڑنے، ایک خطرناک اور خونخوار مذہب کے طور پر پیش کرنے کی لا تعداد ناکام کوششیں اور پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جس کے لیے ماہانہ کروڑوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں اور مسلمانوں میں ’’سلمان رشدی‘‘ جیسے لوگوں کو پیدا کرنے اور خریدنے کی کوششیں کی جاتی ہیں لیکن اسلام کے مطالعے سے لوگ یہ بات سمجھ جاتے ہیں کہ اسلام عالمگیر امن کا داعی ہے اور پر امن معاشرے کے لیے مختلف مذاہب کے ہوتے ہوئے بھی باہمی محبتوں کا وجود ضروری ہے اسی محبت کے جذبے کو فروغ دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف مقامات سے مٹی کو جمع کر کے تخلیق فرمایا، اس حقیقت کو جاننے کے بعد پروپیگنڈا سے متاثر افراد فطرتی طور پر اسلام قبول کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں۔یورپ میں اسلام کی تیزی سے پھیلاؤ کو روکنے اور اس کے آگے بند باندھنے کے لیے متبادل راستے کے طور پر ’’ہر مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہے‘‘ کے نعرے کو عالمی میڈیا میں فروغ دیا جا رہا ہے جس نے اسلام کی طرف رغبت رکھنے والے غیر مسلموں اور ہمارے بعض دانشوران اور ترقی یافتہ طبقے کو بھی کسی حد تک متاثر کیا ہوا ہے جسے حقیقت اور تاریخ کے آئینے میں جانچنے کی ضرورت ہے تاکہ غیر مسلموں کو اسلام پر مطمئن کرنے کا سامان ہو سکے اور ہماری مزید استقامت کا سبب بنے۔

انیسویں اور بیسویں صدی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ 13 مارچ 1881 ء کو ایک دھماکے میں روس کے بادشاہ ’’الیگزینڈر دوم‘‘ کو قتل کیا گیا جبکہ اُس سمیت دیگر 21 افرادبھی ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ ایک غیر مسلم شخص کے ہاتھوں پیش آیا۔4 مئی 1886 ءکو ’’شکاگو‘‘ میں ’’لیبر ریلی‘‘ کے دوران ایک دھماکہ ہوا جس میں 12افراد ہلاک اور7 زخمی ہوئے جس کی ذمہ داری ’’ انارکسٹ‘‘ نے قبول کی جو کہ غیر مسلم تھے۔6 ستمبر1902 ءکو کو امریکہ کے صدر ’’ویلیم میکنلے[William McKinley]‘‘ ایک غیر مسلم شخص کے ہاتھوں قتل ہوا۔یکم اکتوبر 1920 ءکو مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے دو افراد ’’جیمز‘‘ اور ’’جوسف‘‘ نے ٹائمز اخبار کی عمارت کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں 21افراد ہلاک ہوئے۔28 جون 1914 ءکو آسٹریلیا کے ’’آرکوڈوک[Archduke Franz]‘‘ اور اس کی بیوی ’’بوسنائی سرب‘‘ کے ہاتھوں قتل کئے گئے جو جنگ عظیم اول کا پیش خیمہ بنی۔16 اپریل1925 ء کو بلغاریہ کی کمیونسٹ پارٹی جو مسلمان نہیں تھے نے بلغاریہ کے [ST Nadella] چرچ میں دھماکہ کیا جس میں 150 افراد ہلاک ہوئے اور 500 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس کو بلغاریہ کی سب سے بڑی دہشت گردی کاروائی شمار کی جاتی ہے۔9 اکتوبر1934ء کو’’یوگوسلاویہ‘‘ کے ’’ کنگ الیگزینڈر اول [Alexander I of Yugoslavia] کا ایک سیکورٹی گارڈ کے ہاتھوں قتل ہوا جو مسلمان نہیں تھا۔ یکم مئی 1961ء کو [Ramirez Ortiz]انے امریکی جہاز کو ہائی جیک کیا جو ایک غیر مسلم تھا۔28 اگست1968ء کو ’’گوئیٹے مالا‘‘ کے امریکی سفیر’’جون گارڈن[John Gordon Mein]‘‘ ایک غیر مسلم کے ہاتھوں قتل ہوا ۔3 ستمبر1969ء کو ’’برازیل‘‘ میں امریکی سفیر کو ایک غیر مسلم شخص نے اغواء کیا۔30 جولائی 1969ء کو ’’جاپان‘‘ میں امریکی سفیر پر چاقو سے وار کیا گیا، جو یقیناً ایک غیر مسلم تھا۔
19 اپریل1995ء کومسیحی برادری کے دو افراد ’’ٹی موتھی‘‘ اور ’’ٹیری‘‘ نے ’’اوکلوہاما‘‘ شہر کے ’’فیڈرل بلڈنگ‘‘ میں دھماکہ کیا جس میں 166 جانیں ضائع ہوئیں اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔1941 سے 1948ء تک مختلف یہودی تنظیموں کی دہشت گردی کے تقریباً 260 واقعات نوٹ کئے گئے۔22 جولائی 1946ء کو [ [Right-wing Zionistکے لیڈر [Menachem Begin] نے یروشلم میں واقع برطانوی ایڈ منسٹریشن ہیڈ کوارٹر ’’کنگ داؤد ہوٹل‘‘ [King David Hotel] میں دھماکے کروائے جس میں 91 ہلاک اور 40 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جسے برطانیہ نے ’’عظیم دہشت گرد‘‘ قرار دیا جبکہ 1978 میں ’’عظیم دہشت گرد‘‘ کو نوبل پرائز سے نوازا گیا۔

9 مئی 1978ء کو ایک غیر مسلم کے ہاتھوں اٹلی کے’’ایلڈو مورو ‘‘کا قتل ہوا۔ 20 مارچ 1995ء کو [cult movement Aum Shinrikyo] نامی تنظیم کے رکن اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے’’ٹوکیو ‘‘کی شاہراہ میں زہریلی گیس چھوڑی جس سے 12 افراد جان بحق جبکہ ہزاروں متاثر ہوئے۔ امریکہ میں گزشتہ سو سال کے دوران [Irish Republican Army]کے ہاتھوں کئی دہشت گردی کے واقعات دیکھے گئے۔ 1972ء میں تین دھماکے کئے جس میں بیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 1974 ءمیں دو دھماکے کئے جس میں 25 سے زائد ہلاک اور 200 سے زائدافراد زخمی ہوئے۔1996ء کو لندن میں دھماکہ کیا جس میں 2 ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔1996 ءمیں ’’مانچسٹر‘‘ کے شاپنگ مال میں ایک زبردست دھماکہ کیا جس سے نامعلوم افراد قتل اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ اگست 1998ء کو’’بین بریج [Ban Bridge]‘‘کے دھماکے میں 30سے زائد زخمی ہوئے۔ سپین اور فرانس میں ’’ای ٹی اے‘‘ [Euskadi Ta Askatasuna] 36 دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پایا گیا۔

5 جون1984 کو انڈیا میں گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا گیا جس میں100 افراد ہلاک ہوئے ۔ 31 اکتوبر 1984ء کو بھارتی وزیر اعظم’’اندرا گاندھی ‘‘ کو سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی گارڈ نے قتل کیا۔

اسی طرح بیسویں صدی میں 2 اکتوبر 2004ء کو عیسائی دہشت گردوں نے 44 ہندوؤں کو قتل کیا۔1990ء سے لے کر2006 ءتک شمالی مشرقی انڈیا کی ایک تنظیم ’’United Liberation Front of Assam ‘‘ کو 749 دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پایا گیا۔ بھارت کے چھ سو علاقوں میں سے ایک سو پچاس علاقوں پر یعنی ایک تہائی بھارت پر محیط نیپال کی[Maoists] تنظیم نے7 سالوں میں99 دہشت گردی کے واقعات سرانجام دئیے۔4 جنوری 2017ء بروز جمعہ کو لندن کی پارسنز گرین سٹیشن پر صبح 8:20 پرزور دھماکہ ہوا جس میں 30 افراد زخمی ہوئے۔اس کے علاوہ بھی بیسیوں واقعات ایسے ہیں جن میں آپ کو کسی مسلمان کا نام تک دکھائی نہیں دے گا اور اگر کہیں پر دعوی کیا گیا ہے تو وہ بے جا اور بلا ثبوت ہے اور اگر دعوی ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر بھی ہے تب بھی اسلام کسی بے گناہ کو قتل کی اجازت نہیں دیتا بلکہ مذمت کرتا ہے۔

’’یوگنڈا‘‘ میں [Lord’s Salvation Army] کے نام سے عیسائیوں کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے ۔ سری لنکا میں ’’تامل ٹائیگرز‘‘ کی دہشت گرد تنظیم جو خود کش حملوں کے لیے مشہور ہے پائی جاتی ہے۔ یہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔پنجاب میں ’’بجرنگ ولی‘‘ کے نام سے سکھوں کی دہشت گرد تنظیم پائی جاتی ہے۔ لیکن ان میں سے کسی کو بھی ’’ہندو دہشت گرد‘‘،’’سکھ دہشت گرد‘‘، ’’عیسائی دہشت گرد‘‘ کہہ کر پکارنے اور سننے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا بلکہ ان کی دہشت گردی کو ان کی تنظیموں کے ساتھ ہی منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن کسی جگہ ایک ادنیٰ اور نا سمجھ سے مسلمان کی چھوٹی سی غلطی کو بھی اسلام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔فافہم و تدبر

عراق، لیبیا، مصر، افغانستان، فلسطین اور لبنان میں لاکھوں لوگ قتل کئے گئے۔ ان تمام واقعات میں بمشکل ہی کوئی مسلمان شریک رہا ہو گا لیکن اگر کہیں بد قسمتی سے مسلمان دہشت گردی کے واقعات میں پکڑا ملوث پایا جاتا ہے تو کسی ایک یا کئی ہزار مسلمانوں کی وجہ سے کسی مذہب کی تعلیمات سے انکار کرنا انتہائی درجے کی بیوقوفی ہے۔ اس کی مثال آپ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک شخص جسے گاڑی چلانی نہیں آتی اور وہ شخص ’’ٹویوٹا[Toyota] ‘‘کمپنی کی اعلیٰ ترین گاڑی میں بیٹھ کر کسی کنبے سے جا ٹکراتا ہے اور بعد میں کہتا ہے کہ کمپنی نے ٹھیک گاڑی نہیں بنائی تو کوئی احمق ہی ہو گا جو اس کی اس بات پر قہقہہ نہ لگائے کیونکہ کنبے سے جا ٹکرانا گاڑی کی نہیں بلکہ چلانے والی کی نا سمجھی اور کم علمی ہے اسی طرح اگر کوئی مسلمان دہشت گردی اور انتہا پسندی کے واقعات میں ملوث پایا جائے تو یہ اسلام کی تعلیمات میں کمی نہیں بلکہ اُس مسلمان کی اسلام کو نہ سمجھنے کی وجہ ہے۔لیکن اگر پھر بھی مذہب کے تناظر میں درندگی، سفاکی ، بربریت اور انسانوں پر ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کا جائزہ لیا جائے تب بھی دیگر نا انصافیوں اور انسانیت کا خون بہانے کے حوالے سے مسلمانوں کی تقصیرات ہیچ نظر آنے لگیں گی۔

جرمنی کے ’’ایڈولف ہٹلر[Adolf Hitler]‘‘ نے ساٹھ لاکھ لوگوں کا قتل عام کیا جو ایک عیسائی تھا۔دوسری عالمی جنگ جو جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، انڈیا، سوویت یونین، چائنا اور امریکہ کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ میں تمام ملکوں کی ہلاکتوں کی تعداد کم از کم پانچ کروڑ اور زیادہ سے زیادہ آٹھ کروڑ بتائی جاتی ہے۔ان میں سے کوئی بھی مسلمان ملک شامل نہیں۔سوویت یونین کے ’’جوسف سٹیلن [Joseph Stalin]‘‘ نے دو کروڑ لوگوں کا خون بہایا جن میں ایک کروڑ چالیس لاکھ افرادکو بھوک سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ چائنا کے ’’ماؤ سی سنگ[Mao Tse Tsung]‘‘ نے ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتارا، جو ایک غیر مسلم تھا۔اس باب میں ’’مسولینی‘‘ نے بھی حصہ لیا اور ’’چار لاکھ‘‘ لوگوں کا قتل عام کیا۔ ’’میکسی میلین[Maximillian Robespierre]‘‘ نے انقلاب فرانس کے دوران ’’چار لاکھ‘‘ لوگوں کو قتل کیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’اشوکا‘‘ نے ’’کلنگا‘‘ کی جنگ میں ’’ایک لاکھ‘‘ افراد کو قتل کیا تھا جو ایک ہندو تھا۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ عراق کے ’’صدام حسین‘‘ کے ذمہ بھی کئی ہزار یا کئی لاکھ لوگوں کا خون ہے اور ’’انڈونیشیا‘‘ کے ’’محمد سوہارتو‘‘ نے بھی تقریباً پانچ لاکھ ‘‘ لوگوں کے قتل کرنے کا اعزاز پنے نام کیا ہے لیکن یہ تعداد باقی تمام جنگوں اور دہشت گردی کے واقعات جو غیر مسلموں کے ذریعے انجام پائے کئی گنا کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان تاریخی حقائق سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ’’دہشت گردی ‘‘ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اسے کسی بھی مذہب کی تعلیمات سے جوڑنا انصاف نہیں ، ہاں! ایک بات ضرور ہے، اگر مستقبل قریب یا بعید میں دہشت گردی کے لیے کسی مذہب یا نام کے انتخاب پر غور کیا گیا تو دہشت گردی کے مذہب کا نیا نام ’’امریکہ‘‘ ہونا چاہیے اور دہشت گردوں کے کمانڈروں کے نام ’’جورش واشنگٹن، جورج بش، ٹونی بلیئر اور ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ ہونے چاہیے کیونکہ ان کی اپنی ’’اکسفورڈ‘‘ ڈکشنری کی تعریف کے مطابق یہ حضرات ’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دئیے جا چکے ہیں۔ اس تناظر میں سب سے بڑے ’’جھوٹے‘‘ اور ’’مکار‘‘ کہلانے کے لائق یہی حضرات ہیں جو انسانیت ، مذہبی رواداری کا ڈھونگ رچا کر مساوات کا علم ہاتھ میں لیے ساری دنیا کو ویران کرنے چلے پڑے ہیں۔
 
اس مضمون میں اگر آپ بیسویں صدی کے کچھ واقعات بھی درج کر لیتے تو شاید بہتر سے بہترین ہوتا۔ بہر حال مضمون کافی دلچسپ اور معلومات فراہم کرنے والا ہے۔
 
انشاء اللہ ’’عالمی دہشت گردی‘‘ کے نام سے ایک طویل مضمون لکھنے کا ارادہ ہے شاید کتابی شکل میں بھی اُسے شائع کیا جائے گا۔ قیمتی تجویز کے لیے شکریہ
 
Top