دہشت گردی کے انتہائی وسائل حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار --از : محمد علم اللہ اصلاحی

دہشت گردی کے انتہائی وسائل
حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار

نوٹ :گذشتہ دنوں شام میں کیمیائی ہتھیار کے ذریعہ سیکڑوں افراد کے قتل کے بعدعوامی و بین الاقوامی طور پر چھڑی بحث اور ایک دوسرے پر بیان بازی کی خبر پڑھ کر مجھے تجسس ہوا کہ آخر یہ حیاتیاتی کیمیائی مادہ کیا ہوتاہے؟اور اس ہلاکت آفرینی میں اس قدر شدت کیوں اور کیسے ہوتی ہے ۔

ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں جب میں نے دستیاب ذرائع استعمال کئے تو حیرت ناک انکشافات میرے سامنے آئے ۔
انکشاف ہوا کہ یہ کیوں اس قدر تباہ کن ہے؟ اس کے اثرات اتنے مہلک کیوں ہیں۔؟ اس پر کیوں پابندیاں عائدہیں ؟۔ اور تمام طرح کی احتیاط اور حدود و قیود کے باوجود کئی ممالک کس طرح اس کا استعمال اپنے ناجائز مقاصد کے حصولیابی کی خاطر کر رہے ہیں۔؟

اس سلسلہ میں میں نے دسیوں مضامین ،سوالوں کے جوابات ،تحقیق و ریسرچ کے علاوہ بے شمار دستاویزوں کا مطالعہ کیا اور اس سے جو کچھ نتیجہ اخذ کر سکا میں نے اس کو اپنے طور پر قلم بند کرنے کی کوشش کی۔جسے حذف و اضافہ اور نوک پلک سنوار کر بہتر سے بہتر بنانے میں نایاب بھائی نے مدد کی اور تھوڑی بہت جو کمی رہ گئی تھی اسے سید عاطف علی بھائی نے پورا کیا ۔میں دونوں بھائیوں کا بے حد شکر گذار ہوں ۔

اب اس مضمون کو کہیں بھیجنے سے قبل سب سے پہلے قارئین اردو محفل کی نذر کر رہا ہوں۔اس امید کے ساتھ کہ آپ واہ واہ کرنے یا داد و تحسین سے نوازنے کے بجائے اس پر سنجیدہ بحث و مباحثہ کریں گے۔

والسلام
علم
-------------------------
انسانی سماج کے لئے نہ تو جنگ کوئی نیا لفظ ہے اور نہ ہی دہشت گردی۔شاید انسانی سماج کے آغاز اور مختلف تہذیبوں کی ترقی اور تباہی کے تقریبا ہر صفحے پر اس کی مہر لگی ہوئی ہے۔یہاں تک کہ انسانیت، محبت، امن اور خدا پر ایمان و یقین رکھنے والے افراد اور ان کے ٹھیکیداروں نے بھی ،جن کا کوئی مذہب ہی نہیں ان کی بات ہی الگ ہے، نے اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے ،فکر و فلسفہ کی ترویج نیزاپنے ابلیسی نظام کی اشاعت کے لئے وقتاً فوقتاً اس کا سہارا لینے سے گریز نہیں کیاہے اور نہ کر رہے ہیں۔اس کی تازہ مثال شام میں ظالموں کے ذریعہ کیمیائی گیس سے ہزاروں لوگوں کا جابرانہ اور وحشیانہ قتل ہے۔

اس نام نہاد فتح و کامرانی کی خواہش نے انسانوں کو ہر دور میں جنگ کے نئے نئے وسائل کی تلاش میں لگائے رکھا ہے۔جسمانی جنگ، مہارت میں کارکردگی، تیر، تفنگ ، تلوار، برچھی ، گولی ، بندوق،توپ ، بارود، بم وغیرہ کی حدیں پار کرتے ہوئے آج انسان کیمیائی ہتھیاروں اور میزائل کے ذخیرے پر کھڑا نہ صرف خود اپنی ہلاکت کا سامان کر رہا ہے بلکہ نسل انسانی کی تباہی کی جانب ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے اب تباہ کن حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش میں لگا ہوا ہے ۔ایسے حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار جن کی مدد سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو پل بھر میں موت کی نیند سلایا جا سکتا ہے یا پھر طرح طرح کی بیماریوں کی زد میں لا کر سسک سسک کرجینے مرنے کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے۔

جب تک لوگوں کو اس قسم کے حملے کی معلومات ہوگی تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی۔مجھے حیرت تو سب سے زیادہ اس بات کی ہے کہ جو قوم ان کی تلاش میں سب سے آگے آگے دوڑ رہی ہے وہی آج اس سے سب سے زیادہ ڈرے اور سہمے ہوئے ہے اور اس کے لئے اس قدر معصوموں کا خون کرنے میں مصروف ہے کہ کہیں دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں تو کہیں انسانیت کے تحفظ کا ریاکارانہ سہارا لے کرمعصوموں کا بے دریغ قتل کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہے۔انھیں خوف ہے کہ کوئی نام نہاد غیر ذمہ دار حکومت یا دہشت گرد گروہ ایسے ہتھیاروں کو نہ تیار کر لے یا کہیں سے انہیں قبضہ میں نہ لے لے۔

اس سلسلہ میں یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ خلیج کی جنگ کے وقت امریکہ جیسی سپر پاور کو عراق کے نام نہاد حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ڈر سب سے زیادہ ستا رہا تھا کیونکہ ان کی خفیہ نظام کی معلومات کے مطابق عراق نے ایسے ہتھیاروں کے سلسلے میں وسیع تحقیق کی تھی اور ان کو بڑی مقدار میں جمع کر رکھا تھا۔ تاہم اس جنگ میں ان کا خوف بے بنیاد ثابت ہوا۔اسی معاملہ کو لے کر ایران اور بعض دوسرے ممالک کو بھی دھمکیاں دی جاتی رہتی ہیں۔اور یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل مسلم ہے کہ 2009 میں مبینہ طور پر 11 ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرکی تباہی کے بعد حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کا خوف امریکہ کوزیادہ ستانے لگاہے۔ اس کو سب سے بڑا ڈر عراق جیسے ممالک سے تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ یہ ملک دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے اور ان کو ایسے ہتھیار بھی دے سکتا ہے یا پھر خود اس کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔اسی خوف کی وجہ سے عراق پر حملہ بھی کیا گیا اور ایسے ہتھیاروں کی تلاش وہاں آج بھی چل رہی ہے، جس میں فی الحال کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی ہے۔

ان تباہ کن تمام صورتحال کو دیکھ اور سن کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ہتھیارکیا ہیں ، یہ کس طرح کام کرتے ہیں؟ اور لوگ ان سے کیوں ڈرے ہوئے ہیں ؟۔یہ بھی سب ہی جانتے ہیں اس کے باوجود اس کا استعمال دھڑلے سے کیوں ہو رہا ہے ؟جب ہم اس کی گہرائی میں جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے۔اپنا مفاد ،اپنا فائدہ اور اپنے مقصد کی حصولیابی کے لئے یہ سب کیا جاتا ہے۔اس سلسلہ میں جب ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے، کیمیائی ہتھیار کے طور پر کلورین گیس کا غلط استعمال جرمنی نے پہلی عالمی جنگ عظیم میں مؤثر طور پر کیا تھا۔ اس میں جرمنی کا کیا مقصد پوشیدہ تھا یہ بھی سب پر عیاں ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ یہ گیس آسانی سے کسی بھی فیکٹری میں عام نمک کی مدد سے بنائی جا سکتی ہے اور اس کے ضمنی اثرات براہ راست پھیپھڑوں پر پڑتے ہیں۔ یہ گیس پھیپھڑوں کے ٹشوز کو جلا کر تباہ کردیتی ہے۔ جرمنی نے اس گیس کی کئی ٹن مقدار ماحول میں چھوڑ کر ایک قسم کا مصنوعی بادل بنانے میں کامیابی حاصل کی اور ہوا کے بہاوکے ساتھ اسے وہ دشمن کی طرف بھیجنے میں کامیاب ہوئے۔ اس گیس کی خوفناک طاقت کو ذہن میں رکھ کر 1925 میں اس جیسے کسی بھی زہریلے کیمیکل اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم کے ہتھیار کے طور پر غلط استعمال کو محدود کرنے کے لئے ایک معاہدے پر دنیا کے زیادہ تر ممالک نے دستخط کئے۔ پھر بھی اس سلسلے میں چوری چھپے تحقیقی کام جاری رہا تاکہ ان کا استعمال اور بھی موثر اور منظّم طور پر کیا جا سکے۔ اس بابت تمام قانون و قائدہ کی دھجیاں اڑانے والے دوسری عالمی جنگ کے وقت جرمنی میں ہٹلر کے بدنام زمانہ گیس چیمبرس سے بھلا کون ناواقف ہوگا؟

آج کل سائنسدان کیڑے مارنے والے ادویات میں پائے جانے والے بہت سے زہریلے کیمیکلز کو بھی موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لئے تجربات کر رہے ہیں ۔ ان کیمیکلز کے ضمنی اثرات کی شدت کا اندازہ ہم ہندوستان میں بھوپال گیس حادثہ سے لگا سکتے ہیں،جہاں ادویات بنانے والی کاربائیڈ فیکٹری میں حادثہ کی صورت میں 2 دسمبر 1984 کے دن ٹاکسک اور بیماریاں پھیلانے والے بیکٹیریا کی شدت سے لگا سکتے ہیں۔ کچھ ہی لمحوں میں ہزاروں کی جانیں سوتے سوتے ہی چلی گئیں اور لاکھوں افراد آج بھی اس کے ضمنی اثرات کو جھیل رہے ہیں۔اسی طرح چھوٹے پیمانے پر 1995 میں ’’مسنر و ‘‘نامی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں نے ٹوکیو شہر کے ایکاس میں اعصابی نظام کو متاثر کرنے والی گیس کا رساؤکر کے ہزاروں لوگوں کو پل بھر میں زخمی کر دیا اور بارہ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدام حسین کے سپہ سالاروں نے عراق میں کردوں کی بغاوت کو دبانے کے لئے شاید ایسے ہی کسی کیمیائی ہتھیار کا استعمال کر کے ہزاروں بے گناہوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا تھا۔

فی زمانہ ہتھیاروں کے معاملے میں تکنیکی ترقی نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں، جہاں انسانیت کے خلاف عمل کرنے والے لوگوں کو تازہ ترین ہتھیار قبضہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ بربادی اور دہشت پھیلا سکتے ہیں اور پھیلا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تک وسیع قتل عام والے ہتھیاروں کی پیداوارکے ذخیرہ اور استعمال پر پابندی نہیں ہے۔ اگرچہ بعض ممالک نے ان ہتھیاروں پر کنٹرول کے لئے اور ایٹمی ہتھیاروں کے قوانین کے لئے قرارداد بھی منظور کی ہوئی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کئی طرح کی کانفرنسیں کی گئیں وہ بھی سب پر واضح ہے۔ خبریں بتاتی ہیں کہ پوری دنیا میں تقریبا 36000 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ان میں روس کے پاس سب سے زیادہ 22،500 ہتھیار ہیں جبکہ امریکہ کے پاس 12070، فرانس کے پاس 500، چین کے پاس 450، برطانیہ کے پاس 380، ہندوستان کے پاس 65 اور پاکستان کے پاس 25 جوہری ہتھیار ہیں۔ ان سب کے علاوہ دنیا کے 80 ممالک نے وسیع قتل عام والے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بنا لئے ہیں۔ امریکہ نے 1200 سے زیادہ جوہری ٹیسٹ کیے ہیں تو روس نے تقریبا 1000، برطانیہ نے تقریبا 45، فرانس نے 210، چین نے 50 اور ہندوستان نے تقریبا 10 جوہری تجربے کیے ہیں۔ پاکستان نے بھی تقریبا 10 کے آس پاس جوہری ٹیسٹ کیے ہیں، ایران، عراق، شمالی کوریا جنوبی کوریا اور لیبیا نے بھی رپورٹ کے مطابق ایٹمی ہتھیار پروگرام چلا رکھے ہیں۔ یہی بات اسرائیل کے تناظر میں بھی کہی جا رہی ہے بلکہ اس نے تو تمام حدود کو پار کر دیا ہے۔

لیکن انسانیت کے لئے اس کی زہر ناکی اور خطرناکی کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔حالانکہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ حیاتیاتی کیمیائی عناصر جاندار کو جیسے ہی مس کرتی یا اس کے جسم میں داخل ہوتی ہے اپنا عمل شروع کر دیتی ہے اور اس کا انجام آخر کار زندگی سے خاتمہ ہی ہوتا ہے۔یہ کس طرح عمل کرتی ہے اس بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ اولین صورت میں یہ عضلات کے معلومات کے نظام کی خلیات کے لئے "ایسی ٹل کولین " نامی کیمیکل کا اخراج کرتی ہیں۔ اور چونکہ پٹھوں کا بھی نظام کی ترسیل پر ہی انحصارہوتا ہے۔اس لئے اگر اعصاب نظام کے خلیات سے ایسی ٹل کولین کو نہ ہٹایا جائے تو ہمارے جسم کااعصابی نظام پورے طور سے مسلسل تنگ ہونے لگتا ہے۔ اور اگر ایساسینہ اور پیٹ کو الگ کرنے والے ڈائی فرام کے پٹھوں کے ساتھ ہوا توانسان گھٹ کر مر جائے گا۔ایسی ٹل کولین کو اعصابی نظام کے خلیات سے دور کرنے کے لئے کولینسٹریز نامی اینزائم کی ضرورت پڑتی ہے ۔جبکہ سیرین اور وی ایکس ' جیسی زہریلی گیسیں مندرجہ بالا اینزائم سے رد عمل کر کے ایسی ٹل کولین کو ہٹانے کے کام میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں، نتیجہ میں مبتلا شخص کی موت کچھ ہی لمحات میں دم گھٹنے سے ہو جاتی ہے۔ ہمارے پھیپھڑوں میں مندرجہ بالا گیسوں کی ایک ملی گرام کی مقدار ہی زندگی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔مسٹرڈ اور لیوسائٹ جیسی گیسوں کے ضمنی اثرات جلد پر چھالے اور پھیپھڑوں کے ٹشو کی تباہی کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔مسٹرڈ گیس کا استعمال تو پہلی عالمی جنگ کے وقت سے ہی ہے۔ اس کی دس ملی گرام کی مقدار ہی موت کے لئے کافی ہے۔ ویسے تو بہت سے زہریلے کیمیکل ہیں جن کا غلط استعمال کیمیائی ہتھیاروں کے طور پر ہو سکتا ہے، لیکن مندرجہ بالا کیمیکل سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ زیادہ تر بیماریوں کی جڑ میں جراثیم ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بایوٹکس اور اسی طرح کی دیگر ادویات کی تلاش سے پہلے طاعون اورہیضہ جیسی بیماریوں نے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں لی ہیں اور آج بھی انسان ایڈز،کینسراور سارس جیسی بیماریوں سے نجات حاصل کا راستہ تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ دوسری طرف انسان انہیں بیکٹیریا کو ہتھیار کے طور استعمال کر کے ہزاروں لاکھوں جاندار کی جان لینے کی فکر میں الجھا ہوا ہے۔اس بات سے سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ یہ صورتحال نیوکلئیر اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے تباہ کن اور خطرناک ہے۔ جو ممالک دشمن کی دہائی کا رونا رو کر یا اپنی دادا گیری دکھا کراس کی افزونی میں لگی ہوئی ہیں اگر خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو وہ کیا کریں گے ؟کیونکہ سے حملے کے لئے کسی جدیداسلحہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انہیں تو بس چھوٹے موٹے جانوروں، پرندوں، ہوا، پانی، انسان وغیرہ کسی بھی ذریعہ سے پھیلایا جا سکتا ہے۔ سارس کو پھیلانے میں انسانی دماغ کس طرح ذرائع کا کام کر رہا ہے ۔ یہ اس عمل کا محض ایک مثال بھر ہے۔

سائنسداں کھاد پر بھی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں جبکہ یہ ثابت شدہ ہے کہ اگر ہم انسانی یا حیوانی فضلہ سے بنی کھاد کو کنویں، تالاب، پانی کی ٹنکی میں ملا دیں تو اس پانی کو انجانے میں پینے والے طرح طرح کی خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے کیوں کہ کھاد میں طرح طرح کے خطرناک اور جان لیوا جراثیم پلتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ان کا استعمال کسی دشمن ملک نے کب کیا، یہی معلوم کرنا مشکل ہوگا تو بھلا ہم ان سے لڑیں گے کس طرح۔ اور اگر کسی طرح ان کے بارے میں پتہ بھی کر لیں تو بھی کوئی فائدہ فائدہ ہو گا اس کی ضمانت کون دے گا ،یہ کبھی نہ ختم ہونے والا حادثہ ہوگا اس لئے کہ یہ کوئی بیماری پھیلانے والے عام بیکٹیریا تو ہیں نہیں، بلکہ جینیاتی طور پرتباہ کرنے والے ہیں، جن کے خلاف عام اینٹی بائٹک بھی کام نہیں کر پائیں گے۔ کیونکہ یہ جوہری پورے ماحول کو ہی خراب کرنے والے ہوں گے اور اس کی وجہ سے جو ہوا ہم سانس لیتے ہیں، جو کھانا ہم کھاتے ہیں اور جو پانی ہم پیتے ہیں سب آلودہ ہو چکا ہوگا۔جب تک ہم ان کے خلاف کارگر دوا کی تلاش کریں گے تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی اور شاید پورے انسانیت ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہوگی۔

حالانکہ یہ حیاتیاتی ہتھیار کے استعمال کا سب سے سستا لیکن بھونڈا طریقہ ہے۔ اب ذرا کچھ ایسے مثالوں پر توجہ دیتے ہیں جو اصل میں خطرناک ہیں اور لوگ جن سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں۔اینتھریکس(Anthrax) پھیلانے والا بیسلس اینتھریسس (Bacillus anthracis) نامی بیکٹیریا کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بکٹریا متعدی نہیں ہے اور بنیادی طور پر جانوروں میں پھیلتا ہے، پھر بھی کھانے پینے سے سانس کے ساتھ اس کے جراثیم ہمارے جسم کے مسامات میں پہنچ کرجان لیواثابت ہو سکتے ہیں۔یہاں تک کہ ہماری جلد میں بھی اگر کوئی زخم ہے تو وہاں بھی یہ اثر انداز ہو سکتے ہیں اور کچھ ہی وقت میں اس بیماری کی جان لیوا علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔سانس کے ساتھ ہمارے جسم میں آئے’’ سپورس ‘‘(Spores)سات سے دس دن کے اندداخل ہو کر بیماری کی علامات ظاہر لگتے ہیں۔ بخار، کھانسی، سردرد، قے، جاڑا، کمزوری، پیٹ اور سینے میں درد، سانس لینے میں دقت وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں، جو کچھ گھنٹے سے لے کر کچھ دن تک رہتے ہیں۔ پھر یہ علامات کچھ وقت کے لئے غائب بھی ہو سکتے ہیں۔ دوسری بار ان علامات سے سانس کی تکلیف، پسینے کے ساتھ بخار کے علاوہ جلد پر نیلے دھبوں کے ساتھ نتیجہ بالآخر موت کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔

کھانے پینے کے ساتھ اینتھریکس کے اسپورس ہماری غذائی نالی میں پہنچ کرمتلی ، خونی قے، خونی اسہال، پیٹ درد وغیرہ کی علامات پیدا کرتے ہیں۔ 25 سے 60 فیصد لوگوں کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ جلد پر اس کا اثر چھوٹے چھوٹے دانوں کے طور پر نظر آتا ہے جو جلد ہی پھوڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس سے پانی کی طرح پیپ بہتی رہتی ہے۔ ابتدائی علامات کے وقت اس کی تشخیص " سپرو فلاکسیسین (Ciprofloxacin) نامی " اینٹی بایو ٹک " کے ذریعے سے کیا جا سکتا ہے لیکن بعد میں صرف اس " ببیکٹیریا " کو تباہ کیا جا سکتا ہے، اس بیماری کو نہیں۔

اکیسویں صدی کے اوائل سے اس بیکٹریا کے ا سپورس کو پاوڈر کی شکل میں پوسٹ کے ذریعہ سے پھیلانے کی کوشش بھی دیکھنے میں آئی تھی ۔ جس سے امریکہ کے لوگ کافی دہشت زدہ ہو گئے تھے۔ اسمال پاکس جسے ہم چیچک کے نام سے بھی جانتے ہیں، صدیوں سے ایک جان لیوا بیماری کے طور میں بدنام رہی ہے۔ اس کی زد میں آکر لاکھوں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے اور اس سے بھی کئی گنا زیادہ لوگ اپنی آنکھیں گنوا چکے۔ کتنے تو چہرے اور جسم پر مستقل طور پر خوفناک داغ کے ساتھ بدصورتی کی زندگی گزارنے کے پابند ہوئے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ویری ولا نامی وائرس سے پھیلنے والی اس بیماری سے ویویکسی نیشن کی مدد سے پوری دنیا کو نجات مل گئی۔ 1975 کے بعد اس بیماری کا کوئی مریض سامنے نہیں آیا ہے پھر بھی لوگوں کو خوف ہے کہ کہیں کوئی دہشت گرد گروہ یا کوئی سرپھرا فوجی ڈکٹیٹر اس وائرس کے کسی رد عمل کے طور پرجارحیت کا استعمال کبھی حیاتیاتی ہتھیار کی طرح نہ کر دے۔

اسی طرح’’ ہیموریجک ‘‘(Haemorrhagic)بخار پیدا کرنے والا آر اے نئے قسم کا ابولا وائرس بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وائرس میں مبتلا مریض کی شناخت سب سے پہلے 1975 میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں ہوئی تھی۔اس کے انفیکشن کے اثرات 2 سے 21 دنوں کے اندر نظر آتا ہے۔ بخار، سر درد، جوڑوں اور پٹھوں میں درد وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں. بعد میں دست، قے اور پیٹ درد کی علامات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ مریضوں میں جلد پر ددورے، لال آنکھیں اور بیرونی اور اندرونی کمزوری وغیرہ علامات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس بیماری سے کچھ مریض خود ٹھیک ہو جاتے ہیں تو کئی مر بھی جاتے ہیں۔بلکہ اس سے تو لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

’’باٹیولن بیکٹیریا ‘‘(Botyulin bacteria)کے ذریعہ سے پیدا زہر کے ایک گرام کا اربواں حصہ ہی ہمارے جسم میں’ لقوہ ‘ فالج پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔یہ زہر اعصابی خلیوں سے ان کیمیکلز کا اخراج روک دیتا ہے جن کی طرف سے پٹھوں کا داخلہ ہوتا ہے۔ جانوروں میں کھر پکا بیماری پھیلانے والا ببیکٹیریا بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی، ان وسائل کا استعمال دہشت گرد سرگرمیوں، ہتھیاروں کے لئے تحقیق اور تعمیر پر خرچ کیا جا رہا ہے،جب کہ ان کا استعمال دوسرے مثبت کاموں میں کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد حملے نہ صرف زندگی چھینتے ہیں، بلکہ صحت،کی امید اور لوگوں کی توقعات کا بھی قتل کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ مادی حقائق، رہن سہن اور رہائش، کھیتی، پل، ، ہسپتال اور باقی سہولیات کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔اس سے بنیادی ضروریا ت جیسے بجلی، پانی وغیرہ کی ترسیل میں بھی رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہیں۔ کھیتی کی زمین زہریلی ہو جاتی ہے، سڑکوں اور گلیوں میں بیریر لگا دیے جاتے ہیں اور لوگوں تک ان کی رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔اس طرح کے حملوں کا سیدھا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو کھانا بھی نصیب نہیں ہوگا۔ پانی پینے کے قابل نہیں ہو گا، عمارتیں بری حالت میں اور ٹوٹی پھوٹی ہوں گی۔صحت کی سہولیات کا ملنا دوبھر ہو جائے گا اور دشمنی ختم ہونے کے بعد بھی لوگوں کی زندگی قابل رحم ہوگی۔

کیونکہ اس سے ہزاروں بچے جنگ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی وجہ سے یتیم ہو جاتے ہیں۔ وہ غذائی قلت، بھوک اور بیماری کا بھی شکار ہوتے ہیں۔جوہری، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار پوری دنیا کی ماحولیات کو برباد کر سکتے ہیں۔ماحولیات اور ماحولیات یا آب و ہوا کو سرحدوں میں بانٹ کر نہیں رکھا جا سکتا۔ اسی طرح بین الاقوامی دہشت گردی کو بھی پوری دنیا کے ممالک کو مل کر ہی نپٹانا ہوگا۔ اگر دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا، تو ہم آنے والی نسلوں کو ایک صاف اور صحت مند ماحول اورآب و ہوا دے سکیں گے۔

ان سب کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کے لئے ہمارے پاس کوئی طریقہ ہے۔ ظاہر ہے جواب نفی میں ہوگا ،حالانکہ اب اس بات پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔جہاں تک کیمیائی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کا سوال ہے، اصل میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس اور موثر طریقہ کارموجود نہیں ہے۔ جنگ کے علاقے میں فوجی گیس ماسک اور جلد کو پوری طرح صاف رکھنے والے سوٹ پہن کر اپنا دفاع کچھ حد تک کر سکیں گے۔ مندرجہ بالا ملبوسات کے علاوہ مختلف قسم کے ویکسین اور مختلف قسم کی بایوٹکس کی بھاری خوراک حیاتیاتی ہتھیاروں کے حملے سے بھی بچاو میں ممد و مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن کسی ملک کے سارے عوام، خاص کر غریب اور ترقی پذیر یا پسماندہ ملک کے باسی، اپنا دفاع کس طرح کر پائین گے ؟ کیا وہ ملک اپنے عوام کی حفاظت کے مندرجہ بالا اقدامات کا خرچ برداشت کر سکے گا؟ چلیے، ایک لمحے کے لئے مان بھی لیا جائے کہ ایسا ممکن ہے تو کیا مندرجہ بالا اقدامات کافی ہوں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ کیمیکل کے نئے اقسام اور بیکٹیریا کے نئے جینیات کی انتہائی قسم بڑی آسانی سے مندرجہ بالا سیکورٹی اقدامات کوزک پہنچا سکتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے ان کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے ڈرنے کی۔ فی الحال ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ خدا وند کریم انسان کوعقل دے ،بصارت دے اورانھیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دے کہ وہ خود کوہلاکت میں ڈالنے سے روک سکیں۔آمین الہم آمین یا الہ العالمین۔

تحریر: محمدعلم اللہ اصلاحی
ایڈیٹنگ؛جناب نایابصاحب
نظر ثانی ؛جنابسید عاطف علیصاحب
 
آخری تدوین:

حسینی

محفلین
بہت ہی خوبصورت تحریر اصلاحی بھائی۔ ۔ ۔ اللہ آپ کی توفیقات خیر میں اضافہ فرما دے۔
کافی محنت کی ہے۔۔۔۔ اور موضوع پر کافی وشافی بحث کی ہے۔۔۔
سائنس کے حوالے سے تو بندہ بالکل نابلد ہوں اس لیے کوئی بحث کرنا فضول ہے۔
البتہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے۔۔۔ کہ علم جتنی ترقی کر لے۔۔ اس علم کے ساتھ خوف خدا اور معنویت وانسانیت نام کی کوئی چیز نہ ہو تو وہ علم اتنا ہی خطرناک ہے۔
دنیا میں ساری تباہی وبربادی بھی اور ساری عقیدتی کج فکری اور نت نئے مذاہب وخرافات بھی غالبا علم والے حضرات ہی کے کارنامے ہیں۔
جاہل بے چارہ تو اپنی دنیا میں مست دو وقت کی روٹی کی فکر کر رہا ہوتا ہے۔۔۔ اس کا ان کاموں سے کیا واسطہ۔
 

یوسف-2

محفلین
ماشاء اللہ اچھا لکھا ہے۔ اور تحقیق کا حق بھی خوب ادا کیا ہے۔ شیئرنگ کابہت بہت شکریہ
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
واہ جی واہ۔۔۔ بہت خوب۔۔بہت عمدہ اور معلوماتی تحریر ہے۔۔۔ صحافی کی حد تک آپ نے تحقیق کا پورا حق ادا کیا ہے۔۔
اسے فورا کسی مجلہ یا اخبار کو بھیجیں۔۔۔
کچھ شک نہیں کہ ایسی جنگ جو کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں سے لڑی جائے وہ انتہائی مہلک اور کسی بھی روایتی جنگ سے بہت زیادہ انسانیت سوز ہے۔
اللہ تعالیٰ انسانیت کی حفاظت فرمائیں اور ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھیں۔آمین
 

نایاب

لائبریرین
آج اور آنے وال کل سے منسلک آگہی بکھیرتی اور آنے والی نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لیئے حضرت انسان کے ضمیر کو جھنجوڑتی تحریر ۔
بہت سی دعاؤں بھری داد اصلاحی بھائی آپ کے نام
کئی بار کی پڑھی تحریر آس وقت پڑھتے ہوئے سوچ و خیال میں آگہی کے نئے نئے در وا ہورہے ہیں ۔
اور محترم سید عاطف علی بھائی کے نام بھی بہت سی دعاؤں بھری داد جنہوں نے بہت خوبصورتی کے ساتھ آپ کی سوچ کے بکھرے موتیوں کو مالا کی صورت ترتیب دیا ہے ۔ (جبکہ یہ میرے نزدیک اک مجہول و بے ربط تحریر ٹھہری تھی )۔
 

عمر سیف

محفلین
بہت خوب اصلاحی اور ان محفلین کا بھی جنھوں نے اس کام میں آپ کی مدد کی ۔۔ نہایت انفارمیٹیؤ تحریر ہے۔
:)
 

آصف اثر

معطل
ماشاء اللہ بہت تفصیلاً ذکر کیا ہے آپ نے موضوع کا۔ اللہ آپ کے قلم میں مزید روانی اور طاقت رکھے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت پر اثر تحریر ہے اس میں اصلاحی صاحب نے انسانیت کا درد سمو دیا ہے اور قلم کی طاقت کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ساتھ ساتھ تحقیق کے میدان میں بھی خاصی جدوجہد کر کے تحریر کو جاندار بنادیا ہے۔دو باتیں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جو تحریر میں کچھ استدلال کی کمی پوری کر کے نفس مضمون کو مزید بہتراور مضبوط ڈھانچہ پر استوار کیا جاسکتا ہے اور تحقیق کے تقاضے کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
اول یہ کہ اس تحریر میں جہاں کہیں کوئی اصطلاحی ترکیب ٹیکنیکل یا ٹرمینولوجیکل شامل کی جائے اسے مِن و عن انگریزی اصطلاح کے ساتھ قوسین میں ذکر کر دیا جائے ۔جیسا کہ کہیں کہیں کیا گیا ہے۔اور اگر کسی تاریخی حقیقت کا ذکر کیا جائے تو اس کا متعلقہ حوالہ قوسین (بریکٹس) یا حواشی شامل کر کے پورا کر دیا جائے۔مثلا: ایک ٹاکسک میٹیریل کی کی لیتھل ڈوذ کی مقدار ایک گرام کا اربواں حصہ ذکر کی گئی ہے۔
مجھے یقین کامل ہے کہ کوئی بھی حقیقت اصلاحی صاحب نے بغیر تحقیق کے ذکر نہیں کی ہوگی۔ لیکن اسے مندرجہ بالا طریقے سے تحریر کا حصہ بنا دیا جائے تو میری رائے میں تحریر مزید مستحکم ہو گی ۔اللہ تعالی مصنف کے قلم میں مزید قوت عطا کرے اور معاشرے میں قلم کی مؤثر طاقت کے ذریعے اپنا کردار ادا کریں۔
 
آخری تدوین:
ماشاءاللہ ۔۔بیٹا خوب معلوماتی تحریرہے اور تحقیق کا حق بھی خوب ادا ہوا ہے ۔۔ورنہ عموماََ اس قسم کے تحقیقی مضامین جہاں بےشمار حوالہ جات موجود ہوں وہاں بہت سے نکات کو احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہو جاتا ہے ۔مگر تحریر کی پختگی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے یہ کام بخوبی انجام دیا ہے ۔
عمدہ تحریر و تحقیق پر بہت سی شاباش ۔
اللہ آپ کے قلم کی روانی کو یونہی برقرار رکھیں ۔آمین :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاءاللہ !

بہت خوب تحریر ہے اصلاحی بھائی۔۔۔۔! تحریر بتاتی ہے کہ اس کے لئے بہت عرق ریزی سے کام لیا گیا ہے اور موضوع کے ساتھ بھرپور انصاف کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔۔۔!
 

محمداحمد

لائبریرین
رہی موضوع پر بات تو اس بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور انسان کو ہدایت کی راہ پر رکھے اور وہ شیطان کی راہ پر نہ بھٹکیں۔
 
ماشاءاللہ ۔۔بیٹا خوب معلوماتی تحریرہے اور تحقیق کا حق بھی خوب ادا ہوا ہے ۔۔ورنہ عموماََ اس قسم کے تحقیقی مضامین جہاں بےشمار حوالہ جات موجود ہوں وہاں بہت سے نکات کو احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہو جاتا ہے ۔مگر تحریر کی پختگی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے یہ کام بخوبی انجام دیا ہے ۔
عمدہ تحریر و تحقیق پر بہت سی شاباش ۔
اللہ آپ کے قلم کی روانی کو یونہی برقرار رکھیں ۔آمین :)
آنٹی سب سے پہلے آپ کا بے حد شکریہ
آپ کی محبت اور شفقت میرے لئے سرمایہ ہے ۔اور یہی چیزیں ہمیں آگے بڑھنے کے لئے مہمیز کرتی ہیں ۔
اللہ تعالی آپ کی دعا کو قبول فرمائے ۔
آمین
 
Top