دہلی کا الیکشن کیوں اہم ہے؟
سہیل حلیمبی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی
اس الیکشن نے وزیرِ اعلی کے لیے پارٹی کی امیدوار کرن بیدی کے بجائے مودی بنام کیجریوال کی شکل اختیار کر لی ہے۔
دہلی ایک ’چھوٹا انڈیا‘ ہے جہاں ملک کے ہر کونے سے لوگ اپنی قسمت آزمانے آتے ہیں۔
ممبئی کی طرح یہ آرزوؤں اور امنگوں کا شہر ہے لیکن یہاں شیوسینا جیسی علاقائی جماعتیں نہیں ہیں، جو شہر کو کسی تنگ نظریے ، زبان، نسل یا مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہوں یا کر سکتی ہوں، اس لیے یہاں کی سیاست باقی ملک سے ذرا مختلف ہے۔
انتخابی مہم کی تلخیاں اور الزام تراشی اپنی جگہ لیکن دہلی شاید ملک کی واحد ریاست ہے جہاں لوگ صرف مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر ووٹ نہیں کرتے، وہ ترقی کا ایجنڈا بھی دیکھنا چاہتے ہیں، اور یہ الیکشن اس خواہش کی بہترین مثال ہے۔
اسی لیے فی الحال دہلی کے تقریباً سوا کروڑ ووٹر دو ایسے رہنماؤں کے درمیان بٹے ہوئے ہیں جو ان کی زندگیاں بدلنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔
ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی ہیں اور دوسری طرف عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال۔ ایک طرف خوشحال اور متوسط طبقہ ہے اور دوسری طرف وہ لوگ جو کسی طرح بس گزر بسر کر رہے ہیں۔
زیادہ تر تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ اس الیکشن نے مذہب، ذات یا زبان کے بجائے طبقے کی بنیاد پر ووٹروں کو تقسیم کردیا ہے۔
کرن بیدی دہلی کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے بی جے پی کی امیدوار ہیں
ان کے خیال میں دہلی کی کچی بستیوں میں عام آدمی پارٹی کا جادو چلے گا تو خوشحال صاف ستھری کالونیوں میں بی جے پی کا۔
لیکن اگر دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے تو یہ الیکشن انتا اہم کیوں ہے؟
کیوں وزیر اعظم نریندر مودی پوری کابینہ کو ساتھ لے کر انتخابی میدان میں اتر گئے ہیں، کچھ اس حد تک کہ اس الیکشن نے وزیرِ اعلی کے لیے پارٹی کی امیدوار کرن بیدی کے بجائے مودی بنام کیجریوال کی شکل اختیار کر لی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جو دہلی پر راج کرتا ہے، ہندوستان پر بھی اسی کی حکومت ہوتی ہے۔
اس معاملے میں یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ مئی کے پارلیمانی انتخابات نے یہ ثابت کردیا تھا کہ عام آدمی پارٹی کی شہرت تو دہلی کی حدود سے باہر پہنچی تھی لیکن مقبولیت نہیں۔(پارٹی نے صرف پنجاب سے چار سیٹیں جیتی تھیں)۔
اس کے برعکس مودی نے ایک نیا انتخابی ریکارڈ قائم کیا تھا، انہوں نے پارلیمانی الیکشن کو اپنی اور راہول گاندھی کی شخصیت کے درمیان ایک ریفرینڈم کی شکل دی، اور پارلیمان میں 30 سال کے بعد کسی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی۔
عام آدمی پارٹی کی حکومت اور اس کی غیر روایتی سیاست دہلی میں مودی کے لیے ایک مستقل درد سر بن سکتی ہے۔
اس کے بعد جتنی بھی ریاستوں میں اسمبلی کے انتخابات ہوئے ہیں، بی جے پی کی شاندار کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔(کشمیر کو چھوڑ کر لیکن وہاں بھی بی جے پی پہلی مرتبہ دوسری سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ دہلی کے الیکشن کے فوراً بعد پی ڈی پی کے ساتھ مل کر وہاں حکومت بنائے گی)۔
اس لیے اگر بی جے پی دہلی میں ہار جاتی ہے تو آپ اخباروں اور ٹی وی چینلوں کی ہیڈ لائنز کا اندازہ لگا سکتے ہیں: ’عام آدمی نے روکا مودی کا روڈ رولر ۔۔۔یا شاید عام آدمی کی جھاڑو نے کیا بی جے پی کا صفایا۔۔۔‘
اور یہ پیغام جائے گا کہ نریندر مودی نے پورے ملک میں تو پارٹی کا پرچم بلند کیا لیکن دہلی میں ایک چھوٹی سی پارٹی سے ہار گئے۔
یعنی بہار،مغربی بنگال، اترپردیش اور اڑیسہ جیسی ریاستوں میں، جہاں کانگریس نہیں بلکہ علاقائی جماعتیں اقتدار میں ہیں، مودی کو روکا جا سکتا ہے اور شاید یہ ہی وجہ کہ کئی علاقائی جماعتوں نے دہلی کے ووٹروں سے عام آدمی پارٹی کی حمایت کرنے کی اپیل کی ہے۔
یہ وہ تاج ہے جو مودی کسی بھی قیمت پر پہننا چاہتے ہیں اور کسی بھی سیاسی پیغام سے زیادہ انہیں شاید یہ فکر ہوگی کہ عام آدمی پارٹی کی حکومت اور اس کی غیر روایتی سیاست دہلی میں ان کے لیے ایک مستقل درد سر بن سکتی ہے۔
دہلی شاید ملک کی واحد ریاست ہے جہاں لوگ صرف مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر ووٹ نہیں کرتے
ذرا تصور کیجیے کہ دہلی میں اگر کیجریوال کی حکومت بنتی ہے اور کوئی ریپ یا اغوا کا واقعہ پیش آتا ہے اور کیجریوال اس مطالبے کو منوانے کے لیے وزیر اعظم کے گھر کے سامنے دھرنے پر بیٹھ جاتے ہیں کہ دہلی پولیس کا کنٹرول ریاستی حکومت کو دیا جائے، تو کیا ہوگا۔
یہ خبر چوبیسوں گھنٹے ٹی وی چینلوں پر ہوگی، بالکل گزشتہ برس کے دھرنے کی طرح، اور جیسا انا ہزارے کی تحریک کے دوران اور پھر دہلی بس گینگ ریپ کیس کے بعد کانگریس کی حکومت کو اندازہ ہوا تھا، ایک بار مظاہرین سڑکوں پر اتر آئیں تو انہیں خالی ہاتھ گھر واپس بھیجنا آسان نہیں ہوتا۔
عام آدمی پارٹی خود نریندر مودی کی طرح الیکٹرانک میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنا جانتی ہے، اور اگر وہ یہ الیکشن جیت جاتی ہے تو وفاقی اور ریاستی حکومت کے درمیان غیر معمولی رسہ کشی کا سلسلہ شروع ہوگا اور ہار جیت ٹی وی پر براہ راست دکھائی جائے گی۔
یہ ہی شاید بی جے پی کی سب سے بڑی فکر ہے۔
سہیل حلیمبی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی
اس الیکشن نے وزیرِ اعلی کے لیے پارٹی کی امیدوار کرن بیدی کے بجائے مودی بنام کیجریوال کی شکل اختیار کر لی ہے۔
دہلی ایک ’چھوٹا انڈیا‘ ہے جہاں ملک کے ہر کونے سے لوگ اپنی قسمت آزمانے آتے ہیں۔
ممبئی کی طرح یہ آرزوؤں اور امنگوں کا شہر ہے لیکن یہاں شیوسینا جیسی علاقائی جماعتیں نہیں ہیں، جو شہر کو کسی تنگ نظریے ، زبان، نسل یا مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہوں یا کر سکتی ہوں، اس لیے یہاں کی سیاست باقی ملک سے ذرا مختلف ہے۔
انتخابی مہم کی تلخیاں اور الزام تراشی اپنی جگہ لیکن دہلی شاید ملک کی واحد ریاست ہے جہاں لوگ صرف مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر ووٹ نہیں کرتے، وہ ترقی کا ایجنڈا بھی دیکھنا چاہتے ہیں، اور یہ الیکشن اس خواہش کی بہترین مثال ہے۔
اسی لیے فی الحال دہلی کے تقریباً سوا کروڑ ووٹر دو ایسے رہنماؤں کے درمیان بٹے ہوئے ہیں جو ان کی زندگیاں بدلنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔
ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی ہیں اور دوسری طرف عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال۔ ایک طرف خوشحال اور متوسط طبقہ ہے اور دوسری طرف وہ لوگ جو کسی طرح بس گزر بسر کر رہے ہیں۔
زیادہ تر تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ اس الیکشن نے مذہب، ذات یا زبان کے بجائے طبقے کی بنیاد پر ووٹروں کو تقسیم کردیا ہے۔
کرن بیدی دہلی کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے بی جے پی کی امیدوار ہیں
ان کے خیال میں دہلی کی کچی بستیوں میں عام آدمی پارٹی کا جادو چلے گا تو خوشحال صاف ستھری کالونیوں میں بی جے پی کا۔
لیکن اگر دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے تو یہ الیکشن انتا اہم کیوں ہے؟
کیوں وزیر اعظم نریندر مودی پوری کابینہ کو ساتھ لے کر انتخابی میدان میں اتر گئے ہیں، کچھ اس حد تک کہ اس الیکشن نے وزیرِ اعلی کے لیے پارٹی کی امیدوار کرن بیدی کے بجائے مودی بنام کیجریوال کی شکل اختیار کر لی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جو دہلی پر راج کرتا ہے، ہندوستان پر بھی اسی کی حکومت ہوتی ہے۔
اس معاملے میں یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ مئی کے پارلیمانی انتخابات نے یہ ثابت کردیا تھا کہ عام آدمی پارٹی کی شہرت تو دہلی کی حدود سے باہر پہنچی تھی لیکن مقبولیت نہیں۔(پارٹی نے صرف پنجاب سے چار سیٹیں جیتی تھیں)۔
اس کے برعکس مودی نے ایک نیا انتخابی ریکارڈ قائم کیا تھا، انہوں نے پارلیمانی الیکشن کو اپنی اور راہول گاندھی کی شخصیت کے درمیان ایک ریفرینڈم کی شکل دی، اور پارلیمان میں 30 سال کے بعد کسی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی۔
عام آدمی پارٹی کی حکومت اور اس کی غیر روایتی سیاست دہلی میں مودی کے لیے ایک مستقل درد سر بن سکتی ہے۔
اس کے بعد جتنی بھی ریاستوں میں اسمبلی کے انتخابات ہوئے ہیں، بی جے پی کی شاندار کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔(کشمیر کو چھوڑ کر لیکن وہاں بھی بی جے پی پہلی مرتبہ دوسری سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ دہلی کے الیکشن کے فوراً بعد پی ڈی پی کے ساتھ مل کر وہاں حکومت بنائے گی)۔
اس لیے اگر بی جے پی دہلی میں ہار جاتی ہے تو آپ اخباروں اور ٹی وی چینلوں کی ہیڈ لائنز کا اندازہ لگا سکتے ہیں: ’عام آدمی نے روکا مودی کا روڈ رولر ۔۔۔یا شاید عام آدمی کی جھاڑو نے کیا بی جے پی کا صفایا۔۔۔‘
اور یہ پیغام جائے گا کہ نریندر مودی نے پورے ملک میں تو پارٹی کا پرچم بلند کیا لیکن دہلی میں ایک چھوٹی سی پارٹی سے ہار گئے۔
یعنی بہار،مغربی بنگال، اترپردیش اور اڑیسہ جیسی ریاستوں میں، جہاں کانگریس نہیں بلکہ علاقائی جماعتیں اقتدار میں ہیں، مودی کو روکا جا سکتا ہے اور شاید یہ ہی وجہ کہ کئی علاقائی جماعتوں نے دہلی کے ووٹروں سے عام آدمی پارٹی کی حمایت کرنے کی اپیل کی ہے۔
یہ وہ تاج ہے جو مودی کسی بھی قیمت پر پہننا چاہتے ہیں اور کسی بھی سیاسی پیغام سے زیادہ انہیں شاید یہ فکر ہوگی کہ عام آدمی پارٹی کی حکومت اور اس کی غیر روایتی سیاست دہلی میں ان کے لیے ایک مستقل درد سر بن سکتی ہے۔
دہلی شاید ملک کی واحد ریاست ہے جہاں لوگ صرف مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر ووٹ نہیں کرتے
ذرا تصور کیجیے کہ دہلی میں اگر کیجریوال کی حکومت بنتی ہے اور کوئی ریپ یا اغوا کا واقعہ پیش آتا ہے اور کیجریوال اس مطالبے کو منوانے کے لیے وزیر اعظم کے گھر کے سامنے دھرنے پر بیٹھ جاتے ہیں کہ دہلی پولیس کا کنٹرول ریاستی حکومت کو دیا جائے، تو کیا ہوگا۔
یہ خبر چوبیسوں گھنٹے ٹی وی چینلوں پر ہوگی، بالکل گزشتہ برس کے دھرنے کی طرح، اور جیسا انا ہزارے کی تحریک کے دوران اور پھر دہلی بس گینگ ریپ کیس کے بعد کانگریس کی حکومت کو اندازہ ہوا تھا، ایک بار مظاہرین سڑکوں پر اتر آئیں تو انہیں خالی ہاتھ گھر واپس بھیجنا آسان نہیں ہوتا۔
عام آدمی پارٹی خود نریندر مودی کی طرح الیکٹرانک میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنا جانتی ہے، اور اگر وہ یہ الیکشن جیت جاتی ہے تو وفاقی اور ریاستی حکومت کے درمیان غیر معمولی رسہ کشی کا سلسلہ شروع ہوگا اور ہار جیت ٹی وی پر براہ راست دکھائی جائے گی۔
یہ ہی شاید بی جے پی کی سب سے بڑی فکر ہے۔