عباس تابش دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا (عباس تابش)

عاطف بٹ

محفلین
دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا​
میں اپنے ہاتھ کا تتلی پہ سایہ کرتا تھا​
اگر میں پوچھتا بادل کدھر کو جاتے ہیں​
جواب میں کوئی آنسو بہایا کرتا تھا​
یہ چاند ضعف ہے جس کی زباں نہیں کھلتی​
کبھی یہ چاند کہانی سنایا کرتا تھا​
میں اپنی ٹوٹتی آواز گانٹھنے کے لئے​
کہیں سے لفظ کا پیوند لایا کرتا تھا​
عجیب حسرتِ پرواز مجھ میں ہوتی تھی​
میں کاپیوں میں پرندے بنایا کرتا تھا​
تلاشِ رزق میں بھٹکے ہوئے پرندوں کو​
میں جیب خرچ سے دانہ کھلایا کرتا تھا​
ہمارے گھر کے قریب ایک جھیل ہوتی تھی​
اور اس میں شام کو سورج نہایا کرتا تھا​
یہ زندگی تو مجھے تیرے پاس لے آئی​
یہ راستہ تو کہیں اور جایا کرتا تھا​
 
Top