عبدالودود
محفلین
دیارِچشم سے اس دل میں اُتر جانے دو
مرنا چاہتے ہیں،تیری باہوں میں مرجانے دو
اتنا پاگل ہے کسی چیز کی پرواہ نہ کرے
ہجرانِ یار سےاس قلب کو ڈر جانے دو
میرا دعدیٰ ہے تجھے چھین کر لے آونگا
پر بھروسا بھی نہیں، میرا بھی سرجانےدو
شبِ ہجران میں خود کو بھی کہیں کھویا ہے
کوئ رستہ تو دکھاؤ ،مجھےگھر جانے دو
عاشقی مرگ ہے،دنیا سے بھی ہاتھ دھولونگا
اور توبہ ہے،ہمیں اب سے صدر جانے دو
آج میں نے بھی سرِ راہ میں پی رکھی ہے
جھومنے دو،کہیں رستے میں ہی گر جانے دو
دید بالوں کی تمنا میں جکڑ رکھا ہے
زلف اپنوں کو بھی کندھوں پہ بکھر جانے دو
اب تو دھڑکن سے بھی وابستہ ہیں یادیں تیری
اب تو عبدالؔ کوبھی سنگ اسکےبسرجانے دو
مرنا چاہتے ہیں،تیری باہوں میں مرجانے دو
اتنا پاگل ہے کسی چیز کی پرواہ نہ کرے
ہجرانِ یار سےاس قلب کو ڈر جانے دو
میرا دعدیٰ ہے تجھے چھین کر لے آونگا
پر بھروسا بھی نہیں، میرا بھی سرجانےدو
شبِ ہجران میں خود کو بھی کہیں کھویا ہے
کوئ رستہ تو دکھاؤ ،مجھےگھر جانے دو
عاشقی مرگ ہے،دنیا سے بھی ہاتھ دھولونگا
اور توبہ ہے،ہمیں اب سے صدر جانے دو
آج میں نے بھی سرِ راہ میں پی رکھی ہے
جھومنے دو،کہیں رستے میں ہی گر جانے دو
دید بالوں کی تمنا میں جکڑ رکھا ہے
زلف اپنوں کو بھی کندھوں پہ بکھر جانے دو
اب تو دھڑکن سے بھی وابستہ ہیں یادیں تیری
اب تو عبدالؔ کوبھی سنگ اسکےبسرجانے دو
مدیر کی آخری تدوین: