امان زرگر
محفلین
محمد ریحان قریشی اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دےتارسی اور عربی کا ملاپ ضرور ہو سکتا ہے، لیکن ہندی کا نہیں، اس لحاظ سے بلد نگر کی بہ نسبت زیادہ قابل قبول ہے۔ لیکن کچھا ور لفظ ہو تو بہتر ہے۔
محمد ریحان قریشی اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دےتارسی اور عربی کا ملاپ ضرور ہو سکتا ہے، لیکن ہندی کا نہیں، اس لحاظ سے بلد نگر کی بہ نسبت زیادہ قابل قبول ہے۔ لیکن کچھا ور لفظ ہو تو بہتر ہے۔
سر ذرا دیکھئے گا کچھ بہتر لگے تواس وقت ہی کچ اہمیت ہو سکتی ہے جب ایک ہی قافیہ دو اشعار میں مسلسل آئے۔ یا دو اشعار میں تسلسل سے ایک ہی خیال کی گونج ہو ۔ اس صورت میں فاصلہ رکھنا مناسب ہے۔
اس غزل کی زمین ہی مجھے پسند نہیں آئی۔ محاورہ اور روانی دونوں بہتر ہو سکتی ہے اگر اس زمین کو، یا ردیف کو ’ضد ہے ان کو‘ کر دیا جائے۔
اب اشعار کو پھر دیکھیں
اجاڑ کر میرے دل کی ہستی.
نئے ٹھکانے کی ضد میں ہیں وہ
ہستی کیوں؟ یہاں ’بستی‘ زیادہ مناسب لگتا ہے۔
بھلا سا دنیائے آب و گل میں.
نگر بسانے کی ضد میں ہیں وہ.
یہں دوسرے مصرع میں ہندی کا نگر ہے جو پہلے مصرع کی دنیائے آب و گل کی ترکیب سے مناسبت نہیں رکھتا۔ اس کو بدل دو۔
اس پہ محنت کرتا ہوں سر نو کو چرخ کے قریب لانے کے لئےدرست ہو گئی ہے غزل۔ لیکن پہلے کیا تھا، یا مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا، لیکن اب کم از کم عجیب لگ رہا ہے
بدل کے چرخِ کہن کو نو سے
’نو سے‘ کا نو چرخ سے الگ ہونے کے باعث گنتی سمجھا جا سکتا ہے۔ نو سے، دس سے۔۔۔۔