محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
دیباچہ بانگِ درا
ایک ایکٹ کا کھیل
منظر: اسٹیج پر بائیں طرف ایک دری بچھی ہے جس پر چند لوگ بیٹھے، دائیں طرف رکھی ہوئی تین کرسیوں کی طرف متوجہ ہیں۔ کرسیوں پر دو افراد اپنی اپنی باری کے منتظر بیٹھے ہوئے ہیں۔
شیخ عبدالقادر اسٹیج کی پچھلی جانب سے نمودار ہوتے ہیں اور سبک خرامی کے ساتھ چلتے ہوئے سامنے آجاتے ہیں۔
شیخ عبدالقادر: کسے خبر تھی کہ غالبِ مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا جو اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخئیل اور نرالا اندازِ بیان پھر وجود میں آئیں گے، مگر اردو زبان کی خوش اقبالی دیکھئیے کہ اس زمانے میں اقبال سا شاعر اسے نصیب ہوا جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اردو داں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے۔
جب شیخ محمد اقبال کے والدِ بزرگوار اور ان کی پیاری ماں ان کا نام تجویز کررہے ہوں گے تو قبولیتِ دعا کا وقت ہوگا کہ ان کا دیا ہوا نام اپنے پورے معنوں میں صحیح ثابت ہوا اور ان کا اقبال مند بیٹا ہندوستان میں تحصیلِ علم سے فارغ ہوکر انگلستان پہنچا، وہاں کیمبرج میں کامیابی سے وقت ختم کرکے جرمنی گیا اور علمی دنیا کے اعلیٰ مدارج طے کرکے واپس آیا۔
اسٹیج سکریٹری: حضراتِ گرامی قدر! اب میں دعوتِ کلام دے رہا ہوں ، صاحبِ طرز غزل گو شاعر نواب مرزا خان صاحب داغ دھلوی کو، جو یوں تو کسی تعارف کے محتاج نہیں ، لیکن نظامِ دکن کے استاد ہونے کی حیثیت سے ان کی شہرت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ جو لوگ ان کے پاس جا نہیں سکتے ہیں، خطو کتابت کے ذریعے دور ہی سے ان سے شاگردی کی نسبت پیدا کرتے ہیں۔
داغ دھلوی: ( اٹھ کر)
اسٹیج سکریٹری: یا حضرت میں تو۔۔۔( شیخ عبدالقادر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ۔۔۔ بانگِ درا کے دیباچے سے اقتباس سنا رہا تھا۔( ناظرین کی طرف متوجہ ہوکر مسکراتے ہوئے) حضرت داغ دھلوی۔
داغ دھلوی: ایک غزل کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
اسٹیج سکریٹری: اب میں دعوتِ کلام دے رہا ہوں، داغ دھلوی کے غائبانہ شاگرد کو۔ تشریف لاتے ہیں جناب اقبال۔
اقبال: اقبال ہنیشہ دیر ہی سے آتا ہے۔ ( کھڑے ہوکر) ایک نظم پیشِ خدمت ہے۔ ہمالہ۔
( واہ وا ہوتی ہے)
شیخ عبدالقادر: واہ وا ، اقبال صاحب! بہت خوب۔ میرے رسالے مخزن کے لیے تو یہی نظم دیدیجئے۔
اقبال: میرے خیال میں اس نظم میں کچھ خامیاں ہیں، اور دوسری کوئی نظم تیار نہیں۔
شیخ عبدالقادر: سامعین کی طرف اشارہ کرکے) اس نظم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے میرا اصرار ہے کہ یہی نظم دیدیجیے، اور دوسرے مہینے کے لیے کوئی اور لکھیئے۔
شیخ عبدالقادر: (داغ دھلوی سے مخاطب ہوکر) حضرت! کچھ اپنے اس ہونہار شاگرد کے بارے میں فرمائیے۔
داغ دھلوی: یوں تو سینکڑوں آدمی ہم سے غائبانہ تلمذ رکھتے ہیں اور ہمیں اس کام کے لیے ایک عملہ اور محکمہ رکھنا پڑا ہے ۔ شیخ محمد اقبال نے بھی ہمیں خط لکھا اور اپنی چند غزلیں اصلاح کے لیے بھیجی ہیں۔
اقبال: اس طرح مجھے یعنی اقبال کو بھیایسے استاد سے نسبت پیدا ہوئی جو اپنے وقت میں زبان کی خوبی کے لحاظ سے فنِ غزل میں یکتا سمجھا جاتا ہے۔
داغ دھلوی: ہم تو اقبال کی چند ابتدائی غزلیں دیکھ کر ہی پہچان گئے تھے کہ پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلع کا طالبِ علم کوئی معمولی غزل گو نہیں۔ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔
اقبال: میرا دل میں اس مختصر اور غائبانہ تعلق کی بھی قدر ہے۔
داغ دھلوی: مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اقبال بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن کے کلام کی میں نے اصلاح کی۔
شیخ عبدالقادر: میں صاحبانِ ذوق کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اردو کلیات اقبال ان کے سامنے رسالوں اور گلدستوں کے اوراقِ پریشاں سے نکل کر ایک مجموعہ دلپزیر کی شکل میں جلوہ گر ہے اور امید ہے کہ جو لوگ مدت سے اس کلام کو یکجا دیکھنے کے مشتاق تھے، وہ اس مجموعے کو شوق کی نگاہوں سے دیکھیں گے اور دل سے اس کی قدر کریں گے۔
پہلی دفعہ جنریشن اسکول کراچی میں ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۷ کو پیش کیا گیا جس میں مندرجہ ذیل طلبا نے حصہ لیا۔
ابراہیم نقوی شیخ عبدالقادر
عثمان خلیل اسٹیج سکریٹری
حسین عاشق اقبال
عثمان فاروق داغ
ہدایات و پیشکش: مس عذرا علوی اور مس زاہدہ : زیر انتظام اقبال سوسائیٹی
از محمد خلیل الرحمٰنایک ایکٹ کا کھیل
منظر: اسٹیج پر بائیں طرف ایک دری بچھی ہے جس پر چند لوگ بیٹھے، دائیں طرف رکھی ہوئی تین کرسیوں کی طرف متوجہ ہیں۔ کرسیوں پر دو افراد اپنی اپنی باری کے منتظر بیٹھے ہوئے ہیں۔
شیخ عبدالقادر اسٹیج کی پچھلی جانب سے نمودار ہوتے ہیں اور سبک خرامی کے ساتھ چلتے ہوئے سامنے آجاتے ہیں۔
شیخ عبدالقادر: کسے خبر تھی کہ غالبِ مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا جو اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخئیل اور نرالا اندازِ بیان پھر وجود میں آئیں گے، مگر اردو زبان کی خوش اقبالی دیکھئیے کہ اس زمانے میں اقبال سا شاعر اسے نصیب ہوا جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اردو داں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے۔
جب شیخ محمد اقبال کے والدِ بزرگوار اور ان کی پیاری ماں ان کا نام تجویز کررہے ہوں گے تو قبولیتِ دعا کا وقت ہوگا کہ ان کا دیا ہوا نام اپنے پورے معنوں میں صحیح ثابت ہوا اور ان کا اقبال مند بیٹا ہندوستان میں تحصیلِ علم سے فارغ ہوکر انگلستان پہنچا، وہاں کیمبرج میں کامیابی سے وقت ختم کرکے جرمنی گیا اور علمی دنیا کے اعلیٰ مدارج طے کرکے واپس آیا۔
( شیخ عبدالقادر اپنی بات ختم کرکے پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں اور پچھلے قدموں اسٹیج کے دائیں جانب ہوجاتے ہیں۔ کرسی پر بیٹھے ہوئے اسٹیج سکریٹری اٹھتے ہیں اور دری پر بیٹھے ہوئے سامعینِ مشاعرہ کو مخاطب کرتے ہیں)اسٹیج سکریٹری: حضراتِ گرامی قدر! اب میں دعوتِ کلام دے رہا ہوں ، صاحبِ طرز غزل گو شاعر نواب مرزا خان صاحب داغ دھلوی کو، جو یوں تو کسی تعارف کے محتاج نہیں ، لیکن نظامِ دکن کے استاد ہونے کی حیثیت سے ان کی شہرت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ جو لوگ ان کے پاس جا نہیں سکتے ہیں، خطو کتابت کے ذریعے دور ہی سے ان سے شاگردی کی نسبت پیدا کرتے ہیں۔
داغ دھلوی: ( اٹھ کر)
ناروا کہیئے ، ناسزا کہیئے
کہیئے کہیئے ، مجھے برا کہیئےاسٹیج سکریٹری: یا حضرت میں تو۔۔۔( شیخ عبدالقادر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ۔۔۔ بانگِ درا کے دیباچے سے اقتباس سنا رہا تھا۔( ناظرین کی طرف متوجہ ہوکر مسکراتے ہوئے) حضرت داغ دھلوی۔
داغ دھلوی: ایک غزل کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
نتیجہ نہ نکلا، تھکے سب پیامی
وہاں جاتے جاتے، یہاں آتے آتے
نہیں کھیل اے داغ ! یاروں سے کہدو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
( واہ وا ہوتی ہے۔ اقبال اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں اور تیز تیز قدموں سے چل کر ایک کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں)اسٹیج سکریٹری: اب میں دعوتِ کلام دے رہا ہوں، داغ دھلوی کے غائبانہ شاگرد کو۔ تشریف لاتے ہیں جناب اقبال۔
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتےاقبال: اقبال ہنیشہ دیر ہی سے آتا ہے۔ ( کھڑے ہوکر) ایک نظم پیشِ خدمت ہے۔ ہمالہ۔
اے ہمالہ ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں
ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لیے
تو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے( واہ وا ہوتی ہے)
شیخ عبدالقادر: واہ وا ، اقبال صاحب! بہت خوب۔ میرے رسالے مخزن کے لیے تو یہی نظم دیدیجئے۔
اقبال: میرے خیال میں اس نظم میں کچھ خامیاں ہیں، اور دوسری کوئی نظم تیار نہیں۔
شیخ عبدالقادر: سامعین کی طرف اشارہ کرکے) اس نظم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے میرا اصرار ہے کہ یہی نظم دیدیجیے، اور دوسرے مہینے کے لیے کوئی اور لکھیئے۔
( اقبال اپنی نظم شیخ عبدالقادر کے حوالے کرتے ہیں)شیخ عبدالقادر: (داغ دھلوی سے مخاطب ہوکر) حضرت! کچھ اپنے اس ہونہار شاگرد کے بارے میں فرمائیے۔
داغ دھلوی: یوں تو سینکڑوں آدمی ہم سے غائبانہ تلمذ رکھتے ہیں اور ہمیں اس کام کے لیے ایک عملہ اور محکمہ رکھنا پڑا ہے ۔ شیخ محمد اقبال نے بھی ہمیں خط لکھا اور اپنی چند غزلیں اصلاح کے لیے بھیجی ہیں۔
اقبال: اس طرح مجھے یعنی اقبال کو بھیایسے استاد سے نسبت پیدا ہوئی جو اپنے وقت میں زبان کی خوبی کے لحاظ سے فنِ غزل میں یکتا سمجھا جاتا ہے۔
داغ دھلوی: ہم تو اقبال کی چند ابتدائی غزلیں دیکھ کر ہی پہچان گئے تھے کہ پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلع کا طالبِ علم کوئی معمولی غزل گو نہیں۔ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔
اقبال: میرا دل میں اس مختصر اور غائبانہ تعلق کی بھی قدر ہے۔
داغ دھلوی: مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اقبال بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن کے کلام کی میں نے اصلاح کی۔
( اقبال اور داغ کرسیوں پر اسٹیج سکریٹری کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور شیخ عبدالقادر اسٹیج کے سامنے کی جانب لوٹ آتے ہیں۔)شیخ عبدالقادر: میں صاحبانِ ذوق کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اردو کلیات اقبال ان کے سامنے رسالوں اور گلدستوں کے اوراقِ پریشاں سے نکل کر ایک مجموعہ دلپزیر کی شکل میں جلوہ گر ہے اور امید ہے کہ جو لوگ مدت سے اس کلام کو یکجا دیکھنے کے مشتاق تھے، وہ اس مجموعے کو شوق کی نگاہوں سے دیکھیں گے اور دل سے اس کی قدر کریں گے۔
(پردہ)
ماخوذ از دیباچہ بانگِ درا
از شیخ عبدالقادر بار ایٹ لا ، سابق مدیرِ مخزنپہلی دفعہ جنریشن اسکول کراچی میں ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۷ کو پیش کیا گیا جس میں مندرجہ ذیل طلبا نے حصہ لیا۔
ابراہیم نقوی شیخ عبدالقادر
عثمان خلیل اسٹیج سکریٹری
حسین عاشق اقبال
عثمان فاروق داغ
ہدایات و پیشکش: مس عذرا علوی اور مس زاہدہ : زیر انتظام اقبال سوسائیٹی